جمعہ، 17 مئی، 2024

" پہچان "

" پہچان " ( 14 اگست 2023ء پر لکھی گئی اک نظم )
پہلے اِک خطۂ زمیں تو ملے
پاؤں کسی سطحء کو تو چھُوئیں
آسماں تو اپنا ہو !!
تب اِک پہچان ہو !
غیر دیکھیں تو کہہ اُٹھیں
اچھا ،، تو تم ہو اِس خطۂ سرسبز کے باسی،
یوں اِک وطن ملا !
پاکستان بنا ،، پہچان بنا
لیکن ،،،، کچھ لوگ انمول ہوتے ہیں
وہ خود وطن کی پہچان ہوتے ہیں
" کبھی جناحؒ اور کبھی عمران خان ہوتے ہیں "

( منیرہ قریشی 17 مئی 2024ء واہ کینٹ )( نشرِ مکرر) 

پیر، 13 مئی، 2024

" خانہ بدوش ۔۔ کل اور آج"

" عمر رفتہ "
"خیال" کھڑا ہے ساحل کنارے
ریت ہے پھسلتی پاؤں تلے ،،،،
خواہشوں کی کشتیاں ہیں رواں دواں
ڈوبتا ، اُبھرتا سورج بُلا رہا ہے
آو ، نا معلوم جزیروں کی جانب ،،،
اور کبھی ،،،
" خیال " کوہء تجسّس پر قدم جمائے
سرسراتی ہوائیں ، کریں سرگوشیاں !
آؤ نا ! نا معلوم جزیروں کی جانب ،،،،
مگر دنیا تو اب ہے ایک کمرے میں !!
جھولتی کرسی پر
ہاتھ میں ریموٹ لئے
وقت پر طعام ہے
وقت پر آرام ہے ،،،
زندگی کو کہاں دوام ہے ؟
" خیال " بھی سراب ہے
انت تو پُر حجاب ہے !!!

( منیرہ قریشی 14 مئی 2014ء واہ )

۔۔۔۔۔۔
" خانہ بدوش "
اگر تمہیں دوبارہ شروعات ملیں تَو !؟
سہیلیوں کے جھرمٹ نے سوال پو چھا
" میَں تو صرف فطرت کا حصہ بنتی
پہاڑ ، وادیاں ، صحرا اور جنگل پاٹتی
کبھی دریا ، کبھی سمندر سے خود کو سہماتی
میَں تو بس اِک ریوڑ لیتی ،،،
اور دنیا کو اِس کونے سے اُس کونے تک چھاپتی
موسموں کی سختیاں میری جِلد کو بوڑھا کرتیں
میَں وہیں کہیں کسی جنگل کنارے
کسی صحرا یا وادی کی کھائی میں ڈھیری بنتی
الفاظ اور نظروں کے سلگتے کوئلوں کی پروا نہ کرتی
کیوں ، کہاں ، کیسے ،، کے تفتیشی وار سے بہت اُوپر ہوتی
اب تو ،،، ستّر میں آ لگی ہوں ،،،
بس تھوڑا سا تو وقت ہے !
ریوڑ ہو گا اور میَں ،،،،
خانہ بدوشی کا ' اعزازیہ' پانے میں کیا دقت ہے!"
اُٹھو جوان سہیلیو ! ہم جولیو !!
( منیرہ قریشی 14 مئی 2024ء واہ کینٹ)
(یہ نظمیں دراصل 3 جون 2018ء کو لکھی تھیں ،، جب ہم پانچ جہاندیدہ سہیلیاں دس دن اکٹھی رہیں ، اور ہر موضوع کو زیرِ بحث رکھا تھا ، یہ نظمیں جس صفحے پر لکھی تھیں وہ گم ہو گیا اور اتفاق سے پرانے کاغذات میں سے یہ دونوں نظمیں نکل آئیں ، جنھیں درج کر رہی ہوں )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
 

"انتساب " ۔۔۔ "جنگل کچھ کہتے ہیں "

"انتساب"

" ببول کے اُس درخت کے نام جس کے سائے تلے عظیم ترین معاہدۂ حدیبیہ طے پایا " 



"فہرست "۔۔۔۔"جنگل کچھ کہتے ہیں "

"فہرست "

   ٭ ا ۔کبھی کبھی ہم بس یہی کچھ چاہتے ہیں

٭2۔ خیالات و الفاظ کا جنگل

٭3۔ نتھیا گلی کا سِحر

٭4۔ایپنگ فارسٹ کے مکین

٭5۔زمین بوس درخت کی کتھا

٭6۔ کوئینز پارک کے قدیم درخت

٭7۔ٹینڈل ہل پارک کی اُداسی

٭8۔ایش ورتھ سے باتیں

٭9۔خوشبو جیسی باتیں اور صندل کا جنگل

٭10۔بیک اپ کے جنگل سے مصنوعی جنگل تک

٭11۔سلطان صلاح الدین عبدالعزیز مسجد

٭12۔سوات ریسٹ ہاؤس ایک دل فگار یاد

٭13۔ریمز بوٹم انگلینڈ کی دردناک پہاڑی

٭14۔ مہاتمابدھ کا پسندیدہ انجیر کا درخت

٭15۔سرگودھا کا صدیوں پُرانا برگد کا درخت

٭16۔ افریقی جنگل کا فضائی نظارہ

٭17۔ رقصِ درویش اور ترکی کے تاریخی شہر بُرصہ کا فضائی نظارہ

٭18۔ میرا دوست چِھدرا جنگل

٭19۔ راہِ اُمید

٭20۔چھانگا مانگا کا دُکھ

٭21۔ خواہشِ ناتمام

٭22۔الوداع دوست

٭23۔سفر نصیب


              


اتوار، 12 مئی، 2024

"دیباچہ " ۔۔۔ "جنگل کچھ کہتے ہیں "

"دیباچہ "
دیکھا جائے تو کائنات میں دو رنگ حاوی ہیں ,ہلکا نیلا اور سبز !! نیلا آسمان ، نیلا پانی ، نیلی آنکھ اور نیلے رنگ کی دنیا میں جابجا بہاریں الگ ۔جب کہ سبز رنگ سبز درخت ، سبز پہاڑ اور بہت سے سبز دریا اورپھر سبز رنگ کی دنیا میں الگ ہی جہتیں ۔سمجھ نہیں آتا کہ سبز کے اتنے روپ کہ اُن کے منفرد نام لیتے ہوئے کچھ لمحے سوچنا پڑتا ہے ، زمردیں ، کاہی، مونگیا، سمندری سبز ، کاہی سبز ، یا پھر ہلکے پیلے سبز ۔گویا اللہ نے ہر رنگ کو صرف رنگ کے طور پر ہی تخلیق نہیں کیا بلکہ اس میں ہلکے سے لے کر گہرے سے گہرا شیڈ ایسا بنایا کہ رنگوں کی ہوس رکھنے والی آنکھوں کی تسکین ہو سکے۔
درختوں کی اپنی شکل و قامت ، تنّوں کی موٹائی ،رنگوں کے مختلف النوع عکس ، پتّوں کی بناوٹ اور پھر ان میں چھُپے خواص و صفات کی کشش اپنی جگہ لیکن جب یہ احساس جاگ جائے کہ یہ درخت میرا انتظار کرتا ہے ، مجھے بلاتا ہے اور کچھ کہنا بھی چاہتا ہے شاید وہ دُکھی ہے اور نہ جانے کیا دکھ سمیٹے کھڑا ہے۔ تو یہ سب دیکھ کر انسان مسحور نہ ہو تو کیوں کر نہ ہو ۔
والدین فطرت کے شیدائی رہے ۔ جس کے اثرات اولادپر ہونا ہی تھے ، بچپن سے درختوں ، پودوں کی محبت اور صُحبت ہماری فطرت کا حصہ بن گئی ۔ بچپن ایک شہری گھر میں گزرا جس کے صحن میں گملوں کی قطاریں تھیں جیسے کوئی نرسری ہو ۔ صحن کے وسط میں کسی کا تحفتاً دیا سفیدے کا درخت اور اس پہ مستزاد صحن کے دونوں اطراف چنبیلی اور موتیا کی بیلیں ۔ یہ وہ پُر بہار اور سر سبز ماحول تھا جس میں آنکھ کھُلی ، پھر درخت اور سبز رنگ ہمارے ساتھ ساتھ رہے ۔ سفیدے کے اس درخت نے خوب تیز رفتاری سے قد نکالا ، جب شمالی ہوا چلتی تو وہ پورے زور و شور سے جھومتا کہ جیسے ہوائیں اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہی ہوں اور وہ دھمال ڈال رہا ہو۔ میرے لئے اس کا یہ رُخ بہت دلچسپی کا باعث رہا ۔
کچھ وقت اور گزرا ،میرے جُڑواں بہت خوش مزاج بچپن گزار رہے تھے ۔ وہ چہکتے پرندوں کی طرح اپنی مَدُھر آوازوں سے ہر وہ گانا گاتے ، جو اِن دنوں ٹی وی پر مقبول ہوتا ، وہ گھر کے پچھلے باغیچے میں لوکاٹ کے درخت کے نیچے زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ۔ خاص طور پر لوکاٹ کی ایک ٹہنی اِن کی پہنچ میں تھی جس پر روزانہ دو تین گھنٹے گزارنا از بس ضروری ہوتا ۔ چھ سال کی عمر آتے ہی ایک جان کو خالق کا بلاوا آ گیا اور دوسرے کی دلچسپی لوکاٹ یا اس کی ٹہنی پر جھولنا یکسر ختم ہو گئی ۔ چند ماہ تک اپنے اندر کی دنیا نارمل کرنے کے بعد پچھلے لان میں گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لوکاٹ کا سارا درخت توہرا بھرا تھا لیکن وہی ٹہنی سوکھ رہی تھی جس پر وہ بلا ناغہ بیٹھتے تھے ، مزید چند ہفتے گزرے اور ٹہنی ٹوٹ کر گر گئی۔ درخت کی حساسیت اور کرب و غم کے اس واقعہ نے مجھے درختوں اور اُن کی زبان کے مزید قریب کر دیا ۔ بہت بعد میں علم ہوا کہ درخت صرف سانس لینے والی مخلوق نہیں بلکہ وہ تو باتیں کرتے ہیں ، احساسات کی دنیا بسائے پوری دنیا کے درختوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں ۔ انھیں دُکھ اور خوشی کا بھرپور اظہار کرنا آتا ہے اور اِن کی دنیا میں انسانی یا جنگلی مخلوق کے لئے وسعتِ قلب ہے ، اِسی لئے تو جہاں درخت ہوں وہاں ، رنگ ، خوشبُو ، جنگلی حیات اور ہواؤں کے ساتھ رقصِ درویش سے ہی فطرت کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے ۔
درختوں پر لکھی کتاب "جنگل کچھ کہتے ہیں" کو مکمل کر لیا تو انتساب کا سوچا اور سوچ نے لمحہ بھی نہ لگایا کہ
" ببول کا وہ درخت ، جو مقام حدیبیہ میں ایک چھتنار درخت کی طرح موجود تھا اور جس کا ذکر سورہ فتح میں اللہ شان جل جلالہ' نے بہت اہمیت کے ساتھ کیا ہے ۔ جس کے سائے تلے ، ایک خاص وقت میں کائنات کی عظیم ترین ہستیؐﷺنے چند ارفع ساتھیوں کے ساتھ وہ معاہدہ کیا کہ ایسا منظر شاید ہی کسی اور درخت کے سائے تلے دِکھائی دیا ہو "۔ یہ درخت اس اہم واقعہ کے چند سال بعد ہی وہاں سے ایسا ناپید ہوا کہ جیسے وہ سر زمینِ حجاز پر تھا ہی نہیں ۔ شاید اس درخت کو اس پاکیزہ فرض کے بعد دنیا میں اپنا مقصد حیات پورا ہوتا محسوس ہوا اور مالکِ حقیقی نے اسے اوجھل کردیا ۔میں نے "جنگل کچھ کہتے ہیں " کا انتساب اس اہم ڈیوٹی دے کر چلے جانے والے ببول کے درخت کے نام کیا ہے ۔
منیر نیازی کا ایک خوبصورت شعر ہے
؎ ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو شخص سُنتا ہے، وہ بول بھی تو سکتا ہے
مجھے یہ شعر صرف ایک لفظ کی تبدیلی سے اپنی کتاب میں درج خیالات کی عکاسی کرتا محسوس ہوا ،جو شاعر سے معذرت کے ساتھ لکھ رہی ہوں۔
ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو
جو "درخت " سُنتا ہے،وہ بول بھی تو سکتا ہے
منیرہ قریشی
اردو بلاگر"خانہ بدوش"
munirazafer.blogspot.com
یکم جون  2025
واہ کینٹ

 

ہفتہ، 11 مئی، 2024

"پیش لفظ "۔۔۔"جنگل کچھ کہتے ہیں "

"پیش لفظ" 

    منیرہ قریشی اور واہ کینٹ لازم وملزوم ہیں۔پینتیس برس پہلے ایک تعلیمی ادارے کی    بنیاد    رکھی، جو اب ایک شجرِسایہ دار کی صورت نونہالِانِ  وطن کی آبیاری میں سرگرم ِعمل ہے۔تعلیم کے فروغ کی کامیاب عملی کوشش کے بعد محترمہ منیرہ قریشی اب ایک لکھاری کے طور پر سامنے آئی ہیں۔اپنے تجربات،مشاہدات اور احساسات کو لفظوں  میں پرو کر کتابوں کی رنگارنگ مالا  ترتیب دی ہے۔

خودنوشت "یادوں کی تتلیاں" اگر جسم وجاں پر بیتے  حالات و واقعات کے موسموں کی کتھا ہے  تو "سلسلہ ہائے سفر" دیارِغیرکی فضاؤں میں حیرت وانبساط کے در کھولتے  تاثرات   کی   سرگوشیاں ہیں ۔

انشائیے "اِک پرِخیال"  اگر کھلی آنکھ سے دیکھے گئے معاشرتی مسائل پر خودکلامی ہے تو  "لمحے نے کہا" شاعری کی زبان میں اپنے جذبات کا اظہار ہے۔

نئی آنے والی کتاب" جنگل کچھ کہتے ہیں"لفظوں کے اس رنگارنگ گلدستے میں  ایک خوب صورت اضافہ ہے۔یہ اپنی نوعیت کا  ایک طویل مکالمہ ہے، شناسائی کا سلسلہ ہے جو نصف صدی    سے زائد کئی عشروں پر محيط ہے۔جیسا کہ       نام سے ظاہر ہے  یہ دوبدو بات چیت کی ایسی انوکھی داستان ہے کہ  قاری  خودبخود  اس   گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔

اہم بات یہ  "جنگل کچھ کہتے ہیں "تخیل  کی انتہا پر جا کر دیوانہ وار رقص کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں  درختوں ، جنگلوں کےحوالے سے  نہ صرف  مادرِ وطن بلکہ   بیرونی ممالک  کے  بہت سے ایسے دل سوز تاریخی واقعات     و سانحات  کا تذکرہ ہے جن کو  پڑھ کر قاری لمحہ  بھر کو دکھ اور  تاسف کےجنگل میں بھٹک جاتا ہے تو  اگلے پل امید کی کرن اسے نئے  راستوں کی چھب  دِکھلا دیتی  ہے۔

جنگل کچھ کہتے ہیں بطور خاص رپورتاژ نہیں بلکہ فاضل  مصنفہ کےذہنی اور جسمانی سفر کا اپنی طرز کا ایک  منفرد سفرنامہ   ہے.  جس میں بچپن کی معصومیت دِکھتی ہے تو کبھی  لڑکپن کی حیرانی دم بخود کر دیتی ہے۔نوجوانی کی جذباتیت قدم روکتی ہے تو  ادھیڑ عمر کی تنقیدی نگاہ کہانیاں کہتی ہے۔کہیں کہیں گزرتی عمر کی چاپ سنتے ماضی اور حال کے تضادات اُداس بھی  کرتے ہیں۔تخيل  اور حقائق کے خوب صورت امتزاج سے گندھے لفظوں کی یہ مہک قاری کو   آخر تک اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

 منیرہ قریشی  کی تمام تحاریر اُن کے بلاگ " خانہ بدوش" پر پڑھی جا سکتی ہیں۔

munirazafer.blogspot.com

  محترمہ پروین شاکر کا شعر آپ کے ادبی سفر  کے نام

خوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے 

موجِ ہوا کے ہاتھ میں اُس کا سراغ  ہے

      نورین تبسم

اُردو بلاگر۔ "کائناتِ تخیل"۔

noureennoor.blogspot.com 

یکم  جون 2025

اسلام آباد 

جمعہ، 10 مئی، 2024

"سرورق " ۔۔ جنگل کچھ کہتے ہیں

تعارف مصنف

 منیرہ قریشی   درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ   سماجی اور رفاعی اداروں کے قیام کے حوالے سے  واہ کینٹ کا ایک معتبر نام  ہیں۔علمی اور ادبی ماحول نے ذوقِ مطالعہ کو مہمیز کیا۔کتابوں سے محبت اور لفظ سے  دوستی کے سفر میں اپنے احساسات     خاموشی   سے سپردِقلم کرتی رہیں۔وقت نے مہلت دی اور بخت نے اجازت دی تو   احباب کے اصرار پر   اپنے خیالات وتجرباتِ زندگی           کتاب  کی صورت مجتمع کر کے  سامنے لائیں۔

 منیرہ قریشی کی شائع ہونے والی کتابوں پر ایک نظر 

٭ لمحے نے کہا۔۔۔ شاعری 

٭یادوں کی تتلیاں۔۔۔۔ خودنوشت

٭سلسلہ ہائے سفر۔۔۔ سفرِ حج اور  بیرونِ ملک سفر(ملائیشیا،دوبئی ،تھائی لینڈ ،انگلستان  اور ترکی)   کا احوال

٭اِک پرِخیال۔۔۔انشائیے

٭ جنگل کچھ کہتے ہیں۔۔۔ رپور تاژ

 

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔23)

 "سفر نصیب "

باب۔۔23

جانے وہ کون سا لمحہ تھا ، یا قبولیت کی گھڑی تھی کہ میں ٹھیک دو سال بعد ، ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ایک بار پھر چھدرے جنگل کے روبرو تھی، جبکہ اس سال کسی بھی مغربی ملک نا جانے کا تہیہ کر رکھا تھا ۔ ارادہ کسی مشرقی علاقے کی طرف پر سکون جگہ کی تلاش کا تھا ۔ لیکن جمع ، تفریق ،حفاظت ، اصرار اور محبت کے سارے جذبات کے شربت کو پینے ، پلانے کے بعد پھر سے وہیں اُسی طرف قدم اٹھ گئے ، جہاں کا دانا پانی لکھا تھا۔ اور یوں اپنے دوست جنگل کے سامنے جا پہنچی ، زوردار سلام کے بعد اٗس پر طائرانہ نظر ڈالی، تو مجھے واضح طور پر جنگل کی شرارتی مسکراہٹ محسوس ہوئی ۔ اوہ ! تو گویا یہ اس کی دعائیں تھیں جنھوں نے میرے ارادوں کو پلٹ کر رکھ دیا ۔ اگرچہ خواہش تو میری بھی تھی کہ اگلی بار دوست جنگل سے سر سبز لباس کے علاوہ کسی اور لبادے میں ملاقات ہو، اور یہ موسم شدت برودت کا ہو ، کہ جس میں جنگل کی الگ دنیا ، الگ رنگ ڈھنگ دیکھ پاؤں ۔ اب جب ارادوں کے برعکس پھر جنگل سے علیک سلیک کر رہی تھی تو سوائے جہاندیدہ درختوں کے ، نوجوان درخت کافی حد تک کم لباسی کا شکار ہو رہے تھے ۔ ان نوخیز درختوں کی جانب سے کچھ شرمیلا انداز بہت بھایا ۔ جہاندیدہ درختوں کے تنوں پر ہاتھ رکھ کر ، میں کچھ دیر آنکھیں بند کئے ، دل کی زبانی پیام رسانی کرتی رہی ۔ مضبوط تنوں کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی ، ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ مجھے واقعی سنائی دے رہی ہے ؟ میں نے سوچا ہی تھا ، کہ درخت نے محبت بھری سرگوشی کی " اس لئے کہ تم ہماری دلی دوست بن گئی ہو اور دلی دوست سے ہی تو دل کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔ دیکھو ذرا اپنی اس کتاب کا آخری پیرا گراف یاد کرو ، جس میں تم نے لکھا تھا " میری شدید خواہش تھی کہ تمہیں برف کے لحاف اوڑھے ، چُپ کی عبادتوں کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھا دیکھتی ، لیکن سب خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں "۔لیکن تم کیوں بھول گئیں ، کہ اجتماعی دعا ایک خاص ردھم پیدا کرتی ہےاور جب یہ گونج قبولیت کے ساز کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے تب ساز اور الفاظ کی ہم آہنگی شیشے توڑ کر ، قفل کھول کر رکھ دیتی ہے ۔اور وہ بھی ہم جیسوں کی دعا !! تو تمہارے لئے ہم سب کی دعا قبول ہوئی ۔ اس موسم میں جب لوگ یہاں سے گرمائی علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں ، ہم جانتے تھے، تم ان لوگوں کے برعکس خواہشات کو دل کے کسی گوشے میں پالتی رہتی ہو۔ بے شک ان خواہشات کے دروازے پر "شاید " کا قفل لگا ہوتا ہے اور اس کی کھڑکیوں پر "امید" کے پردے گرے رہتے ہیں ،جن کے ٹھنڈے شیشوں کے پیچھے تمہاری آنکھیں کبھی کبھی پردہ ہٹا کر باہر سے گزرتے "وقت" کے چوکیدار کو دیکھتی بھی ہیں کہ وقت ہی وہ پہریدار ہوتا ہے ۔ جو ہاتھ میں سٹاپ واچ تھامے ،ہماری ، تمہاری خواہشوں کے پورا ہونے یانہ ہونے کا اعلان کرتا چلا جاتا ہے اور پھر ہم اپنی دعاؤں یا خواہشوں کے پورا ہونے نہ ہونے کے ٹیلی گرام وصول کرتے چلے جاتے ہیں" ۔ جہاندیدہ درخت اپنے آس پاس کے سبھی درختوں کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ میں نے بند آنکھیں کھولیں ، کیوں کہ میری آنکھیں نمی سے بھر چکی تھیں ۔ شکریہ کے دو آنسو گرے اور اس کی جڑوں میں ضم ہو گئے ۔ جیسے میں اس کے لئے اتنے دور سے یہی تحفہ لا سکی تھی ۔ درختوں کی ستائش بھری نظروں کو محسوس کرتے ہوئے گھر کے اندر چلی آئی ۔ چند دنوں میں ہی میری وہی دو سال پہلے کی لگی بندھی روٹین چل پڑی ،، جیسے میں تو کبھی یہاں سے کہیں گئی ہی نہ تھی۔ اس دفعہ میں خود پر نازاں تھی کہ فقط اس خوبصورت گھر کے مکینوں نے ہی نہیں بلکہ جنگل نے بھی مجھے محبت بھرا دعوت نامہ ارسال کیا تھا ۔ جس کے نیچے لکھا تھا۔ "آپ کی آمد کے منتظر "دعاؤں کے ساتھ " موسم عین اپنے رب کے حکم کے ساتھ ، سورج کے اس رُخ کے سامنے تھا ، جب اکثر ہی ٹھنڈی ہوائیں ، جھومتی ہوئی آتیں اور درختوں کے پیلے اور گہرے خاکی پتوں کو جھاڑ کر آگے بڑھ جاتیں ۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ، درخت اپنی کم لباسی پر شرمندہ شرمندہ سے ہیں ، اور کبھی یوں لگتا وہ مراقبے کے دورانیے کی تیاری میں ہیں۔ وہی منظر جسے دیکھنے کی خواہش جانے کتنے سالوں سے پال رہی تھی ۔ ایک ایک دن کے ہر منظر کو میں دل ، دماغ اور یادوں کی تجوری میں سینت سینت کر رکھتی جا رہی تھی ۔
ایک دوسرے پارک میں موجود درختوں کے ذخیرے میں خزاں اپنے جوبن پرتھی ۔ سبز پتے تو خال خال تھے البتہ پیلے اور سرخ درختوں نے آگ کے الاو دہکا رکھے تھے ۔ جو پورے ماحول کو مزید رومانوی بنا رہے تھے ۔ سردی کی شدت میں اضافے کے آگے ، جیسے ان شاندار درختوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دئیے تھے ۔ وہ اپنی عمر رسیدگی ، مضبوطی ، اور خوب گھیردار تنوں کے ساتھ لمبی قامت اور شاخوں کے خوب پھیلاؤ کے باوجود موسم کے بے رحم احکامات کے سامنے سر جھکانے پر مجبور تھے ۔کہ پتوں کا گرنا ، دراصل انہی کی بقا کی علامت بن چکا ہے ۔ قدرت کسی پر خواہ مخواہ ظلم نہیں کرتی ، اس خالق نے ہر نمو کے لئے ، پہلے پرانی چھانٹی اور پھر نئی پوشاک دینے کا کھرا اصول وضع کر رکھا ہے اور اب یہی اصول لاگو ہوتے دیکھنا کیا ہی "رنگین تجربہ" تھا۔ اور پھر ایک مرحلہ وہ آگیا جب درجہ حرارت نے اعلان کیا ، بس آج کی شام یا رات ،، کچھ دیر کو وہ جادوئی منظر ، جسے میری آنکھوں نے اتنے برسوں کے عمر سفر میں پہلی بار دیکھنا تھا ، لیکن کائنات نے سہنا تھا ۔ شام سورج بہت پہلے ہی چھٹی پر جا چکا تھا ، ماحول پر ہلکا اندھیرا ٹھہر گیا تھا ۔ کھڑکی کے باہر سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں بے آواز روئی کے گالوں نے زمینی منظر کو نیا روپ دینا شروع کر دیا ۔ اور گھنٹے بعد اک تواتر سے برف کے گالوں کی وہ جھڑی لگی سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ روئی کے گالے ہیں یا موتیے کے پھولوں کی لڑیاں۔ قدرت نے مجھے اس نئے ، منفرد اور بے آواز تجربے سے آگاہ کیا ۔ کہ دل اور جسم رقصِ درویش کی کیفیت سے دو چار ہوتا محسوس ہوا۔ چند الفاظ بے اختیار دل کی دھڑکنوں میں آن بسے ۔ کبھی کبھی آ کھڑی ہوتی ہیں ،وہ ساعتیں" جیسے وحی کا نزول ہو کائناتِ مظہر پر کبھی کبھی آسمان برساتا ہے روئی کے گالے ،چپکے چپکے جیسے لڑیاں ہوں موتیے کے پھولوں کی صورت جھڑی تھی برف کے گالوں کی صورت بے آواز جلترنگ تھا ، سناٹے کی صورت اور کائنات تھی رقصاں ننگے پاؤں آگہی پانے کی مستی کیف کی صورت وہ آگہی کی ساعتیں ، ہم جیسوں کے لئے دل کھول کر دیدار کراتی رہیں۔ جو بیالیس درجہ حرارت سے آئے ، اور پھر سال بھر کے لئے اُن کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گی۔ اگلی صبح، جلدی سے دوست جنگل کی طرف گئی ۔ لیکن یہ کیا !! سارے درختوں نے برف کے لحاف اوڑھ لئے تھے ۔ اور ان کی کمزور اور مضبوط ٹہنیوں نے دعایہ انداز میں اپنے ہاتھوں پر برف کو ٹھہرایا ہوا تھا ۔ تا دیر ساکت ہو کر یہ نظارہ دیکھا ۔ چاروں طرف مقدس خاموشی کا پہرہ تھا ۔ کسی بھی درخت پر کوئی لرزہ طاری نہ تھا کہ اب ان کی روحانی تربیت کا دورانیہ چل پڑا تھا ۔ رات کی اوّلین برفباری گویا اٗن کو روحانی تجربے سے گزارے جانے کا آغاز تھی۔ آج ہر درخت نے ساکن ہو کر آنکھیں موند رکھی تھیں۔ وہ مراقبے کی اس کیفیت میں آچکے تھے کہ اگر ان پر کلہاڑی بھی چل جاتی تو وہ سر تسلیم خم کئے رہتے۔ یہ اعتکاف کبھی کم کبھی زیادہ دنوں پر محیط رہتا ہے ۔ اور جب وہ آنکھیں کھولیں گے ، تب مہاتما بدھ راجا سدھارت کی طرح گیان پا لیں گے ۔ وہ دوسروں کو پھر سے محبت ، شفقت اور بانٹنے کا سبق دیں گے کہ کائنات کے ہر مظہر میں یہ صفت سمو دی گئی ہے کہ میری مخلوق کو محبت کے ساتھ اپنی روشنی ، اپنی خصوصیات ، اپنا پھل بانٹتے رہو ، یہی نرمی ،یہی تعاون ، کا سبق وہ اوّل دن سے دے رہے ہیں ، یہ اور بات کہ کچھ قوموں نے اس سبق کو کسی حد تک اپنا لیا ۔ لیکن کچھ اقوام جہالت کے گڑھے سے نکل ہی نہیں پا رہیں ۔ وہ درختوں کو محض لکڑی سمجھ کر ان سے بے دردی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔  
مجھے وقت نے مہلت نہیں دی کہ اپنے دوست جنگل کو اِن کے نئے ملبوسات پر انھیں مبارک باد کہہ سکتی ۔ لیکن جیسا پہلے لکھا ہے ۔۔

۔"کہ آرزوؤں کی ٹوکری کو کچھ ادھورا ہی رہنا چاہیے، تاکہ جینے کے کچھ جواز موجود رہیں"۔

بدھ، 8 مئی، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔ 22)


"الوداع دوست"
باب۔22
گھر کے لان کی باڑ سے باہر کے قدرتی جنگل سے ایسی دوستی ہو گئی گویا ہم عشروں سے اکٹھے رہ رہے ہوں ۔ اُس کے کونے کونے کے پودوں سے ، درختوں کے پتوں کے رنگوں کی تبدیلی سے ، وہاں کے مستقل باسیوں ، اور اُن کی چلنے پھرنے سے ایسی آشنائی ہو چلی تھی کہ جیسے میں ان کا ہی حصہ ہوں ۔ جنگل نے اپنی صنف کے علاوہ دوسروں کو محبتیں بانٹنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا ، یہی صفت ہر جنگل میں بھی ہوتی ہے ۔ مجھے لمبے عرصے تک اس چھدرے جنگل نے جس محبت سے اپنے حلقۂ احباب میں شامل کیا ہو ا تھا ، اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں ۔ اِس محبت کا ہی انداز تھا کہ وہ کبھی کوئی نظارہ میری آنکھوں کی چمک دوبالا کر دیتا، کبھی اُس رقص کا مظاہرہ ہوتا ، جو میرے انگ انگ کو سرور دے دیتا ، کبھی یہ درخت اپنے ساتھ رہتے ، چھوٹے ، خوبصورت پرندوں کی چہکار کو ایسے مختلف سُر میں پیش کرتے کہ انسان حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے معمور ہو جائے ، اِس لئے کہ عام روٹین میں اِن پرندوں کی بولیاں انہی کی ذات کا مقرر کردہ حصہ لگتیں ، لیکن خاص خاص لمحات میں اُن کی بولیوں میں وہ انفرادیت ہوتی جو جنگلوں کے شیدائی ہی محسوس کر سکتے ہیں ۔ اللہ کا کرم کہ یہ نیلے ، سُرمئی ، اناری اور سیاہ رنگوں کے مختلف جسامت کے پرندے اپنے خوشی اور بے چینی کے دورانیےمیں نکلتی آوازوں سے دل اور آنکھوں کو طمانیت بخشتے رہے ۔ نہایت چھوٹی اور کچھ بڑی گلہریاں ، شروع دنوں میں سہمی اور اَتھری رہیں لیکن آہستہ آہستہ اُن کے لئے انسانی موجودگی نارمل ہوتی گئی اور جنگل کے مکینوں نے مجھے بھی داخلِ خاندان کر لیا تھا ۔
لیکن ! اب وقت کا " کاؤنٹ ڈاؤن " شروع ہو چکا تھا ۔ میں دن میں دو اور کبھی تین مرتبہ " سلام کرتی اور احوال " پوچھتی !! یہی دلی رابطہ مضبوط ہوتا چلا گیا تھا ۔ لیکن الوداعی ملاقاتیں شروع ہو چکی تھیں اور جدائی سے دو دن قبل میں اپنے پیارے دوست سے ملنے گئی ، تو جنگل نے حیرت انگیز طور پر سَرد مہری دکھائی ۔ ہر چیز ، ہر پتّا ، ساکت تھا کسی شاخ پر ایک بھی پرندہ نہ تھا ۔ جیسے دن کا آغاز نہیں رات کا کوئی پہر ہو !
میں نے حیرت سے یہ سب دیکھا اور کچھ دیر بعد ہی کہا "اچھا چلتی ہوں ، اپنے وطن کی تیاری ہے ، شاید مزید ملاقاتیں نہ ہوں "، جواباًخاموشی اور گہری ہو گئی ۔
میں نے جنگل سے کہا " مجھے یاد کرتے رہنا ۔ میری تو شدید خواہش تھی کہ تمہیں برف کے لبادے اوڑھے ، چُپ کی عبادتوں کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھا دیکھتی ، لیکن سب خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں ۔ ویسے بھی " آرزوؤں کی ٹوکری کو ادھورا ہی رہنا چاہیے، تاکہ جینے کے کچھ جواز رہیں ۔ پھر جنگل تو خزاں ، بہار ، گرمی ، سردی ، برسات میں الگ رنگ و انگ میں نظارے دیتے ہیں ، تمہارے وہ روپ جو تم کم ہی کسی پر عیاں کرتے ہو ، وہی تمہارے مہمانِ خصوصی ہوتے ہیں ۔شکریہ پیارے جنگل ! تم نے مجھے بہت سے رُوپ دکھائے ،اپنا گانا ، اپنے رقص ، اپنے راز ، خاموشی کی مخصوص زبان سُجھائی ۔ ان سب کے لئے شکریہ " ۔
لیکن اُس وقت اس دوست جنگل کی بے اعتنائی ، سرد مہری ، میرے روئیں روئیں کو دکھ اور کرب سے دوچار کر رہی تھی ۔ہاں البتہ یہی کرب ، جنگل بھی تو برداشت کر رہا ہو گا ، مجھے خیال آیا ۔ تو میری آنکھ سے اِک قطرۂ جدائی بزرگ درخت کی جڑ تک جا پہنچا ، دل گیر ہو کر میں نے اللہ حافظ کہا اور جوں ہی مڑ نے کے لیے قدم بڑھائے ،جنگل کا سرسراہٹ بھرا جملہ ٹکرایا ، " ہم اِس لئے اداس نہیں کہ تم جا رہی ہوں ، تم نے تو اپنی تحریر میں الفاظ کے جنگل میں ہمیں اسیر کر لیا ہے ، اِس تحریر کو جب تم پڑھو گی ، ہزاروں میل دور تصورات کی دنیا سجا کر ہمیں سامنے پاؤ گی ۔ ہم تو یہاں عشروں کے سَرد گرم سہہ سہہ کر شاید کبھی ڈھیر ہو چکے ہوں گے ۔ تم نہیں آؤ گی تو بس یہی ملال رہے گا کہ ہماری خاموشی کی زبان ، ہمارے لئے دل میں عجب محبت لیے ، جانچتی آنکھیں لیے ، ہماری داستانوں پر کامل کان دھرے ، کوئی تو سُنتا ہے ۔ ! ابھی تو ہم نے اپنی کہانی درمیان تک ہی سنائی ہے کہ یا تو تمہیں اپنی دنیا کا بلاوہ، یا مٹی کا بلاوہ آ جاتا ہے ۔ نہ ہم مکمل کہہ پائے نہ تم کامل سُن پائیں ۔ جانے اب ایسی سراہتی آنکھوں والا کوئی کب آئے ؟ یا کبھی نہ مل سکے !! بس یہی وجہ تھی ہماری اداسی کی "
یہ سارا جواب سن کر میرے دل کو سکون آ گیا تو گویا اب میں بھی کسی کے خیالوں اور یادوں میں دہرائی جاتی رہوں گی ۔
میں نے دوست جنگل کو یہ رباعی نذر کی کہ عین میرے حالِ دل کی عکاسی تھی اور کہا مجھے جب یاد کرو گے تو اس رباعی کے الفاظ پر غور کرنا ۔ میں تمہارے اور تم میرے آہنگ تک پہنچ جاؤ گے ۔۔۔
؎ پھر میَں نے قطرہ قطرہ یہ سب سبزہ پی لیا
جیون زمین کے ہر جیو کا میں نے جی لیا ! !
گُل ، پھل ، شجر ، پہاڑ ، سمندر ہیں آیتیں
قرآن میں نے سَو روح پہ یہ سارا سی لیا ( بشکریہ کومل ذیشان )

( منیرہ قریشی ، 9 مئی 2024ء واہ کینٹ ) 

منگل، 7 مئی، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔21)


" میرا دوست چِھدرا قدرتی جنگل جو کچھ تو باڑ کے اندر تھا اور باقی باڑ کے باہر"
" خواہشِ ناتمام"
باب۔۔21
آج اتنے عرصے بعد چھانگا مانگا کے جنگل کی بھیگی آنکھوں کی یاد نے دل گرفتہ کر ڈالا ، تو اپنے پیارے دوست " چھِدرے جنگل " کے پاس چلی گئی ۔ یہ محفل میرے لئے غم غلط کرنے کی بہترین تھیراپی بن جاتی تھی اور ابھی تک ہے !!
ان درختوں کے بھی کیا کہنے کہ آپ کے کچھ کہے بِنا ہی دل کی کیفیت اور چہروں کے تاثرات کو جانچ جاتے ہیں کہ ہمارے قریب آنے والا اس وقت کس اتھل پتھل کا شکار ہے ۔ وہ غم میں ہے یا خوشی میں ۔ اس کی خوشی میں خوش ہونا تو آسان ہے لیکن دوسرے کے غم کو کیسے کم کر سکتے ہیں ۔ اِس معاملے میں درخت ہمارے اچھّے استاد ہوتے ہیں ۔ " باڑ کے باہر کے چھِدرے جنگل" کے پاس پہنچتے پہنچتے جیسے ہی آہستہ سے سلام کیا اور ایک آہ بھر کر خاموش کھڑی ہو گئی کہ آج مزید کچھ کہنے کو نہ تھا ۔ چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اچانک خراماں خراماں چلتا ہوا ایک خوبصورت جوان ہرن چرتا نظر آیا ،کیا ہی حسین منظر تھا ۔ جنگل اِس وقت اپنے مکمل حُسن کے ساتھ سامنے تھا ، خوبصورتی صرف چاندنی رات اور دریا کے کنارے کی موجودگی سے ہی نہیں ہوتی بلکہ جنگل اپنے درختوں ، پتوں ، چڑیوں ، تتلیوں اورجنگلی جانوروں کی موجودگی سے اپنے حُسن کو مکمل کر کے دِکھا رہا ہوتا ہے ۔
آج اس لمحے اس جنگل میں اطمینان سے چرتے ، خوبصورت دھبے دار ہرن کی موجودگی سے دل باغ باغ ہو گیا ۔ فطرت اپنے آپ کو عیاں کر کے خوشی دینے کا باعث بنتی ہے ۔ بس لمحے کی گرفت ہو اور درختوں سے دوستی ہو ۔ تو گویا یہ آج کی اداسی کو رفع کرنے کی ایک پیاری سی کوشش تھی ۔ گرچہ جنگل سے دوستی کو کئی مہینے گزر چکے تھے تتلیوں ، چڑیوں اور گلہریوں سے دوستی کروا دی گئی تھی اور ایک دن لومڑی کی جھلک نے بھی دل شاد کیا تھا اور آج ہرن ! ہرن مزید بےفکر ہو کر چَرتا چُگتا ٹہلتا رہا ۔ میَں بھول ہی گئی کہ کچھ دیر پہلے مجھے وطن اور اُس کے ساتھ زیادتی کرتے اہلِ وطن کے کرتوں نے کس قدر دل گرفتہ کر رکھا تھا ۔
دن گزرتے جا رہے تھے، اِس نئی سرزمین کے صاف ستھرے نظاروں نے جیسے پاؤں میں زنجیر ڈال دی تھی ۔ یہاں کی سب سے اہم بات انصاف و قانون کی بالا دستی اور صفائی نے دل کو سکون دیا ہوا تھا ۔ ایسا میرے وطن میں بھی ہو جائے ، ویسا میرے خطے میں ہو جائے ۔ جانے میرا وطن کب بھیڑیوں کے چُنگل سے آزاد ہو گا ؟، میری قوم کب با شعور اور با خبر ہو گی! اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہی اور اس پر عمل درآمد سے ہی ہم ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھ پائیں گے ۔
یہاں ایک جھیل پر بنے ڈیم کی طرف جانا ہوا ،ڈیم سے باہر کی دو فرلانگ کی گول چوڑائی کو باریک بجری سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ وہاں آس پاس کوئی درخت نہیں تھا ، لیکن ایک بڑا سا بورڈ ان ہدایات کے ساتھ لگا ہوا تھا ۔۔۔
" یہاں کسی قسم کے بار بی کیو ، یا پکنک کی اجازت نہیں ، عمل نہ کرنے والے پر ڈھائی ہزار پونڈ جرمانہ کیا جائے گا "
اب اگر کسی وزیر کی فیملی ہے یا بادشاہ کی اولاد ۔۔ اوّل تو قانون توڑیں گے نہیں ورنہ اتنا بھاری جرمانہ اور بدنامی الگ سہنا پڑے گی ۔ میرے ملک کوایک عام پولیس کا سپاہی یا آفس کا کلرک بھی اپنی ذاتی جائیداد سمجھ کر لُوٹ رہا ہے تو بڑے عہدے دار تو مکمل فرعون بنے بیٹھے ہیں ۔ ایسی سوچ کب بدلے گی ؟ جانے کب ؟۔

( منیرہ قریشی ، 8 مئی 2024ء واہ کینٹ )