منگل، 23 مارچ، 2021

" اک پرِخیال " " انعام "

" اک پرِ خیال "
" انعام "
ہمارے ملازم کی والدہ ایک عرصے سے بیمار چلی آ رہی تھی ۔ والدہ اپنے دوسرے بیٹے اور ایک پڑوس میں رہتی بیٹی کی سپردگی میں تھیں ۔ جب تک سفر کے قابل رہی کبھی کبھار دوسرے شہر میں بستے دو بیٹوں کے پاس بھی رہنے چلی جاتی اور ،،، یوں بڑھاپا اور زندگی ، مختلف ہاتھوں اور رویوّں کے ساتھ گزارا جا رہا تھا ، یا گزر رہا تھا،،اب کچھ سالوں سے اپنے آبائی گھر میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی ،،، جہاں بیٹا اور بیٹی بھی ساتھ تھے ۔ دونوں نہ صرف بال بچے دار ،،، بلکہ اب اپنے بچوں کو بیاہ رہے تھے ۔ اس دوران ہمارے ملازم کو جب بھی اطلاع دی جاتی کہ وہ بیمار ہیں ،،، یا ،، بہت بیمار ہیں ،،، یا ،، آؤ ذرا اب انھیں فلاں بیٹے کے پاس چھوڑ آئیں ، تو وہ فوراً چھٹی لے کر یہ ڈیوٹی دینے چلا جاتا ،،، ہم نے بھی اسے کبھی نہیں روکا ۔ اب کرونا کے اس ڈیڑھ سال میں وہ تین چار دفعہ اپنے پہاڑی گاؤں جاتا یا اسے بلایا جاتا ،، دو دن بعد وہ واپس آتا تو پوچھتے ،، " کیا حال ہے والدہ کا " ،،، وہ سادہ اور سپاٹ لہجے سے جواب دیتا ،، " بس کچھ آرام آ گیا تو میں چلا آیا ،، بس جی بہت بوڑھی ہو گئی ہیں اس لیۓ اکثر بیمار رہتی ہیں ، چند دن قبل پھر اسی قسم کا پیغام ملا اور تین دن بعد آکر ہمارا وہی پوچھنا ،، اس کا وہی سپاٹ لہجے میں جواب دینا ہوا " کہ جی بہت بوڑھی ہوگئی ہیں ، بس یہ ہی وجہ ہے بیماری کی " ۔
اور کچھ دن بعد ہی ان کے فوت ہونے کی اطلاع آ گئی ،، اور اس نے فوری روانگی پکڑی ۔
واپسی پر پوچھا " کیا ہوا تھا اس آخری وقت میں " تو اس نے وہی سپاٹ لہجے میں کہہ دیا ، " بس جی وہی بڑھاپا "
اتفاق سے کچھ بہت خوش حال خاندانوں میں بھی بوڑھے والدین کے ساتھ ایسا ہی رویہء ہوتا ہے کہ " اب ہم کیا کر سکتے ہیں ! یہ بوڑھی / بوڑھے ہیں ، جو بیماری ہے بھی تو کیا ہو سکتا ہے ، یہ تو بہت عمر دیکھ چکیں ،،، اب ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ ؟؟؟ یہاں اپنے فرض یا رویّۓ کو بالکل بھی قابلِ ذکر نہیں سجھنا ۔ گویا جب اس عورت نے بچے پیدا کیۓ ،، انھیں پالا پوسا ،،یہ وہ دورانیہ تھا ، جو " سبھی ماں باپ ایسے ہی کرتے ہیں " کا جملہ ان کے منہ پر بیٹھا ہوتا ہے ۔
اور بد قسمتی سے خوشحال یا غریب گھرانوں کے ایسے لمبی عمر کے بزرگ ایک کمرہ یا یا ایک بستر کی جگہ گھیرے ہوۓ ہوتے ہیں ،،، اور گھر کے نوجوان ہوتے بچے " گِدھ کی طرح روزانہ نظر ڈالتے رہتے ہیں ،، پتہ نہیں کمرہ کب خالی ہو گا؟؟ ۔۔۔ بستر کی جگہ کا ایک منفرد آئیڈیا ذہین میں تو ہے مگر ،،،،،،،،زیرِ لب ،،، دل میں اٹھتے یہ بے رحمانہ جملے اس لیۓ جگہ پاتے ہیں کہ اب " اقدار اور احترام کے زمانے گۓ ، گھر کی تربیت گاہیں " یعنی ماں " بھی ایسی کیفیت لیۓ منتظر ہے ۔۔۔ حالانکہ وہ نہیں جانتی ،،، کچھ عرصے بعد اسی بستر پر وہ خود براجمان ہو سکتی ہے ،،اور قریب سے گزرتے " جوشیلے " ناگورا نظریں ڈالتے گزر جائیں گے ۔
لیکن ایسے ہی وقت میں ، ایسے ہی دورا نیۓ میں جنت و دوزخ کا رزلٹ تیار ہو رہا ہوتا ہے ۔
حضرت اویس قرنی (ر ض ) کواسی رشتے کی خدمت نے ،، نبیؐ کی زیارت کے بغیر ہی " صحابی ر ح کا لقب دلا دیا ۔
اللہ خالق و مالک نے دل کی چاہت کی شدت کا حساب کتاب جانچ لیا تھا ،،، ترازو میں ایک طرف چاہت و محبت تھی ،،، دوسی طرف فرض شناسی کا خالص جذبہ ،،،، لمحے بھر میں فرض شناسی کا احساس غالب ہوا ،، اور چاہتِ محبت کو اللہ کی رضا سمجھ کر چھوڑ دیا ،،، کائنات کا مصور اور مُنصف ،، مسکرا اُٹھا ۔۔۔ اور ترازو میں رکھے فرض پر محبت کی نظر ڈالی ۔ کہ ،،، وہ خود بھی اپنی محبت کی مثال اسی " ماں کے رشتے" سے دے چکا تھا اور پھر ،،، فرض کی ادائیگی پر انعامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا ،،،، اویس ر ض نے تو نہیں کہا " وہ بہت بوڑھی ہیں ،، حواس بھی صحیح نہیں ہیں ،، دو چار گھنٹے دیر سے بھی پہنچا تو کیا فرق پڑے گا ۔

( منیرہ قریشی ، 23 مارچ 2021ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں