جمعہ، 27 مارچ، 2020

"اِک پَرِ خیال(39) "

" اِک پَرِ خیال "
" جائزہ تو لیں " ( عالمی وباء کرونا کے تناظر میں )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
٭بندہ کئی دفعہ مسائل سے گھبرا کر تنہائی کا شکار ہو کر ، خوب روتا ہے ، اور اس کے منہ سے یہ جملے بےاختیار نکلتے ہیں ' میرے مولا ، میَں تنہا ہوں ، میرا کوئی نہیں جو میرے دکھ کو سمجھے " ،،، اُس کی فریادیں سُن کر خالقِ حقیقی مسکراتا ہے ، تُو غور کر میرے بندے میَں تو تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں ، تُو جو سوچتا ہے میَں اس سے پہلے ہی جان جاتا ہوں، تُجھے خود ہی پریشان ہونے کا شوق ہے، تو میَں کیسے تیرے دل کو اطمینان دوں ،،میَں تو ہر لمحہ تیرے ساتھ ہوں ،لیکن میَں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا " میَں آزماؤں گا ، مال سے ، اولاد سے، نفس سے " !!۔
٭ ،،مجھے اپنے بچوں سے عشق ہے ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ میری محبوبہ اگر مجھے نہ ملی تو میں مَر جاؤں گا ، خود کُشی کر لوں گا۔ اپنے والدین سے میری محبت دنیا کی تمام محبتوں پر حاوی ہے ،،،،،،لیکن یہ کیسی وباء ، اور ہوا چلی کہ ہر محبت کو تین فٹ دور کر دیا ، ذرا سا بھی دوسرے کی چھینک ، یا کھانسی ہمارے فیلرز ( محسوسات) کو عام دنوں سے دُگنا کر چکی ہے ،،، کہیں ایسا نہ ہو جاۓ ،کہیں ویسا نہ ہو جاۓ،،، حالانکہ ہم پر واضع کیا جا چکا ہے " روزِ محشر نہ اولاد والدین کو دیکھے گی ، نہ والدین اولاد کو،کہیں مجھ سے نیکی کی مدد نہ مانگ بیٹھیں " !!۔
٭ اس زندگی کی حددرجہ چہل پہل کے دوران ، وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں " اکثر" جا کراُن کی غمی خوشی میں شریک ہوں ،، لیکن قدرت نے بتا دیا ، میَں تمہیں اسی چہل پہل سے بےنیاز کر دوں گا ۔ پھر تمہیں بھُولے رشتے یاد آ ئیں گے ،، لیکن اب ملنا ممکن نہیں ، اس لیے ابھی یہاں کی شرمندگی کا ازالہ کر لو !!۔
٭ یو کے ،، اور یو ایس تو جنت ہے ،، سیر کے لیۓ بھی ، اور جب بیمار ہو تو علاج کے لیۓ بھی ،،، واہ !وہاں کے علاج کا کیا کہنا ،،، ان ممالک کا ویزہ لگنے پر " الحمدُ للہ" کہا جاتا ہے ۔ لیکن اب ،، ایک اَن دیکھے جر ثومے نے یو کے اور یوایس کی حیثیت کھوٹے سِکے جیسی کر کے رکھ دی ہے ۔ یہ تیسری دنیا جیسی بھی ہے ، ٹھیک ہے ! قدر و منزلت کے معیار کیسے بدل گئے۔
٭ مدتوں بعد گنجان آباد شہروں کے باسیوں نے "خاموش کرونے کے ذریعے خاموشی کی آواز سنی ،، !!۔
٭ جدید ٹیکنالوجی کو کم فہم لوگوں نے صرف اپنی ذات کا غلام بنا لیا تھا ،،، موبائل ہے تو گھنٹوں ، گوسپ چل رہی ہے ، میری ساس ، میری بہو ، میری دیورانی ، میرا شوہر ، میرا نمک حرام نوکر،، کون سے رشتے نہ تھے جو زبان کی غلاظتوں سے آلودہ نہ کیۓ جاتے ہوں ،،، کوئی ڈر نہیں کوئی خوف نہیں کہ کاتبین کو لکھنے کے لیے کیا کیا مواد دیا جا رہا ہے ، آہ اور واہ کے پروگرام کی حدیں نہ رہیں تھیں ۔ ننّھے سے جر ثومے نے ایسی لمبی چھٹیاں کروا دیں کہ " بوریت " جا ہی نہیں پا رہی ۔ جنھوں نے سبق نہیں لینا ، وہ اس دورِ فتن میں بھی آلودہ ہیں ، حالانکہ صرف ہاتھ ہی نہیں دھونے لازم ،،، بلکہ اخلاق بھی دھونے کا موقع مل گیا ہے ، !!۔
٭ یہ وباء انسانی سازش کا نتیجہ ہے ، یا نہیں !! اللہ اپنے بندوں کو جھنجھوڑنے کے لیۓ ، کبھی بخت نصر کو بھیجتا ہے، کبھی چنگیز خان کو ،، بھی تیمور لنگ کی صورت میں انسان کی عقل کو گُھما کر رکھ دیتا ہے ۔اور انسان ؟؟؟؟ " بےشک انسان بڑا جلدباز ، جھگڑالو ، اورمتکبر ہے ،، وہ اگرسوچے تو وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں ناک و ناک ڈوبا ہوا ہے ۔ اور یہ ہی غفلت شیطان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے !!۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2020ء واہ کینٹ)

ہفتہ، 21 مارچ، 2020

" اِک پَرِ خیال(38) "

" اِک پَرِ خیال "
" ٹھہراؤ "
،،،،،،،،،،،،،،،
پچھلے پندرہ ، بیس دن سے ٹی وی کا کون سا چینل ہے ، جو صرف"کرونا وائرس " کی خبریں نہیں دے رہا ،، چینل چاہے ملکی ہے یا غیر ملکی ۔۔ چاہے مشہور چینل ہے یا بہت کم دیکھا جانے والا ۔ بس ایک ہی موضوع کی خبریں سنائی اور دکھائی دے رہی ہیں ، ، شروع میں تو اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ، لیکن چینی حکومت نے اپنے پر گزری خوفناک حقیقت عیاں کی تو ، دنیا پہلے تو دنگ ہوئی ،، پھر جس طرح طوفان آنے سے پہلے خوب جھکڑ چلتے ہیں اور فہم والے اپنی پیشگی تیاری پکڑ کر ،، کبھی گھر کے باہر کی وہ اشیاء جو اُڑ جانے کا خطرہ ہوں ، انھیں سمیٹتے ہیں ، گھر کی کھڑکیوں دروازوں کے لاک خوب اچھی طرح بند کرتے ہیں ، گھر کے افراد کو محفوظ کمروں میں سمیٹ لیتے ہیں ، اور ذیادہ دور اندیش ،، گھر میں خوراک کا ذخیرہ بھی کر رکھتے ہیں ،، بالکل ایسے ہی ،، حکومتوں نے اپنی لیبارٹریز ، میں تحقیقی کام وسیع کر لیا ،، " یہ کیسا اَن دیکھا جرثومہ ہے جو دنیا کے ہر ملک کی سرحدوں کو پامال کرتا ، آنِ واحد میں ایسے حملہ آور ہوا ہے کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ۔ گویا ایسا سونامی ، جس نے نہ آواز نکالی ، نہ کوئی آثار دکھاۓ ،، اور ہر گھر کے دروازے پر آن پہنچا ۔
اور پھر چند ہفتوں میں ، ساری دنیا تحفظ کی ایک چھتری تلے اکھٹی ہو گئی ہے ۔ نہ موبائل کے نئے ڈیزائن کے بدلاؤ کی جلدی ، نہ نئی ایجادات کا رعب ،، نہ کپڑوں کے گرما یا سرما کے تعارف ،،، نہ ڈالر اور پونڈ کے اتار چڑھاؤ کی پروا،،، نہ اسٹاک ایکسچینج،،، پر لگی متفکر نظروں کی فکریں ۔۔۔ نہ ہی کسی مذہب کی کوئی اہمیت رہی نہ مذہبی رہنماؤں کا دبدبہ ،،، نہ موسموں کے بدلے جانے پر کوئی امید ہے ،، نہ ہی اُمراء یا غرباء کے تفریحی شیڈول کا اتا پتا ،، نہ کڑوے رشتوں سے متنفر ، نہ محبت کی چالوں کی فکر، نہ انفرادی سوچ کی منصوبہ بندی،نہ اجتماعی فیصلوں کی کوئی شدت !!! دنیا پہلے صرف ایک گلوب ایک کُرّےمیں سمائی ہوئی تھی اور ہے ،، لیکن اب ایک لفظ " ہمدردی اور انسانیت " کے اندر سما گئی ہے ، ہر ملک ، بِنا کسی مذہب ، بِنا کسی زبان و ماضی و حال کے حالات کے ،،،،، بِنا کسی دوستی و دشمنی کے ،،، صرف "ہمدردی " کے جذبے سے آشنا ہو چکا ہے ۔ یہ وقت ہے جب پرانی دشمنیاں ،،، پاؤں تلے روند دی جائیں ۔ کہ اب ،،،،،،،، خالق و مالکِ حقیقی دیکھ رہا ہے ،،، " اے انسان ، اب کیسی تیزیاں ؟ ، کیسی گھاتیں ؟،، کیسی منصوبے بندیاں ؟ ،، کیسی جلد بازیاں ؟؟ِِِ
اللہ واحد لا شریک نے واضح کر دیا ہے" ایک تیری سوچیں ہیں اور تیری چالبازیاں ہیں ، ایک میری چال ہے ، اور یہ ہی بات اوّل و آخر کی ہے کہ انسان اپنی بےپناہ دنیاوی ترقی کے زعم میں ،،، ایک اَن دیکھے جرثومے " سے مات کھا کر حیران ہے کہ " کیسے ،کیونکر، کس طرح " بچ رہوں کہ اس ان دیکھے سے تو مجھے وہی " اَن دیکھا خالق "ہی بچا سکتا ہے ، جس پر آدھی دنیا اسی بحث میں مبتلا تھی کہ " وہ ہے بھی یا نہیں " ! اور آج کی تمام سُپر پاورز ، سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی سُپر نہیں رہیں ،،، آج صرف ایک ہی " سُپریم پاور " ہے جس نے یہ سب تخلیق کیا ہے۔
اور کائنات اپنے" قدرتی ٹھہراؤ " سکون کے راستے سے مدت بعد " آشنا " ہوئی ہے ، دعا ہے یہ ٹھہراؤ عافیت کے کنارے سے ہمکنار ہو جاۓ آمین !۔
( منیرہ قریشی ،، 21 مارچ 2020ء واہ کینٹ )

جمعرات، 12 مارچ، 2020

" محبت کے حصہ داران "

" محبت کے حصہ داران "
( اپنی پوتی ملائکہ کے لیے۔ جسے فطرتاً جانوروں سے محبت کا تحفہ ملا ہے )
( اور اسےمیں پیار سے بُلبُل کہتی ہوں )
" پوتی کے سامنے ایک لاوارث بلونگڑا آیا تو "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلونگڑا تھا نحیف و نزار
معدوم سی آواز ، لڑکھڑاتا، چکراتاہوا
آنگن کے کونے میں سہما سمٹا ہوا !!
بُلبُل کی نظر جو پڑی ،،،
لپک کر ہاتھوں پہ اُٹھایا اسے
" میں ہوں نا " کا مژدہ سنایا اسے
ٹوکرا اِک مہیا ہوا
پھر نرم کپڑے کا بستر بنا
اور دودھ کی رکابی بھی رکھی گئی
کمزور نے مگر آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا اُسے
فِکر میں بُلبل ہوئی ہلکان
"گوگل " سےملا یہ علمِ " بے زبان"
کہ " اس عمر کے بلونگڑے سوتے ہیں زیادہ ، کھاتے ہیں کم "
اگلے دن نزار نے آنکھیں کھولیں
جائزہ کمرے اور محسن کا لیا
کچھ چہل قدمی ہوئی ، کچھ چھلانگیں بھی لیں
" بُلبُل " کے دل میں مامتا کا جوش تھا !
لیکن اس جوش میں یہ ہوش تھا،،،
میرا رومیو ( لیبرا ڈاگ) کہیں جیلس نہ ہو جاۓ
کہیں وہ اِسے مارنے کے درپۓ نہ ہو جاۓ
کچھ دن کی مہمانی ٹھیک ہے
کچھ طاقت آ جاۓ ، بس ٹھیک ہے
نرم دِلی اپنی جگہ ،،،،،،
مگر رومیو کی کیسے ہو کسی اور کی جگہ
( منیرہ قریشی ، مارچ 2020ء واہ کینٹ )

۔( میری پوتی نے کبوتر ، طوطے ، مچھلیاں پالی ہیں ،، اس کی جانوروں سے محبت کے نطارے دیکھتے ہوۓ یہ تاثراتی نظم لکھی ،، بھلے یہ نظم کسی معیار کی نہ ہو ،،، لیکن اس کے بے زبانوں سےجذبہء محبت کو عیاں کرتی ہے ) ۔

بدھ، 11 مارچ، 2020

" اِک پَرِ خیال"(37)۔

" اِک پَرِ خیال"
" سُر کہاں کہاں، سُر توہر جا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی یہ سوچ آئی کہ جن لفظوں میں جن جملوں میں سُر ہوتا ہے وہی ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں ۔ ان کے ردھم سے وہ الفاظ یا جملے ، زبان   پر یوں رواں ہو جاتے ہیں ، جیسے یہ الفاظ ، یہ جملے نہ تو اجنبی ہیں ، نہ ہی مشکل !! 1500 سال سے قرآن کو  حرف حرف یاد کرنے والے حفاظ اَن گنت ہیں ، اس میں نہ مخصوص خطے کی بات ہے ، نہ مخصوص بولی بولنے والوں کی اور نہ ہی چُنیدہ نفوس کی !! دنیا کے ہر گوشے میں اس سچی الہامی کتاب کے سُر اور اس کے اِسرار سے سرشار دل جھوم رہے  ہیں ۔ اس کے مقابلے میں کسی اور الہامی کتاب کے حفاظ انگلیوں پر گنے جا تے ہیں ۔بہ عینہ اچھی شاعری کے دیوان کا دیوان یوں یاد ہو جاتا ہے کہ جیسے اس کا سُر ، یاد کرنے والے کے خون میں انجیکٹ کر دیا گیا ہو ۔
یہ سُر یہ ردھم ، کائنات کے ذرے ذرے میں چھُپا ہواہے ۔ کائنات کا  ایک خاص  زاویے سے جھکاؤ کے ساتھ چکر میں رہنا ،ایک خاص سُر کی عکاسی ہی تو ہے،، آہ ، یوں لگتا ہے ، جیسے،،،" کائنات " ایک دور اُفتادہ وادی کے پہاڑوں کے پیچھے سے نمودار ہوتی ندی کی طرح ہے ، جو ابتداء میں مدھم سُر الاپتی ، اِٹھلاتی ، بَل کھاتی چلی آ رہی ہے ، جوں ہی وسیع میدان ملا ، خود بھی وسیع کینوس   کوسمیٹ لیا ، یہ وسعت سرشاری کی کیفیت لیۓ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی چلی جارہی ہے ،، ابھی سُر کچھ بلند اور کچھ پست ہوتے نشیب کو پاٹتے جا رہے   ہیں ، اور ردھم میں روانی ہی روانی آ چکی ہو ،،، اور پھر یکدم یہ نشیب بہت " اونچے سُر" کو بلند کرتا آبشار کی صورت جب گِرا ،، تو اُونچے سُروں کی ہیبت اور ندرت نے کائنات کے باقی موجودات کو مبہوت کر کے رکھ دیا ۔ اور اگلے لمحے کائنات کچھ دیر بلند ،، لیکن پھر یہاں ایک " اَن سنا گیت" گنگناتی چلی جارہی ہے ،، وہ ایسے میں اس پُرسکون سرشاری کی کیفیت میں محو ہے کہ جیسے " خالق کے حکم " کی تابعداری کے سُر نے اسے بےحال و دیوانہ بنا دیا ہو ،، سُریلے ردھم ،،کا وہ دریا چڑھا ہوا ہے کہ جیسے " دیوانہ بنایا ہے مجھے تو دیوانہ بنا دے " اور یہی دیوانگی دریا کی صورت خیر بانٹتی ،،، اسے سمندر کے شوریدہ آہنگ سے جا ملاتی ہو !! اور یوں اس سمے سمندر اسے سُر کی نئی سمفنی سکھا دیتا ہے ،، وہ سُر جو " مَن و تُو" کے فرق کو مٹا دیتا ہو ،،، خالق نے کائنات میں سُر کے اِسرار کو کس کس طور سے عیاں نہیں کیا ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات صرف سات سُروں کی رہینِ منت ہو ،، یہاں تو رنگوں ، موسموں، نقوش ، خِطوں اور رویوں کے سُر چوبیس گھنٹے بدلتے چلے جا رہۓ ہیں ۔ یوں ،،، جیسے قطرے ٹپ ٹَپ ٹپا ٹَپ کی صورت میں سُر پھیلا رہے ہوں ۔ بس ،،،، یہ سُر اسی لمحے بند ہوں گے جب " صورِ اسرافیل" کا سُر تمام تر ہیبت سے وقت پر حاوی ہو جاۓ گا ، تب " کائنات اپنے سبھی سُروں سمیت " اپنے خالق کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہوگی !! اور ہر جی دار کو اس کے حصے کے سُر پکڑا دیۓ جائیں گے ، چاہے کوئی چاہے ، یا نہ چاہے !!۔
( منیرہ قریشی ، 11 مارچ 2020ء واہ کینٹ )