ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

"انتساب "

"انتساب"

" ببول کے اُس درخت کے نام جس کے سائے تلے عظیم ترین معاہدۂ حدیبیہ طے پایا " 



"فہرست "

"فہرست "

   ٭ ا ۔کبھی کبھی ہم بس یہی کچھ چاہتے ہیں

٭2۔ خیالات و الفاظ کا جنگل

٭3۔ نتھیا گلی کا سِحر

٭4۔ایپنگ فارسٹ کے مکین

٭5۔زمین بوس درخت کی کتھا

٭6۔ کوئینز پارک کے قدیم درخت

٭7۔ٹینڈل ہل پارک کی اُداسی

٭8۔ایش ورتھ سے باتیں

٭9۔خوشبو جیسی باتیں اور صندل کا جنگل

٭10۔بیک اپ کے جنگل سے مصنوعی جنگل تک

٭11۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد

٭12۔سوات ریسٹ ہاؤس ایک دل فگار یاد

٭13۔ریمز بوٹم انگلینڈ کی دردناک پہاڑی

٭14۔ مہاتمابدھ کا پسندیدہ انجیر کا درخت

٭15۔سرگودھا کا صدیوں پُرانا برگد کا درخت

٭16۔ افریقی جنگل کا فضائی نظارہ

٭17۔ رقصِ درویش اور ترکی کے تاریخی شہر بُرصہ کا فضائی نظارہ

٭18۔ میرا دوست چِھدرا جنگل

٭19۔ راہِ اُمید

٭20۔چھانگا مانگا کا دُکھ

٭21۔ خواہشِ ناتمام

٭22۔الوداع دوست

              


جمعہ، 13 ستمبر، 2024

"پیش لفظ "

"پیش لفظ" 

    منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی    بنیاد    رکھی، جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِ وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں  میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا  ترتیب دی ہے۔

خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے  حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے  تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے  تاثرات   کی   سرگوشیاں ہیں ۔

انشائیے "اِک پرِخیال"  اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو  "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں  ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا  ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی    سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ       نام سے ظاہر ہے  یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ  قاری  خودبخود  اس   گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔

اہم بات یہ  "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل  کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں  درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے  نہ صرف ہمارے وطن بلکہ  باہر کے ممالک  کے  بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات  و سانحات  کا ذکر ہے جن کو  پڑھ کر قاری لمحے بھر کو دکھ اور تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو  اگلے پل امید کی کرن اسے نئے  راستوں کی چھب دکھلا دیتی  ہے۔

جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل  مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک  منفرد سفرنامہ   ہے.  جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی  لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو  ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی  کرتے ہیں۔تخيل  اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو   آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

 منیرہ قریشی  کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

munirazafer.blogspot.com

  محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر  کے نام

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے 

موج ہوا کے ہاتھ میں اس کا سراغ  ہے

      نورین تبسم

اُردو بلاگر۔ "کائناتِ تخیل"۔

noureennoor.blogspot.com 

یکم اکتوبر  2024

اسلام آباد 

بدھ، 28 اگست، 2024

"دیباچہ "

"دیباچہ "
دیکھا جائے تو کائنات میں دو رنگ حاوی ہیں ,ہلکا نیلا اور سبز !! نیلا آسمان ، نیلا پانی ، نیلی آنکھ اور نیلے رنگ کی دنیا میں جابجا بہاریں الگ ۔جب کہ سبز رنگ سبز درخت ، سبز پہاڑ اور بہت سے سبز دریا اورپھر ساتھ ہی سبز کی دنیا میں الگ ہی جہتیں ۔سمجھ نہیں آتا کہ سبز کے اتنے شیڈز کہ ان کے منفرد نام رکھنے اور لینے کے لئے کچھ لمحے سوچنا پڑتا ہے ، زمردیں ، سمندری سبز ، کاہی سبز ، یا پھر ہلکے پیلے سبز ۔گویا اللہ نے ہر رنگ کو صرف رنگ کے طور پر ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ اس میں ہلکے سے لے کر گہرے سے گہرا شیڈ ایسا بنایا کہ رنگوں کی ہوس رکھنے والی آنکھوں کی تسکین ہو سکے۔
درختوں کی اپنی شکل و قامت ، تنّوں کی موٹائی ،رنگوں کے مختلف النوع شیڈز ، پتّوں کی بناوٹ اور پھر ان میں چھُپے خواص و صفات اور جب یہ احساس جاگ جائے کہ یہ درخت میرا انتظار کرتا ہے ، مجھے بلاتا ہے اور کچھ کہنا بھی چاہتا ہے شاید وہ کچھ دکھی ہے نہ جانے کیا دکھ سمیٹے کھڑا ہے۔یہ سب دیکھ کر انسان مسحور نہ ہو تو کیوں کر نہ ہو ۔
والدین فطرت کے شیدائی رہے ۔ جس کے اثرات اولادپر ہونا ہی تھے ، بچپن سے درختوں ، پودوں کی محبت اور صحبت ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ۔ بچپن ایک شہری گھر میں گزرا جس کے صحن میں گملوں کی قطاریں تھیں جیسے کوئی نرسری ہو ۔ صحن کے وسط میں کسی کا تحفہ دیا سفیدے کا درخت اور اس پہ مستزاد صحن کے دونوں اطراف چنبیلی اور موتیا کی بیلیں ۔ یہ وہ پُر بہار اور سر سبز ماحول تھا جس میں آنکھ کھُلی ، پھر درخت اور سبز رنگ ہمارے ساتھ ساتھ رہے ۔ سفیدے کے اس درخت نے تیز رفتاری سے قد نکالا ، جب شمالی ہوا چلتی تو وہ پورے زور و شور سے جھومتا کہ جیسے ہوائیں اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہی ہوں اور وہ دھمال ڈال رہا ہو۔ میرے لئے اس کا یہ رُخ بہت دلچسپی کا باعث رہا ۔
کچھ وقت اور گزرا ،میرے جُڑواں بہت خوش مزاج بچپن گزار رہے تھے ۔ وہ چہکتے پرندوں کی طرح اپنی مدھُر آوازوں سے ہر وہ گانا گاتے ، جو اِن دنوں ٹی وی پر مقبول ہوتا ، وہ گھر کے پچھلے باغیچے میں لوکاٹ کے درخت کے نیچے زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ۔ خاص طور پر لوکاٹ کی ایک ٹہنی اِن کی پہنچ میں تھی جس پر روزانہ دو تین گھنٹے گزارنا از بس ضروری ہوتا ۔ چھ سال کی عمر آتے ہی ایک جان کو خالق کا بلاوا آ گیا اور دوسرے کی دلچسپی لوکاٹ یا اس کی ٹہنی پر جھولنا یکسر ختم ہو گئی ۔ چند ماہ تک اپنے اندر کی دنیا نارمل کرنے کے بعد پچھلے لان میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لوکاٹ کا سارا درخت توہرا بھرا تھا لیکن وہی ٹہنی سوکھ رہی تھی جس پر وہ بلا ناغہ بیٹھتے تھے ، مزید چند ہفتے گزرے اور ٹہنی ٹوٹ کر گر گئی۔ درخت کی حساسیت اور کرب و غم کے اس واقعہ نے مجھے درختوں کی صُحبت اور ان کی زبان کے مزید قریب کر دیا ۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ درخت صرف سانس لینے والی مخلوق نہیں بلکہ وہ تو باتیں کرتے ہیں ، احساسات کی دنیا بسائے پوری دنیا کے درختوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ انھیں دکھ اور خوشی کا بھرپور اظہار کرنا آتا ہے اور ان کی دنیا میں انسانی یا جنگلی مخلوق کے لئے وسعتِ قلب ہے ، اسی لئے تو جہاں درخت ہوں وہاں ، رنگ ، خوشبُو ، جنگلی حیات ، اور ہواؤں کے ساتھ رقصِ درویش کرنے سے ہی فطرت کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے ۔
درختوں پر لکھی کتاب "جنگل کچھ کہتے ہیں" کو مکمل کر لیا تو انتساب کا سوچا اور سوچ نے لمحہ بھی نہ لگایا کہ
" ببول کا وہ درخت ، جو مقام حدیبیہ میں ایک چھتنار درخت کی طرح موجود تھا اور جس کا ذکر سورہ فتح میں اللہ شان جل جلالہ' نے بہت اہمیت کے ساتھ کیا ہے ۔ جس کے سائے تلے ، ایک خاص وقت میں کائنات کی عظیم ترین ہستیؐﷺنے چند ارفع ساتھیوں کے ساتھ وہ معاہدہ کیا کہ ایسا منظر شاید ہی کسی اور درخت کے سائے تلے نظر آیا ہو " یہ درخت اس اہم واقعہ کے چند سال بعد ہی وہاں سے ایسا ناپید ہوا کہ جیسے وہ سر زمینِ حجاز پر تھا ہی نہیں ۔ شاید اس درخت کو اس پاکیزہ فرض کے بعد دنیا میں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا محسوس ہوا اور مالک حقیقی نے اسے اوجھل کردیا ۔میں نے "جنگل کچھ کہتے ہیں " کا انتساب اس اہم ڈیوٹی دے کر چلے جانے والے ببول کے درخت کے نام کیا ہے ۔
منیر نیازی کا ایک خوبصورت شعر ہے ،
؎ ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سُنتا ہے، وہ بول بھی تو سکتا ہے
مجھے یہ شعر صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے اپنی کتاب میں درج خیالات کی عکاسی کرتا محسوس ہوا ،جو شاعر سے معذرت کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔
ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو "درخت " سُنتا ہے،وہ بول بھی تو سکتا ہے
منیرہ قریشی
اردو بلاگر"خانہ بدوش"
munirazafer.blogspot.com
یکم اکتوبر 2024
واہ کینٹ

 

اتوار، 21 جولائی، 2024

" اِک پَرخیال. ڈنگ "

" اِک پَر خیال "
" ڈنگ "
'ڈنگ ' کے لفظ سے ذہن میں کبھی بھی اچھا خیال نہیں آتا ۔ کیڑوں مکوڑوں کے ڈنگ تو ہر چھوٹے بڑے کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں ۔ کہ سانپ ، بچُھو ، مکوڑے ، بھِڑ ، اُڑتے کیڑوں کے ڈنگ ،،، انسانی اجسام کے لئے کتنے خطرناک ہوتے ہیں کہ ، یا تو جان چلی جاتی ہے ، یا ، کچھ دیر یا تا دیر جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ایسے زہریلے ڈنگ کو علاج اور صبر سے رفع کیا جاتا ہے ۔
البتہ مدت دراز کے بعد انسانی تحقیقی اذہان نے انہی کیڑوں ، کے ڈنگ سے ہی انہی کے کاٹے کا علاج دریافت کر لیا ، اور یوں ، قیمتی جانوں کو بچانا ممکن ہو گیا ۔ دیکھا جائے تو سانپ ، یا بچھُو ، یا بھِڑ یا زہریلی مکڑیوں کے ڈنگ کی کٹیگریز ہیں ۔۔ کچھ کی کم ، کچھ کی زیادہ !
اس کے برعکس مکھی ، کھٹمل ، یا مچھر وغیرہ کے ڈنگ ایسے لیول کے ہوتے ہیں ،، جو کم طاقتور تو ہوتے ہیں لیکن ،، ان کے ڈنگ کے زہر کو حاصل کر کے بڑی بڑی بیماریوں کے علاج دریافت ہوچکے ہیں ۔ اسی طرح کچھ جانوروں کے تھوک یا لعاب اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ بظاہر ان کے کاٹے کا کوئی نشان نہیں ہوتا مگر جہاں ان کا لعاب گرا ،،، وہی جگہ سُن ہو کر انسان یا جانور کو بے بس کر ڈالتا ہے ۔ اور اس زہریلے تھوک سے اس میں ہلنے جلنے کی سکت نہیں رہتی پھر یہی وقت ہوتا ہے جب ایسے جانور کے لئے متاثرہ جسم تر نوالہ بن جاتا ہے ۔
' ڈنگ ' کی اِس کیٹگریز میں ،،، الفاظ کے ڈنگ بھی اپنی ہی طاقت رکھتے ہیں ۔ کچھ الفاظ کی پوٹینسی کم،، لیکن زیادہ تر ہائی پوٹینسی کے بولے جاتےہیں ۔ ایسے الفاظ کی پھوار زہریلے مادوں سے بھرپور ہوتی ہے ۔۔ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کی صداقت پر یقینِ کامل ہو جاتا ہے ، " تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے ، لیکن زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا "
زہریلے الفاظ ، کم یا زیادہ نوعیت کے ہیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ قدرت نے اس سلسلے میں اپنا قانون سختی سے لاگو کر رکھا ہے ، یہاں کان کے بدلے کان ، آنکھ کے بدلے آنکھ کے قرآنی احکامات نافذ کرنے کا حکم ہے تو ،،،، بے عزتی کے بدلے بے عزتی ،،، دوسرے کو ذلت دے رہے ہیں تو بدلے میں ذلت کا انتظار کریں ۔۔ البتہ اِس میں کچھ ماہ ، کچھ سال ، کچھ عشرے گزر سکتے ہیں ،، لیکن الفاظ کے ڈنگ کا جوابی ڈنگ کا وار ، قدرت کی طرف سے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا منتظر ہوتا ہے ۔
آج کے دور کا ایک اور ڈنگ بھی ہے جسے عام طور پر ڈنگ نہیں سمجھا گیا ۔ وہ ہے " پرائیویسی " ( privacy ) کا ڈنگ ۔
میرا کمرہ الگ ہونا چائیے ، آخر کو میں 14 سال کی ہو گئی / ہو گیا ہوں ،،،
میری الماری کو کس نے کھولا ؟ میں کسی کو اس کی اجازت نہیں دیتا / دیتی ۔۔۔
یہ مہمان آ گئے تو ہماری پرائیویسی نہیں رہے گی ،،،،
میرے موبائل ، میرا پرس ، یہ سب کچھ صرف میرا ہے ، کسی کو اجازت نہیں کہ انھیں میری اجازت کے بغیر ہاتھ لگائے ۔
کچھ معاملات میں تربیت کے تقاضے ہوتے ہیں کہ وہ اہم ، ہمدرد رشتے ان اولادوں کی الماری ، کمرہ ، یا موبائل کا جائزہ لیں ، ہم دیکھیں یہاں کے کونے کھدروں میں کیا چل رہا ہے ؟ ایسا نہ ہو پرائیویسی کے ڈنگ سے ہماری اولاد بہت ہائی پوٹینسی کے زہر نگل چکی ہو ،، کہ تب تک مرض لا علاج ہو چکا ہو !
پرائیویسی کے نکتہء نظر سے مہمان نوازی کے خوبصورت رسم و رواج پر جو کاری ضرب پڑی ہے ، کہ پہلے دُور نہ سہی نزدیکی رشتوں کا جو والہانہ انتظار ہوتا تھا ۔ کہ سب کزنز مل کو چھٹیاں گزارتے ،،، رشتوں کی آپسی مٹھاس کچھ دنوں یا ہفتوں کے لئے 'ریوائز ' ہو جاتی ۔ اور دال ساگ کھا کر بھی بد مزہ نہیں ہوتے تھے ۔۔۔ اور اگلی محفلوں کو سجانے کے وعدے کر کے جدا ہو جاتے ،،،
کچھ ایسا رویہ بعض اوقات ہمارے خوشحال خاندان کا بھی دیکھنے میں آتا ہے جب ان کے لئے گھریلو چیزیں ، اُن کی ترتیب ،،، اور اپنے دن اور رات کے پروگرام اتنے عزیز ہوتے ہیں کہ اس شب و روز میں کسی " آنے والے " کی چند گھنٹوں کی آمد بھی " زہریلا ڈنگ " بن جاتی ہے ۔۔ آہ انسان کی کم فہمی !!
لیکن پرائیویسی کے ڈنگ نے ایسا ڈسا ہوا ہے کہ اس کے اثرات سے خون سفید ہو گیا ہے ۔ رشتے کڑوے ، اور اپنی ذات کے حصار میں رہنے میں ہی عافیت سمجھا جا رہا ہے ۔ اور یوں آدم و حوا کی اولاد غلطیوں کے پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے اترنے کی راہ کھو بیٹھی ہے ! اللہ ہی بہترین جاننے والا ہے ۔

( منیرہ قریشی 21 جولائی 2024ء واہ کینٹ ) 

منگل، 11 جون، 2024

" اِک پَرِ خیال "۔۔۔" کشیدہ کاری "

" اِک پَرِ خیال "
،،، " کشیدہ کاری "
میَں نے ایک ایپ کو جوائن کیا ہوا ہے ۔ جو فلکیاتی دنیا کے نام سے ہے ،، اس میں ایپ چلانے والے سیٹلائٹ اور سپیس شٹلز سے لی گئی آسمانِِ تحیّر کی معلومات اور تصاویر ، ہم جیسوں تک آسان اردو میں پہنچاتے اور دلی دعائیں لیتے رہتے ہیؐں ۔ جب بھی وہاں کی کچھ نئی معلومات اور تصاویر پہنچتی ہیں تو انھیں دیکھ کر دنگ رہ جاتی ہوں ۔ ،،، دل ساکت سا ہو جانے کا دورانیہ جتنا لمبا ہوتا ہے ،، دل کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ خالق کی محبت میں سر مستی سی آ جاتی ہے ۔ دنیائے آسمان کی یہ حیران کن دنیا مالک سے عشق کو مزید راسخ کر دیتی ہے ۔،،،، اُس خالق نے اپنی کائنات انتہائی محبت ، اور باریک بینی ،، اور کاری گری سے بنائی ہے ۔
انسان بذاتِ خود اس رب ِ مصور کا عجب شہکار ہے ،، اور اُس نے خود اس شہکار کو وہ ہُنر عطا کیا ۔ کہ جب بھی وہ کسی رنگ ، آہنگ سے کوئی تخلیق بناتا ہے تو خود ہی اس پر عاشق بھی ہو جاتا ہے ۔ یا دوسرے اس ہنر کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں ،،، کبھی کلام میں ، کبھی طعام میں ، کبھی لباس ، کبھی برتن ، کبھی رسوم کی کاریگری اور کبھی اُس دلربا رقص میں کہ جب پاؤں اٹھیں ،، نہ اٹھیں ،، لیکن جھومنا ہی اُس کی کاری گری دکھا جاتا ہے ۔ ہر دور میں ،، ہر تہذیب میں ایک طبقہ ایسا ودیعت کیا گیا ،، جو دوسروں کو نفاست ، لطافت ، نزاکت کے معنی سے آگاہی عطا کرنے کا فریضہ ادا کرتا رہا ۔ یہ کشیدہ کاری کبھی کمہار کے ہاتھوں میں ،، کبھی مصور کے رنگوں اور برش میں ،، کبھی کپڑے کے تھان پر ،،، اور کبھی سُر و چنگ کے ذریعے یا تحاریر کے باریک نکات کے ساتھ سامنے آتی چلی جاتی ہے ،،، تب سمجھ نہیں آتا ،،، اصل کو دیکھیں ،،یا نقل کو سراہیں !!
دیکھا جائے تو انسان کی بہترین ہنر مندی یہی ہے کہ وہ،،، خالقِ کائنات کی ان تخلیقات کو "پُر سکون ماحول میں احترام اور امن" سے رکھے ،،
انسان انہی جذبوں کی " کشیدہ کاری " سے شیطان کے منصوبے ناکام کر سکتا ہے ۔
کشیدہ کاری سیٹلائٹ سے دنیائے آسمانی کو دیکھنے سے ہی عیاں نہیں ہوتی ۔ بلکہ انسانی ہاتھوں میں پکڑے بُرش ، اور رنگوں کے سٹروک سے ،،، سُوئی اور رنگین دھاگوں کے امتزاج سے ،، ایک پُر شفقت لہجہ ،، ایک محبت بھرا لمس ! سامنے کے تاریک اور معدوم ہوتے دل کو یکدم جگانے کا باعث بن سکتا ہے ۔ کشیدہ کاری کے اصل ٹانکے کا ہنر پھٹے دل اور دُریدہ روحوں کو سینے سے نظر آئے گا ۔ انھیں نیا سٹروک دے ڈالیں ۔۔ اُن کے سوراخوں کو رنگین دھاگوں سے سی ڈالیں ۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ،، کائنات کی آسمانی کشیدہ کاری اپنا کام مسلسل کر رہی ہے ۔ زمینی کاری گری میں سُستی ناقابل قبول ہو گی ،، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔۔اِس سے پہلے کہ دیر ہو جائے ۔

( منیرہ قریشی 11 جون 2024ء واہ کینٹ ) 

اتوار، 9 جون، 2024

" اور قسم ہے راتوں کی دَس "

" اور قسم ہے راتوں کی دَس "
" کچھ دن ہیں سُنہری سے
کچھ راتیں ہیں نیازوں کی
سجدے کچھ فرض کے ،
سجدے کچھ غرض کے
اور اِن میں ، دہرانے ہیں
کچھ شَبد ہیں نگینے سے
کچھ شَبد ہیں سکینت سے
دہرائیں تو فضیلت ہے
شادابی اور آبادی ہے ،
رضا اور ، رعنائی ہے ،
چاروں اَور مُشک چھائی ہے
یہ شَبد ہیں ، تکبیر کے ،تہلیل کے ، تمجید کے
عشرہ میں چُھپی ،،،، مستبشرہ
اور جو لُوٹ چاہو میلے کی
نقدی یاں صرف اَخلاص کی
سودا ملے دیدار کا
عشق کا سُرمہ آنکھوں میں
لڑیاں ہیں بہار کی !!
شبد ہیں نگینے سے
دہراؤ تو فضیلت ہے
سکینت ہی سکینت ہے

( منیرہ قریشی 9 جون 2024ء واہ کینٹ )