" اِک پَرِ خیال "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
" اِکتارا"
سُر اور سوز ، ہمیشہ انسانی روح کے لیۓ " ٹھٹک" جانے کا سبب بنتے رہتے ہیں ۔ لیلُ و نہار کڑی محنت سے گزارنے والا ہے ،،،یا ،،عیش کے خُمار میں ڈوبا شخص ، اگر ہوا کے دوش پر کوئی پُرسوز سُریلی آواز کان سے ٹکرائی ،،، تو لمحے بھر کے لیے یا چند منٹ کے لیۓ وہ سراپا کان بن جاتا ہے ،،، دل کی دھڑکنیں کچھ دیر کے لیے مست انداز سے چلتی ہیں ،،، اور بس ،، !!!
دراصل اس لمحے انسان کی روح اُسے " قانونِ فطرت " کی وہ شِق یاد دلاتی ہے ،،کہ ،،،،،" پُرسوز سُر میں ڈھلی آواز گلے میں محفوظ کرنے والی ایک ذات ہے اُس کا قُرب حاصل تو کر کے دیکھو،، مزید ہزار ہا لہروں کے ترنگ ، و رنگ سے آگاہی پا لو گے"
شاید 30 سال قبل ، حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ کے مزار پر جانا ہوا ،، بڑے سے، داخلی حصے سے داخل ہوئی تو کچھ منگتے آس پاس بیٹھے تھے لیکن ایک سائڈ میں گہرا سانولا ، دُبلا، مفلوک الحال سا اٹھائیس ، انتیس سالہ
نوجوان آگے رکھے ہارمونیم کی ہلکی آواز سے اپنی بلند ، لیکن پُرسوز آواز میں سرائیکی زبان میں صوفیانہ کلام گا رہا تھا ،، اندر داخلے سے پہلے ہی ٹھٹک گئی ، اور چند لمحے اسے دیکھا ، سُنا ،،، چند روپے اس کے ہارمونیم پر رکھے ،،، اس کی آنکھیں بند تھیں یا کسی لمحے نیم وا ہوتی ہیں ،، پھر جیسے اپنی ہی آواز کے سُر اور لَے میں ڈوبا ،، آنکھیں بند کر کے مست ہو کر گا رہا تھا ،،، مزار میں داخل ہو کر فاتحہ پڑھ کر واپس پھر قدم اس کی آواز کے ردھم نے روک لیۓ ،، وہ اسی مستی کے ساتھ سُر اور سوز میں ڈوب اور اُبھر رہا تھا ،، بے اختیار چند روپے پھر اس کے ہارمونیم پر رکھ دیۓ۔
ابھی اس نے پہلے کے روپے بھی نہیں اُٹھائے تھے ۔ بند آنکھوں سے ہی اس کی ہلکی سی مسکراہٹ محسوس ہوئی ، ،، اور میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔
30 سال کا وقفہ ہوا ،، لندن کے ٹیوب سٹیشن سے ٹرین پکڑنا تھی ، سٹیشن میں داخل ہوتے ہی ایک پِلر سے ٹیک لگائے ، 28/ 29 سالہ جوان ، قدرِ سانولا ، اور کچھ نیگرو خدوخال ، موٹے شیشوں کی عینک ، لمبے بالوں جینز شرٹ اور جینز کی کوٹی پہنے ،،، آنکھیں بند کیۓ ایسا بلند آہنگ کا پُر سوز سُر بکھیر رہا تھا کہ سارا سٹیشن ، بغیر مائک کے ہی گونج رہا تھا ،،، لیکن یہ گونج سوز کے تال سے اس سُر سے مل رہی تھی،،کہ میرے قدم رُک گۓ، اس نے اپنے گٹار کی آواز کو بہت مدھم رکھا ہوا تھا ،،، یہاں غیر ملکی زبان گائی جا رہی تھی ،، جس سے میَں ناواقف تھی ۔ گائک اتنے مست انداز سے گا رہا تھا ،، جیسے اپنے ہی ردھم سے لطف اندوز ہو رہا ہو ،، اس کی آنکھیں بند تھیں ، وہ بھی ملتان کے مست گلو کار کی طرح زمین پر بیٹھا اپنی ذات کے ردھم میں جھولے لیتا محسوس ہوا ۔ لندن کے اس گائک کے سامنے پڑے ہیٹ میں ایک پونڈ ڈالا ،، مزید چند منٹ کھڑی رہی ،،، اس نے نیم وا انکھوں سے شکریہ کی ہلکی سی مسکراہٹ دی ۔ اور پھر آنکھیں بند کر لیں ، اور میری آنکھیں نم ہو گئیں ۔،،
کائنات میں سُر شاید اس کی پیدائش سے ہی رواں دواں ہیں ۔ سوزِ سُر جب بھی کوئی بکھیرتا ہے ،، فاصلے ، سمتیں ، زبانیں ، جگہیں ،، بے معنی ہو جاتی ہیں ۔ سُر کی یہ لہریں کس قدر پُر اثر ہوتی ہیں ،، کہ " دل کے تار ،، " اِکتارا" بن کر سُر بکھیرتے ہیں تو پاؤں پکڑ لیتے ہیں ،،، اور اس کی لَے پر مست ہو کر ناچنے کو دل چاہتا ہے ۔ اب سمجھ آیا شمسِ تبریؒز نے رومیؒ کو رقصِ درویش کی طرف کیوں متوجہ کیا۔
( منیرہ قریشی 28 ستمبر 2020ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں