ہفتہ، 16 جولائی، 2022

"اِک پَرِِخیال" ' پنچھی ، پتّے، اور کنکریٹ'

"اِک پَرِ ِخیال"
' پنچھی ، پتّے، اور کنکریٹ'
لندن کے جس فلیٹ میں چند دن رہنے کا موقع ملا وہ " سینٹرل لندن" کہلاتا ہے ،،،اس بلڈنگ کی سات منازل تھیں اور ہم ساتویں منزل میں قیام پذیر تھے ۔ ،،،جب کہ اس کے دائیں ، بائیں اور سامنے ، نیم دائرے میں مزید چھ اتنی ہی اونچی عمارات تھیں ،،، کہ نیچے کھڑے ہو کر دیکھیں تو گردن مکمل پیچھے کرتے چلے جائیں تو دوسرے لمحے نیچے کر لیں ،، کہ چوبیس ،، یا ،، تیس منازل کا یہ حال ہے تو ،،، تو برج الخلیفہ ، یا ، میل بھر اونچی عمارات کا کیا عالم ہو گا ۔
اسی نیم دائرے میں بنی یہ کل سات عمارات جدید ترین طرزِ رہائش کے ساتھ نئے دور کی آسان زندگی کی مظہر تھیں ۔ انہی عمارات کے درمیان چند کنال زمینی ٹکڑے کو سبز درختوں کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا ،، تمام درخت گہرے سبز تھے ، اور ایک مخصوص اونچائی کے بعد چھتنار درختوں کا روپ دھار چکے تھے ۔ اور یوں یہاں کے مکینوں کے لیۓ آکسیجن پہنچانے کا فرض دن رات نبھا رہے تھے ۔ انہی درختوں کے گرد چوڑی سڑک کو یہاں کے مکینوں کے پیدل چلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا ،، اور وہاں ہر قسم کی گاڑی لانے کی ممانعت تھی ۔ شام کو یا چھٹی کے دن اس سبز گھاس کے سادہ حصے پر بچے کھیلتے ،، اور کچھ خواتین و حضرات سیر کرتے دِکھائی دیتے ،،، اور ہم ان کی مشینی اور غیر قدرتی زندگی پر حیرت زدہ تھیں،،،
" بے شک انسان کو مشقت کے لیے پیدا کیا گیا "
( القرآن )
اس فلیٹ کے کھڑکیوں اور دروازوں پر آواز پروف شیشے لگے تھے لیکن ایک آدھ کھڑکی کھلی رہتی ،، خوشگوار ہوا کو آنے دیا جاتا ،ان کئی منزلہ عمارات کے مکین تو کمروں میں زندگی گزار رہے تھے لیکن ان عمارات کی چھتوں پر "سِی گِل " ( see gill) کے بہت سے خاندان آباد تھے ۔ یہ میرے لیے اچنبھے کی بات تھی کہ سمندر کنارے بسنے والا یہ پنچھی یہاں ، کنکریٹ کے جنگل میں ؟
پہلی صبح کی فجر میں کسی "سردار سِی گِل " کی قدرِ کرخت آواز نے متوجہ کیا ،، اور کچھ ہی دیر میں خاندان کے بہت سے اور پرندوں نے باری باری اپنی مخصوص اور نرالی آوازوں سے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا ،،، تو گویا یہ اب اس کنکریٹ کی دنیا کے بانگ دینے والے مرغے تھے ۔ اور یوں قدرت نے کسی حد تک انسانی فطرت کو انسان کے قریب رکھنے کی کوشش کر رکھی تھی ،،، سر سبز چھتنار درخت اور پنکھ پنکھیرو مل کر فطرت کے قدرتی رنگ کو مکمل کرنے کی کوشش میں تھے ۔یہاں کوّے نظر آۓ ، نہ چیلیں ،، گویا" سِی گِل" کو مکمل تحفظ حاصل تھا ۔ نہ کوئی دشمن ، نہ سجن ۔ کھانے میں کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ۔ کنکریٹ کے جنگل میں بھی سمندری آوازیں ،، جیسے انسان کی روح کو اپنا آپ یاد دلا رہی ہوں ۔
انسان جو بھول جانے والا ہے ،،، اسے یہاں بھی خالق یاد دلا رہا ہے ،، مشقت اور مشینی زندگی میں غرق نہ ہو جاؤ ۔ دیکھو تو فطرت کچھ کہہ رہی ہے !،،،،،،،،،
جب جہاز راں مہینوں ،، ہفتوں بے کنار سمندر کو دیکھتے دیکھتے اکتانے ہی لگتے ہیں کہ یکدم انھیں کہیں دور سے " اس سمندری امید کے استعارے کی کرخت آواز" خوشی کا ترانہ لگتی ہے ۔اور جب وہ نظر آتا ہے تومہینوں سمندر کے رحم و کرم پر زندگیوں کو داؤ پر لگا کر تھکے جہاز رانوں کی آنکھیں چمکنے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے ۔
خالق و مصّور نے اسے یقینی " امید" کا استعارہ بنا دیا ہے ،، انسان کو انسان سے ملنے کا اشارہ بنا دیا ہے ۔۔۔ اور یوں محسوس ہوا اس کنکریٹ کے جنگل میں بھی یہ استعارہ کچھ اور معنی اور اشاروں کے ساتھ براجمان ہے ۔

( منیرہ قریشی 16 جولائی 2022ٰء لندن ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں