ہفتہ، 21 دسمبر، 2024

"خط"

"خط"

تیرے ہر رنگ میں انوکھا رنگ بہار کی رنگینیوں میں ، خزاں رسیدہ درختوں کی جبینوں میں شدت برودت کی سنگینیوں میں اور قہر گرم لو کی حدتوں میں دل مطمئنہ ہلکے اور، بھاری ہچکولوں میں عجب تیری رنگین دنیا ،،،، صد ہا برس سے یہی ڈھنگ تکتی آنکھیں! مٹی ہوتی ،زندہ آنکھیں ! جانے تو خود کیسا ہو ،،، تیری محبتوں میں ڈوبی ہیں یہ منتظر آنکھیں ! معدوم جذبوں سے سرشار، یہ معصوم سطریں ! ایک خط ہے مولا تیرے نام

(منیرہ قریشی 21 دسمبر 2024۔ مانچسٹر)

جمعرات، 19 دسمبر، 2024

" یادوں کی تتلیاں" "کتاب کہانی" از کومل ذیشان "

" یادوں کی تتلیاں"

"کتاب کہانی" از کومل ذیشان " لکھنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ جو پیپ سے بھرے زخموں پر چاک لگاتے ہیں اور ایک وہ جو ادھڑے ہوئے زخموں پر سلائی لگاتے ہیں، ان پر مرہم لگاتے ہیں۔معاشرے میں دونوں اہم ہیں۔کچھ یہ دونوں کام اکٹھے کرتے ہیں۔ منیرہ قریشی آپ زخموں کو سینے والوں میں سے ہیں۔ ڈھانپنے والوں میں سے۔ جب آپ کے ابا اور حمید چچا کا واقعہ پڑھا تو آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ شے آپ کو اپنے ابا کی طرف سے ودیعت ہوئی ہے۔ آپ کی اماں میں میری نانی کی جھلک ہے۔ نانی نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی، پانچویں کے امتحان میں اول آئیں۔ ان کو انعام میں نقشہ ملا تھا۔ آخر وقت تک بالکل آپ کی اماں کی طرح غریبوں، ناداروں کے لیے ان کے گھر کے دروازے کسی لنگر خانے کی طرح کھلے رہے، جہاں سے ایک دنیا نے فیض اٹھایا۔ کاش میں آپ کی اماں سے بھی مل پاتی۔ آپ کا "کوشش پبلک سکول" ہو یا میری فیس بک دوستوں کی فہرست میں فرح دیبا ہیں ان کا "عالم بی بی فاؤنڈیشن" میں خود کو خوش قسمت گردانتی ہوں کہ میرے سامنے آپ کی مثالیں موجود ہیں۔ آپ نے ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ سے ملاقاتیں کروائیں اس کے لیے شکریہ 🤍۔ میں نے جب سے علی پور کا ایلی پڑھا ہے مجھے اب تک شہزاد اس نم اندھیری گلی کے ایک گھر کے چوبارے سے جھانکتی محسوس ہوتی ہے، اس کی اداس آنکھیں۔۔۔۔جیسے شاید ممتاز مفتی کو ان کی یاد آتی ہو گی مگر سچ تو یہ ہے کہ ان کی دو سال پہلے افسانوں کی ایک کتاب پڑھ کر میں الجھن کا شکار ہو گئی تھی۔ مجھے عورتوں سے متعلق ایک دو افسانے شدید کھٹکے۔شاید میں ناراض تھی لیکن اس کتاب کے ذریعے میں نے پھر سے ان کے لیے نرم گوشہ محسوس کیا۔ دو جگہوں پر میری آنکھیں برسنے لگی تھیں شاید لکھتے ہوئے آپ کی بھی برسی ہوں گی۔ ایک ممتاز مفتی کے حوالے سے آپ کے خواب کے ذکر پر اور ایک ابا جی جب پوچھتے تھے کہ "صبح ہوگئی؟" میرے بھائی علی اور میرے دادا کا بھی بالکل ایسا تعلق تھا جیسے آپ کے بیٹے علی اور ان کے نانا کا تھا۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ کے وجود مجھے ہمیشہ ایسی ٹھنڈی چھاؤں محسوس ہوئے ہیں جہاں بیک وقت نور بھی پھوٹ رہا ہو۔ آپ کی ملاقات کے احوال سے بھی میرے تصور کی تائید ہوئی۔ آپ کی پیاری دوستوں کو سلام پہنچے۔ اس کتاب کے لیے بہت شکریہ منیرہ آنٹی۔ یہ میرے لیے ایک چراغ کی مانند ہے۔ میری اور آپ کی دوستی مزید گہری ہوئی۔

( کومل ذیشان 19دسمبر ،2024)