" اک پَرِ خیال"
" تھکن "
بچہ ابھی پنگھوڑے میں ہی ہوتا ہے کہ اس کی تھکن اور صحت کے خیال سے مائیں اس کی مالش کرتی ہیں ۔ بتدریج بڑا ہونے تک یہ ہی سلسلہ جاری رہتا ہے ۔جیسے جیسے بچے کی مصروفیات بڑھتی جاتی ہیں ،، اس کی جسمانی اور ذہنی قلابازیاں اسے فرق قسم کی' تھکن ' کے احساس سے دوچار کرتی چلی جاتی ہیں ۔یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا ہے ،،،اور بچہ اب سکول یا کالج ، یا یونیورسٹی کا وہ جوان بن چکا ہوتا ہے ،، جس میں توانائی ، جرآت ، اور ہمت کا جواربھاٹا موجود ہوتا ہے ،، زندگی کے سبھی راستے 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کیۓ جا رہے ہوتے ہیں ،،، لیکن اِس دور میں بھی تھکن کا احساس غیرمحسوس انداز سے اعصاب کو متاثر کرتا چلا جاتا ہے ۔ جسے جوانی کا جوشیلا خون کوئی اہمیت نہیں دیتا ،،،، تب پھر غمِ جاناں اور غمِ روزگار کا انوکھا راؤنڈ شروع ہوتا ہے ،،، زندگی کی آرزوئیں ، مطالبات اور مختلف ٹارگٹ ،، 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑاتے ہوئے ، ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچا کر دم لیتے ہیں ۔ اور آخر میں آرم چیئر پر بیٹھ کر چاۓ پیتے ہوۓ ، اخبار پر نظریں جماۓ پُرسکون ، بےفکر بڑھاپا ،، کسی کسی کی " پِچ " پر میچ کو جتاتا ہے ،اور انھیں تھکن کا احساس بھی خوشگوار لگتا ہے ،،،، زیادہ تر لوگ زندگی کے اس میچ میں اپنی آخری اننگ بغیر ہار جیت حاصل کیۓ ، چلے جاتے ہیں اور بہت سے جیت بھی جائیں تو تب تک اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ جیت کا لطف لینا تو کُجا ،،، انھیں پھر یاد ہی نہیں آتا کہ " ہم کیا کھیل رہے تھے ، اور کھیلے تھے تو کس کے ساتھ "،،،،،،، وہ بس چہرے پر جھریاں سجائے ،، ہونٹوں کے کونے ڈھلکائے ،، پپوٹے آنکھوں پر جھکائے ،، ایک بےتائثر چہرہ لیۓ زندگی کے آخری ' اوور' کو گزار رہے ہوتے ہیں ،، تھکن نے انھیں وہ تھکن دے دی ہوتی ہے کہ وہ اس جملے کی تصویر بن جاتے ہیں "بس میں بہت تھک چکا / چکی ہوں!
شاید تھکن کو روح کی پیدائش کے ساتھ ہی تخلیق کر لیا گیا تھا ، اسی لیۓ روح نکلتی ہے تو تھکن بھی اسی کے ساتھ روانہ ہو تی ہے ۔ وَاللہُ العلم !!
( منیرہ قریشی 20 اکتوبر 2020ء واہ کینٹ )
Javaid Iqbal
جواب دیںحذف کریںbadge icon
Very strong observation coupled with experience has been presented in the form of well knit fabric of words.