جمعہ، 17 مئی، 2019

بےچاری لڑکیاں


۔( مقبول ملک کا نہایت معلوماتی اور دلچسپ کالم " پنجابی " پر اپنی ایک نظم یاد آگئی جو یہاں دوبارہ شیئر کر رہی ہوں ،، جو بالکل "عام نظم "ہے لیکن اس کا مرکزی خیال ، 1800 سال پہلے کے ایک فرا نسیسی شاعر سے اس قدر مماثل تھا کہ حیرت کا ایک سوالیہ نشان رہ گیا ، اس لیۓ کہ میری اس وقت عمر محض 20/21 سال تھی اور میرا مطالعہ بہت ہی محدود تھا ، خاص طور پر غیر ملکی ادب سے متعلق ، ایک مدت بعد فرانسیسی شاعر کی ترجمہ شدہ نظم نظر سے گزری ، تو حیرت اور،سر خوشی کی کیفیت مہینوں طاری رہی ۔ دراصل یو کلپٹس سدا بہار سا درخت ہے اسے کبھی ڈنڈ منڈ نہیں دیکھا گیا ،اور باقی ذیادہ تر درخت کچھ نا کچھ اس خزاں سے گزرتےہیں جو قدرت کی طرف سے مقرر ہوتی ہے )۔
" ایک نظم "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
میرے گھر کے آنگن کے گِردا گِرد
چند سفیدے کے درخت ہیں
اور انہی میں ایک یو کلپٹس بھی ہے
پت جڑ کا آخیر ہے
اور سفیدے کے درخت ننگے ہو چلے
یوکلپٹس کی جھکی سر سبز شاخیں
سفیدے کا ہر گرتا پتّا تکتی ہیں
جو اسے اُداسیاں بخش رہا ہے
ہر گِرتا پتّا ،،،،،،
بزبانِ خامشی کہتا چلا جاتا ہے
" فنا کی بھی انجانی لذّت سے
اگلی دنیا کی اسراریت سے
حُکمِ خداوندی کی سر شاری سے
صرف ہم واقف ہیں
صرف ہم ،،،، !
صرف ہم ،،،، ! "
( یہ نظم1974ءمیں لکھی گئی ، اور فرانسیسی شاعر کی نظم شاید 5/6 سال بعد پڑھنے کو ملی )
( منیرہ قریشی 17مئی 2019ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں