پیر، 6 فروری، 2023

" جنگل کچھ کہتےہیں " ( ا)

" جنگل کچھ کہتےہیں " ( ا)
،،،،،،،،،،،،،،،،، انتساب،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مقامِ حدیبیہ کے اس درخت کے نام ،، جس کا ذکر سورہ فتح میں قیامت تک کے لیے امَر ہو گیا اور ، جس کے نیچے کائنات کی عظیم ترین ہستی نے اپنے صحابہ کے ساتھ قیام فرمایا ، اور اعلیٰ و ارفعٰ فیصلے کیے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم اشفاق احمد صاحب رح ،،، اپنے ایک نہایت با ذوق دوست محمد حسین نقش کو تھر سے خط لکھتے ہیں ، " میَں آج کل تھر میں ہوں ، اور یہاں کے مختلف گوشوں کی خاموشیوں کو "ریکارڈ "کر رہا ہوں ۔ سچ پوچھو تو کمرے کے ایک کونے کی خاموشی ،، دوسرے کونے سے مختلف ہوتی ہے ۔ اور یہاں تو علاقہ اور قدرتی ماحول ہی فرق ہے "
کچھ ایسے ہی جنگل یا درختوں کی محبت نہ جانے کب ، کس دور میں دل کے کونے میں ایسی جا گزیں ہوئی ، کہ پتہ بھی نہ چلا اور جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں ۔ جب کبھی سیر کا موقع ملتا ،، تو نظریں درختوں کے جھُنڈ ، درختوں کی چوٹیوں اور ان کے سایوں کو تلاشتیں ۔ اپنے سرسبز گاؤں کبھی جانا ہوتا ، تو مزاج میں نخرے پن کا احساس غالب رہتا ، بھلے وہ چند گھنٹوں کا قیام ہوتا ، یا دو دن ٹھہرنے کا ،،، لیکن اس قیام کے دوران نو عمری کی تنقیدی سوچ غالب رہتی ،،،لیکن جوں ہی سڑک سے اتر کر گاؤں پہنچنے تک کے کھیت کھلیان کو دیکھتے تو دل جھوم جھوم جاتا ،، قیام چند دن کا ہوتا ، تو قریبی پہاڑی کا ایک چکر ضرور لگتا ،،اس کے ٹیڑھے میڑھے راستے کی گھنی جھاڑیوں کو محبت سے دیکھتی ،، ان جھاڑیوں کی جڑوں میں چھپی ننھی منی مخلوق نظر آتی تو مزید نہال ہو جاتی ،، کہ انہی میں سُرخ مخملیں گاؤن اوڑھے مختلف جسامت کی " بیر بہوٹیا ں ، دل کی دنیا میں پُھلجھڑیاں چھوڑنے لگتیں ،،، کہ ساتھ لی ہوئیں ماچس کی خالی ڈبیوں میں انھیں جمع کیا جاتا ،،، اب وہ ہمارے شہر میں جائیں گی ۔ ( اس بات سے لاعلم کہ یہ کیا کھاتی ہیں ، ان کی خوراک کا انتظام بھی کیا جائے )، نتیجہ یہ کہ گھر واپس پہنچنے تک ایک دو بیر بہؤٹیاں اداس پھر رہی ہوتیں ، دوتین مر چکی ہوتیں ۔۔ لیکن خوشی اس بات کی ہوتی کہ فطرت کے ایک عکس کو شہری شب و روز میں دو چار دن دیکھیں گے ۔ اور یہ حسین کیڑے مر جاتے تو اپنے گھر کے صحن کے ایک ستون کی جڑ میں لگی انگور کی بیل ،، اور دوسرے ستون کی جڑ میں لگی چنبیلی کی بیل میں سے کسی ایک کو ایک طرف ، دوسری کو دوسری بیل کی مٹی میں دفن کر دیتیں ۔ ،،، قدرت اپنی فطرت کبھی نہیں بدلتی ۔ انسان دنیا میں آنکھ کھولنے سے لے کر شہر کی گہما گہمی ، اور کنکریت ، لوہے ا ور جدید ترین طرزِ زندگی کا چاہے کتنا عادی کیوں نہ ہو ، قدرتی نظاروں کے لوازمات سے مزّین دنیا کا جب بھی سامنا ہوا ،اُس مشینی انسان کی آنکھیں شوقِ نظارہ میں ٹھہر سی جاتی ہیں ۔ اور ایک پُر تجسس " آہ ،،، اس کے ہونٹوں سے نکل جاتی ، جیسے دل ،، اس کے دماغ سے پوچھ رہا ہو " پہلے کیوں نہیں ،، ؟ پہلے کیوں نہیں دھیان دلایا " ،،،،،یہ اَور بات کہ آج کا مشین زدہ انسان ،، پھر اسی آرام دہ رہن سہن کو یاد کرنے لگتا ہے ،،، اور آج کا انسان ، روح اور بدن کی دو کشتیوں کا سوار ،،، ہو کر ، دوسری اَن دیکھی دنیا کی تھاہ میں اُتر جاتا ہے ۔
بچپن کے اُس سادہ دور میں بھی درختوں تلے پہنچ کے لمبے لمبے سانس ضرور لیے جاتے ،، کہ والدین کا تعلق زمینوں سے بہت گہرا جڑا ہوا تھا ،، اس وقت کے حساب سے سبزے ، درخت ، اور عام چھوٹے پودوں کی محبت میں غرق تھے ،، درختوں کی میٹھی ٹھنڈک کی اہمیت بتا اور جتا دی گئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس شہری ، صحن والے گھر میں بھی ایک سفیدے کا خوب قد آور درخت لگایا گیا تھا ،، جگہ کی کمی تھی لیکن سفیدے کی دوستی کے لیۓ ،،، چنبیلی اور انگور کی بیلیں ، گھر کی دوسری منزل تک پہنچی ہوئی تھٰیں ۔ ایسے محسوس ہوتا ،، جیسے تینوں چوٹیوں کی آپس میں سرگوشیوں میں بات چیت رات ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے ، شاید وہ اپنی خفیہ باتیں ،، گھر میں موجود ستر ، اسّی گملوں کے پودوں سے چھُپانا چاہ رہی ہوتیں ۔۔ سخت آندھی کے دن ،،، سفیدے کے درخت کا بے اختیار ہو کر جھومنا ، ڈرانے لگتا ،، ایسے موقع پر اس کے تنے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے شانت ہونے کا کہتی ،،، اور اکثر محسوس ہوتا کہ وہ پُر سکون ہو گیا ہے ۔۔۔ یا تو وہ میری بات سمجھ جاتا تھا ، یا ،، میَں اس کی وارفتگی کو جان جاتی تھی ،، لیکن ایک خاموشی کی زبان ہم دونوں کے درمیان تھی ضرور !!

( منیرہ قریشی ، 6 فروری 2023ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں