ہفتہ، 25 ستمبر، 2021

"اِک پّرِخیال " " رازِِ نہاں"

"اِک پّرِ خیال "
" رازِِ نہاں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہمیں حج کا بلاوا آیا ،،، تو اس خوش نصیبی کے سفر کا سن کر جاننے والے ، بہت سے لوگ ملنے آۓ ،،، اور ان میں سے بہت سے ملنے والوں نے اپنی خاص دعائیں لکھ کر دیں کہ " ،،، ہماری طرف سے یہ اور یہ عرض پیش کر دینا " میَں نے یہ پرچیاں اکھٹی کر کے سٹیپل کر لیں ،،، ڈیڑھ درجن سے شاید زیادہ کی عرضیاں میرے اس بیگ میں تھیں جو ہر لمحہ میرے گلے میں پہنا جانا تھا ۔ اللہ کے گھر پہنچنے کے بعد عمرہ مکمل ہوا تو پرچیاں یاد آئیں اور اسی کے گھر کے دَر کے سامنے ایک ایک کر کے پڑھ ڈالیں ،،، کہ " یہ امانت ہیں ، میں نے پڑھ دیں اب آگے تیری مرضی " ۔
عمرہ کے چند دن بعد مدینہ کے سفرَ محبت میں منزل پر پہنچ کر ایک جمعہ وہیں گزرا اور ایک دفعہ ان پرچیوں کی عرض یہاں بھی ایک ایک کر کے پڑھ دیں ۔ واپس خانہ کعبہ پہنچے اور اپنے بچوں ، اپنے والدین ، رشتہ داروں ، سبھی جو یاد آیا ،،،، ان کے لیۓ پھر دعائیں کیں ،،، " جو جہاں ہے ، ان کو آسانیاں عطا کرنا ، درجات بلند کرنا " ،،،، اور پرچیوں کی عرضیاں بھی ایک مرتبہ پڑھ ڈالیں ،،،،
منیٰ کے میدان میں ایک مرتبہ اور یہی عمل دہرایا ،،، اور آخر میں عرفات کا دن ،، بھر پور یقین کے ساتھ سب کےلیۓ دعاؤں کے ساتھ پرچیوں کو بھی پڑھ لیا ۔۔۔۔ لیکن اس کے بعد پرچیاں پھر نہیں پڑھیں ،،، کہ اب اس چالیس دن کے قیام اور مسلسل صحت کی طرف سے قدرِ کم توجہ کے باعث باقاعدگی نہ رہنے دی ،،،،،،،،
اس رب نے بلایا ،،، تو اسی سے اس سفر کے ہر عمل کی قبولیت کی دعائیں کرتے واپسی ہوئی ۔ کافی سال گزر گئے۔۔۔۔ اور ایک دن اسی پرس کی صفائی کے لیۓ اسے کھولا ،،، پرچیوں کا سٹیپل شدہ مٹھی بھر دستہ نظر آیا ۔۔۔ ایک دفعہ اور پڑھا ،،، نظر ڈالنے سے یہ یاد آیا کس کی کون کون سی دعا پوری ہوئی ،،،حیرت اور خوشی ہوئی کہ سواۓ دو کے سب ہی دعائیں قبولیت پا چکی تھیں ۔ الحمد للہ ۔۔۔ اپنے ِخاندان اور بچوں کے لیۓ تو نہ ختم ہونے کی دعائیں تھیں ۔۔۔ جو ہر لمحہ اب بھی جاری تھیں ،،،،،،،،، تو یکدم خیال آیا،،،،
" اپنے لیۓ کیا مانگا تھا ، کیا دعائیں کیں " ؟؟؟
یہ جملہ ذہن میں آتے ہی دل اور آنکھیں شرمندگی سے بھر بھر گئیں ۔۔ یہ کیا مجھے تو یاد ہی نہیں کہ مَیں نے اپنے لیۓ کچھ مانگا ہو ، میَں تو اتنی پُریقین ، اتنی سرشاری کی کیفیت میں رہی کہ جیسے کوئی نہایت ہموار کشتی چلتی چلی جاۓ ، چلتی چلی جاۓ ،،،، اور میں ایک ہلکی ہلکی غنودگی کی سی کیفیت میں چلی جا رہی تھی ۔ میں کوئی دواء بھی نہیں لے رہی تھی ، اس کے باوجود سارا ماحول ڈولتا محسوس ہوتارہا تھا ۔۔۔ مجھے اس کیفیت سے کسی لمحہ بھی چھٹکارا نہیں ملا کہ "میں کتنی خوش قسمت ہوں ،، میَں بلائی گئی ہوں ،، اس سے بڑھ کر بھی کوئی چیز مانگی جا سکتی ہے ؟"
لیکن آج بہت عرصے بعد جب یہ پرچیاں ،،، وہ دعائیں ،،، وہ کیفیت یاد آئی ،،، تو ایک اور خیال ذہن میں کوندا ۔ " کیا پتہ مجھ سے اپنی دعائیں نہیں کہلائی گئیں ،،، تاکہ ،،، ایک مرتبہ پھر بلاوہ آ جاۓ ، اور تب اپنی ذاتی ، دلی دعائیں عرض کرنے کا موقع دیا جاۓ گا " واہ ،،، کتنا خوش کن خیال ہے ،،،اس خیال نے پھر اسی " محبت ، سرشاری ، کی کیفیت کو محسوس کرنا شروع کر دیا " تو کیا تیاری پکڑوں ،،،!!
اے اعلیٰ و ارفعٰ میزبان ،،، " ؎ تو غنی از ہر دو عالم مَن فقیر"

( منیرہ قریشی 25 ستمبر 2021ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں