"انتساب"
" ببول کے اُس درخت کے نام جس کے سائے تلے عظیم ترین معاہدۂ حدیبیہ طے پایا "
اللہ پاک زبان کے بڑے بول اور قلم کی کمزوری کو معاف فرما دے۔ آمین۔
"فہرست "
٭ ا ۔کبھی کبھی ہم بس یہی کچھ چاہتے ہیں
٭2۔ خیالات و الفاظ کا جنگل
٭3۔ نتھیا گلی کا سِحر
٭4۔ایپنگ فارسٹ کے مکین
٭5۔زمین بوس درخت کی کتھا
٭6۔ کوئینز پارک کے قدیم درخت
٭7۔ٹینڈل ہل پارک کی اُداسی
٭8۔ایش ورتھ سے باتیں
٭9۔خوشبو جیسی باتیں اور صندل کا جنگل
٭10۔بیک اپ کے جنگل سے مصنوعی جنگل تک
٭11۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد
٭12۔سوات ریسٹ ہاؤس ایک دل فگار یاد
٭13۔ریمز بوٹم انگلینڈ کی دردناک پہاڑی
٭14۔ مہاتمابدھ کا پسندیدہ انجیر کا درخت
٭15۔سرگودھا کا صدیوں پُرانا برگد کا درخت
٭16۔ افریقی جنگل کا فضائی نظارہ
٭17۔ رقصِ درویش اور ترکی کے تاریخی شہر بُرصہ کا فضائی نظارہ
٭18۔ میرا دوست چِھدرا جنگل
٭19۔ راہِ اُمید
٭20۔چھانگا مانگا کا دُکھ
٭21۔ خواہشِ ناتمام
٭22۔الوداع دوست
"پیش لفظ"
منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی، جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِ وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا ترتیب دی ہے۔
خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے تاثرات کی سرگوشیاں ہیں ۔
انشائیے "اِک پرِخیال" اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔
نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ قاری خودبخود اس گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔
اہم بات یہ "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے نہ صرف ہمارے وطن بلکہ باہر کے ممالک کے بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات و سانحات کا ذکر ہے جن کو پڑھ کر قاری لمحے بھر کو دکھ اور تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو اگلے پل امید کی کرن اسے نئے راستوں کی چھب دکھلا دیتی ہے۔
جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک منفرد سفرنامہ ہے. جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی کرتے ہیں۔تخيل اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔
منیرہ قریشی کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔
munirazafer.blogspot.com
محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر کے نام
خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موج ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ ہے
نورین تبسم
اُردو بلاگر۔ "کائناتِ تخیل"۔
noureennoor.blogspot.com
یکم اکتوبر 2024
اسلام آباد
( منیرہ قریشی 21 جولائی 2024ء واہ کینٹ )
( منیرہ قریشی 11 جون 2024ء واہ کینٹ )
( منیرہ قریشی 9 جون 2024ء واہ کینٹ )