جمعہ، 29 جولائی، 2022

" اِ ک پَرِِخیال " ' انگلیوں اور تنے کے دائرے'

" اِ ک پَرِ ِخیال "
' انگلیوں اور تنے کے دائرے'
دو سال پہلے کے کسی برفانی اور طوفانی جھکڑ سے ،، یہ شاندار اورسرسبز ،، لیکن کہنہ درخت زمین بوس ہو چکا تھا ، وہ جڑوں اور تنے کے کچھ حصے کے ساتھ لان کے اندر اور کافی موٹے تنے اور خوب بڑی ٹہنیوں کے ساتھ لان سے باہر کے ایک جنگل میں لیٹا ہوا تھا ، جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو اس کی سبھی ٹہنیاں پتوں سے عاری ہو چکی تھیں ۔ میں لان کے آخر میں اس چھوٹے سے قدرتی جنگل پر عاشق ہو گئی ،، اس لیے جنگل سے روزانہ کی ملاقات کے ساتھ ،،، اس شاندار درخت سے بھی لمحہ بھر کے لیے نظریں ملتیں ،اور لمحے بعد ہی پھر جنگل کا سحر حاوی ہو جاتا ،،، لیکن چند دن کے بعد مجھے محسوس ہوا وہ "درخت ابھی بھی مردہ نہیں ہوا ،"،، یوں لگا جیسے کہہ رہا ہو ،، بے شک میں آس پاس کے سر سبز درختوں ، جھاڑیوں کے درمیان آ لیٹا ہوں،،، بے شک میں ان کی طرح جھوم نہیں سکتا لیکن ذرا غور تو کرو ، میں ابھی بھی دوسروں میں خوشیاں بانٹ رہا ہوں ۔ اور واقعی غور کیا تو گلہریوں کا خوب بڑا خاندان اس کی اونچی نیچی ٹہنیوں پر آ جا رہا تھا ، وہ بے فکری اور خوشی کی اپنی مخصوص آوازیں نکال رہی تھیں، کبھی کچھ فاختائیں ،، کچھ نیلی چڑیاں اور بہت سی انگوٹھے برابر چڑیاں بھی پُھدکتیں یہاں وہاں بیٹھ رہی تھیں ۔ بہت سی مکڑیوں کے مستقل ڈیرے بھی نظر آۓ ۔ سرسراتی ہوائیں ابھی بھی اس کی سہیلی تھیں اور چمکیلی دھوپ بھی اسے گرمائش دے رہی تھی ۔
گویا یہ شاندار درخت مر کر بھی نہیں مرا تھا ۔
اسی خیال نے مجھے چونکا دیا ، تو شاندار لوگ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں ، جو اپنے وقت پر بہترین فرض کی ادائیگی کے بعد بظاہر قبر کی ڈھیری کی صورت تو اختیار کر لیتے ہیں لیکن ان کے نیک اعمال ، افکار ،اور اقوال دنیا سے پردہ پوشی کے بعد بھی فیض پہنچا رہے ہوتے ہیں ،،،،، ان شاندار لوگوں کے لگاۓ نیکی کے درخت مدت گزار کر بھی جھوم جھوم کرمدھم سُروں میں دنیا کو رونق بخش رہے ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی نیکیوں کی مضبوط بنیادوں کے ساتھ نہ جانے کتنے ہی نفوس کو پارس ،، بنا رہےہوتے ہیں ۔
درخت بھی آدھا لان کے اندر ہے اور آدھا لان سے باہر ،،، وہ شاندار ہستیاں بھی بظاہر زمین کے اندر ہیں ،، لیکن ان کی موجودگی اب بیرونی دنیاؤں میں نئی شکل اختیار کر چکی ہوتی ہے ۔
ایک وصال کے بعد ، اگلے وصال میں نئی ڈیوٹیاں دے دی جاتی ہیں ۔
درخت ،، نےجیسے مخاطب ہو کر کہا ،،، غور تو کرو ،، مجھ میں اور تم میں یہ مشابہت تو ہے کہ میرے تنے پر پڑے دائرے ،،، تمہاری انگلیوں کے ' پور ' سے کتنے مشابہہ ہیں ۔۔۔ دیکھو تو ہم بھی تن کر کھڑے رہتے ہیں ، ہر گرم سرد سہتے ہیں ،، سایہ اور طروات بانٹتے عمر پوری کر کے حکم ربّی پر زمین بوس ہو جاتے ہیں ،، دائروں کے نشان مٹی بھی ہو جائیں تو بھی کوئی نا کوئی نیکی ،، یاد رکھی جاتی ہے ،،، ہمیں زندہ رکھتی ہے ،، کیا تم انسان بھی یہی مشترکہ ورثہ نہیں سنبھالے بیٹھے ۔ وقت کڑی محنت اور دوسروں کے آرام دینے میں گزارا ،،،،اور وقتِ رخصت آیا تو ' لبیک' کہہ کر آگے بڑھ گئے،،
" کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مَر جاؤں گا
میَں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
( احمد ندیم قاسمی)
پسِ تحریر۔۔۔میں مانچسٹر کے جس گھر میں ہوں اس کے لان کے آخر میں یہ گرا ہوا ہے ،، جس سے میری روز ملاقات ہوتی ہے ،، اور اب وہ میری یادوں کا اہم رکن بن چکا ہے ،،

( منیرہ قریشی ، 29 جولائی 2022ء مانچسٹر ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں