بدھ، 1 فروری، 2023

" اِک پَرخیال " " احساسِ تفاخر "

" اِک پَرِ خیال "
" احساسِ تفاخر "
پرانی ملازمہ ، ایک دن ملنے آگئی ،، ہم دونوں گپ شپ میں مصروف تھیں کہ نئی ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ علیک سلیک کی ۔ پرانی نے پوچھا " سنا ہے مکان مکمل ہو گیا ہے !؟ "
نئی نے جواب دیا " اوو،، بالکل "! 'او 'کی " و " ذرا لمبی تھی ۔ میں یہ منظر دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ،،، پھر سوال ہوا ۔۔۔ " لنٹر ؟؟؟" ۔۔۔۔۔۔۔
اب کی دفعہ جواب میں" و" ذرا زیادہ لمبا آیا " اوووو ، لنٹر " !! اور ساتھ ہی سَر بھی کچھ ٹیڑھا ہوا ۔۔۔جو احساسِ تفاخر سے سرشار تھا ۔
بنک جانا ہوا ، کچھ دیر انتظار کرنا پڑا اتنے میں ایک معززخاتون ، اچھا لباس ، ہاتھوں ، کانوں بانہوں میں مناسب سونے کے زیورات ۔ اسّی کے قریب قریب عمر،، انھوں نےمیچنگ لپ سٹک بھی لگا رکھی تھی ،، کچھ دیر سلام کے بعد چُپ رہیں ،، پھر خود ہی کہنے لگیں" اب میں ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہوں ، تیس سال سرکاری سکول میں استانی رہی ہوں ، بال بچوں کو پڑھایا ، بیاھا ، اور اب گرینڈ چلڈرنز کو انجواۓ کرتی ہوں ،،، پھر ان کے چہرے پر پیاری سی مسکراہٹ آئی ،، اتنے میں ان کا نام پکارا گیا ،،، مینیجر نے نرم لہجے میں پوچھا
آپ کا ٹوٹل اماؤنٹ ،،،، سوال پورا ہونے سے پہلے ہی انھوں نے پُر اعتماد لہجے میں ذرا بلند آواز میں کہا " ستتتر لاکھ " ،،، یہاں احساسِ تفاخر میں اطمینان جھلک رہا تھا ، یہاں " ت" پر پورا زور تھا اور ساتھ ہی انھوں نے مینیجر کی میز پر بایاں ہاتھ بھی کچھ زور سے تھپتھپایا ،،،، گویا کہنا چاہ رہی ہوں ،،، کیا سمجھے !!
فوتگی کے گھر سے جنازہ جا چکا تھا ، غم زدہ خاتون کے گرد دس بارہ خواتین کا گروپ بیٹھا ، ہلکی آواز میں تعزیتی جملے بول رہا تھا ۔ اسی دوران ایک خوشحال خاتون نے دوسری زیادہ خوشحال خاتون سے حال احوال پوچھا ،،،
زیادہ خوشحال کے پوچھنے پر پہلی نے بتایا ،،، سب سے بڑی بیٹی میڈیکل کے آخری سال میں ہے ، دوسرا بیٹا آرمی سے کمیشن لینے والا ہے ،، اس سے چھوٹا او لیول کے دوسرے سمسٹر میں ہے ،،،، میں سینئر لیکچرار بن چکی ہوں ، اب کام کا بوجھ نہیں رہا ،، میاں کو سعودیہ میں پانچ سال سے نوکری ملی ہوئی ہے ،،، بس جی دو حج کر چکی ہوں ،،، مصروفیت ہی مصروفیت ہے ،،، انھوں نے احساسِ تفاخر سے ذرا نظریں ادھر اُدھر دوڑائیں ،، تاکہ جائزہ لیں کہ کچھ لوگ متوجہ بھی ہیں ،،، یا ،،یہ سب کہا ضائع تو نہیں ہو گیا ۔
دوسری زیادہ خوشحال نے بتایا ،،، میرا بھی سب سے چھوٹا ، اولیول کے آخری سمسٹر میں ہے ،، اس سے بڑے ، جڑواں بیٹا اور بیٹی ابھی کالج سے فارغ ہوۓ ہیں اور انھوں نے تو کہا ہے ،، پاکستان کی یونیورسٹیاں کسی قابل نہیں ، ہم تو یا امریکا جائیں گے یا ،، یو کے ۔ اور سب سے بڑی بیٹی فلاں فیکٹری کے مالک کے بیٹے سے پچھلے سال بیاہ دی ہے ،، اور تمہیں تو پتہ ہی ہے ،، ( احساسِ تفاخُر نے ٹھمکا لگایا ) مجھے تو پاکستان کی آب و ہوا میں اب کافی الرجی رہنے لگی ہے ،، اسی لیۓ آدھا سال کسی غیر ملک میں اور آدھا سال پاکستان میں گزرتا ہے ،،میَں انھیں دیکھتی رہی ،، الرجی والے ملک سے ہی
خوشحالی سمیٹی گئی ہے اور اب ،،،،،
دونوں ہاتھوں میں سبزیوںاور پھلوں کے شاپر پکڑے وہ سَرِ راہ ملیں ،، تو بہت ہی اخلاق سے سب کا احوال پوچھا ، میرا بھی فرض بنتا تھا چنانچہ ، پوتے پوتیوں ، نواسوں ، نواسی کا پوچھا ۔۔ کہنے لگیں " ارے بھئی کیا پوچھتی ہو۔ ،، ایک سے بڑھ کر ایک لائق ، فائق ۔۔۔ میرے سبھی بچے غیر ممالک میں سیٹل ہیں ،ان کی اولادیں بھی وہیں پڑھیں گی ،، لیکن بڑے بیٹے کا بیٹا تو اس قدر قابل ہے کہ اسے اُس یونیورسٹی میں داخلہ ملا ہے جہان کسی کو مل ہی نہیں سکتا ،،، لاکھوں میں اکّا دُکا ہی وہاں داخل ہوسکتے ہیں ،، میں ان کی باتیں غورسے سنتی رہی ،، انھوں نے یہ جملہ دو تین دفعہ دہرایا ،،، ان کے اس زور دار اندازِ تفاخُر ،،، سے کچھ ایسا تصور بندھا ،،، کہ امریکا کی اس اتنی بڑی یونیورسٹی میں صرف ، دس بارہ طالب علم ،،، سہمے سہمے پھر رہے ہوں گے ،، جیسے وہ " ہانٹڈ " عمارت ہو َ ۔ اس تصور سے میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ،،، قابل بچے کی دادی نے محسوس کیا کہ مجھے یقین نہیں آرہا ،،، تو انھوں یہ جملے پھر دو دفعہ دہرایا ،، ہم بتا رہے ہیں کہ واقعی وہاں کسی کو داخلہ نہیں ملتا ۔۔تو پھر کس کو داخلہ ملتا ہے ؟ ۔ احساسِ تفاخُر یا احساسِ کمتری ۔
میری تو تینوں بیٹیوں کی شادی ، صحیح وقت پر ہو گئیں ،،، بس جی لوگوں کی تو اکلوتی بیٹھی رہتی ہے ۔۔۔ میری تو پچیس سال سے اوپر ہوئی نہیں کہ
کہ رشتے آۓ ، اور کھٹ سے رخصتی ہوتی گئیں ،،، لوگوں کی تو تیس اور اوپر ہو رہی ہیں ۔۔۔ بس جی نیتوں کا کمال ہے ،،، عقل کُل سے معمُور احساسِ تفاخُر ۔نے سگریٹ سے فاتحانہ راکھ جھاڑی ،،، ( تو پھر تمہارا کمال کیا ہوا )۔۔
ہاتھوں سے محنت کر کے ، یا ، ذہن اور علمی کمائی پر ،،یا ، بچوں کی ڈگریوں ، فیکٹریوں کی ملکیت پر ہر طبقہء سوچ کے لوگ اپنے اپنے " احساسِ تفاخر کے گرد کولہو کے بیل کی طرح گھوم رہے ہیں،،، آنکھوں پر کھوپے تو چڑھے ہیں ، لیکن اپنی مرضیوں سے !!!

( منیرہ قریشی یکم فروری 2023ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں