"سفر نصیب "
باب۔۔23
جانے وہ کون سا لمحہ تھا ، یا قبولیت کی گھڑی تھی کہ میں ٹھیک دو سال بعد ، ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ایک بار پھر چھدرے جنگل کے روبرو تھی، جبکہ اس سال کسی بھی مغربی ملک نا جانے کا تہیہ کر رکھا تھا ۔ ارادہ کسی مشرقی علاقے کی طرف پر سکون جگہ کی تلاش کا تھا ۔ لیکن جمع ، تفریق ،حفاظت ، اصرار اور محبت کے سارے جذبات کے شربت کو پینے ، پلانے کے بعد پھر سے وہیں اُسی طرف قدم اٹھ گئے ، جہاں کا دانا پانی لکھا تھا۔ اور یوں اپنے دوست جنگل کے سامنے جا پہنچی ، زوردار سلام کے بعد اٗس پر طائرانہ نظر ڈالی، تو مجھے واضح طور پر جنگل کی شرارتی مسکراہٹ محسوس ہوئی ۔ اوہ ! تو گویا یہ اس کی دعائیں تھیں جنھوں نے میرے ارادوں کو پلٹ کر رکھ دیا ۔ اگرچہ خواہش تو میری بھی تھی کہ اگلی بار دوست جنگل سے سر سبز لباس کے علاوہ کسی اور لبادے میں ملاقات ہو، اور یہ موسم شدت برودت کا ہو ، کہ جس میں جنگل کی الگ دنیا ، الگ رنگ ڈھنگ دیکھ پاؤں ۔ اب جب ارادوں کے برعکس پھر جنگل سے علیک سلیک کر رہی تھی تو سوائے جہاندیدہ درختوں کے ، نوجوان درخت کافی حد تک کم لباسی کا شکار ہو رہے تھے ۔ ان نوخیز درختوں کی جانب سے کچھ شرمیلا انداز بہت بھایا ۔ جہاندیدہ درختوں کے تنوں پر ہاتھ رکھ کر ، میں کچھ دیر آنکھیں بند کئے ، دل کی زبانی پیام رسانی کرتی رہی ۔ مضبوط تنوں کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی ، ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ مجھے واقعی سنائی دے رہی ہے ؟ میں نے سوچا ہی تھا ، کہ درخت نے محبت بھری سرگوشی کی " اس لئے کہ تم ہماری دلی دوست بن گئی ہو اور دلی دوست سے ہی تو دل کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔ دیکھو ذرا اپنی اس کتاب کا آخری پیرا گراف یاد کرو ، جس میں تم نے لکھا تھا " میری شدید خواہش تھی کہ تمہیں برف کے لحاف اوڑھے ، چُپ کی عبادتوں کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھا دیکھتی ، لیکن سب خواہشیں کہاں پوری ہوتی ہیں "۔لیکن تم کیوں بھول گئیں ، کہ اجتماعی دعا ایک خاص ردھم پیدا کرتی ہےاور جب یہ گونج قبولیت کے ساز کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے تب ساز اور الفاظ کی ہم آہنگی شیشے توڑ کر ، قفل کھول کر رکھ دیتی ہے ۔اور وہ بھی ہم جیسوں کی دعا !! تو تمہارے لئے ہم سب کی دعا قبول ہوئی ۔ اس موسم میں جب لوگ یہاں سے گرمائی علاقوں کی طرف کوچ کر جاتے ہیں ، ہم جانتے تھے، تم ان لوگوں کے برعکس خواہشات کو دل کے کسی گوشے میں پالتی رہتی ہو۔ بے شک ان خواہشات کے دروازے پر "شاید " کا قفل لگا ہوتا ہے اور اس کی کھڑکیوں پر "امید" کے پردے گرے رہتے ہیں ،جن کے ٹھنڈے شیشوں کے پیچھے تمہاری آنکھیں کبھی کبھی پردہ ہٹا کر باہر سے گزرتے "وقت" کے چوکیدار کو دیکھتی بھی ہیں کہ وقت ہی وہ پہریدار ہوتا ہے ۔ جو ہاتھ میں سٹاپ واچ تھامے ،ہماری ، تمہاری خواہشوں کے پورا ہونے یانہ ہونے کا اعلان کرتا چلا جاتا ہے اور پھر ہم اپنی دعاؤں یا خواہشوں کے پورا ہونے نہ ہونے کے ٹیلی گرام وصول کرتے چلے جاتے ہیں" ۔ جہاندیدہ درخت اپنے آس پاس کے سبھی درختوں کی نمائندگی کر رہا تھا ۔ میں نے بند آنکھیں کھولیں ، کیوں کہ میری آنکھیں نمی سے بھر چکی تھیں ۔ شکریہ کے دو آنسو گرے اور اس کی جڑوں میں ضم ہو گئے ۔ جیسے میں اس کے لئے اتنے دور سے یہی تحفہ لا سکی تھی ۔ درختوں کی ستائش بھری نظروں کو محسوس کرتے ہوئے گھر کے اندر چلی آئی ۔ چند دنوں میں ہی میری وہی دو سال پہلے کی لگی بندھی روٹین چل پڑی ،، جیسے میں تو کبھی یہاں سے کہیں گئی ہی نہ تھی۔ اس دفعہ میں خود پر نازاں تھی کہ فقط اس خوبصورت گھر کے مکینوں نے ہی نہیں بلکہ جنگل نے بھی مجھے محبت بھرا دعوت نامہ ارسال کیا تھا ۔ جس کے نیچے لکھا تھا۔ "آپ کی آمد کے منتظر "دعاؤں کے ساتھ " موسم عین اپنے رب کے حکم کے ساتھ ، سورج کے اس رُخ کے سامنے تھا ، جب اکثر ہی ٹھنڈی ہوائیں ، جھومتی ہوئی آتیں اور درختوں کے پیلے اور گہرے خاکی پتوں کو جھاڑ کر آگے بڑھ جاتیں ۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ، درخت اپنی کم لباسی پر شرمندہ شرمندہ سے ہیں ، اور کبھی یوں لگتا وہ مراقبے کے دورانیے کی تیاری میں ہیں۔ وہی منظر جسے دیکھنے کی خواہش جانے کتنے سالوں سے پال رہی تھی ۔ ایک ایک دن کے ہر منظر کو میں دل ، دماغ اور یادوں کی تجوری میں سینت سینت کر رکھتی جا رہی تھی ۔
ایک دوسرے پارک میں موجود درختوں کے ذخیرے میں خزاں اپنے جوبن پرتھی ۔ سبز پتے تو خال خال تھے البتہ پیلے اور سرخ درختوں نے آگ کے الاو دہکا رکھے تھے ۔ جو پورے ماحول کو مزید رومانوی بنا رہے تھے ۔ سردی کی شدت میں اضافے کے آگے ، جیسے ان شاندار درختوں نے ہتھیار ڈالنا شروع کر دئیے تھے ۔ وہ اپنی عمر رسیدگی ، مضبوطی ، اور خوب گھیردار تنوں کے ساتھ لمبی قامت اور شاخوں کے خوب پھیلاؤ کے باوجود موسم کے بے رحم احکامات کے سامنے سر جھکانے پر مجبور تھے ۔کہ پتوں کا گرنا ، دراصل انہی کی بقا کی علامت بن چکا ہے ۔ قدرت کسی پر خواہ مخواہ ظلم نہیں کرتی ، اس خالق نے ہر نمو کے لئے ، پہلے پرانی چھانٹی اور پھر نئی پوشاک دینے کا کھرا اصول وضع کر رکھا ہے اور اب یہی اصول لاگو ہوتے دیکھنا کیا ہی "رنگین تجربہ" تھا۔ اور پھر ایک مرحلہ وہ آگیا جب درجہ حرارت نے اعلان کیا ، بس آج کی شام یا رات ،، کچھ دیر کو وہ جادوئی منظر ، جسے میری آنکھوں نے اتنے برسوں کے عمر سفر میں پہلی بار دیکھنا تھا ، لیکن کائنات نے سہنا تھا ۔ شام سورج بہت پہلے ہی چھٹی پر جا چکا تھا ، ماحول پر ہلکا اندھیرا ٹھہر گیا تھا ۔ کھڑکی کے باہر سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں بے آواز روئی کے گالوں نے زمینی منظر کو نیا روپ دینا شروع کر دیا ۔ اور گھنٹے بعد اک تواتر سے برف کے گالوں کی وہ جھڑی لگی سمجھ نہیں آ رہا تھا یہ روئی کے گالے ہیں یا موتیے کے پھولوں کی لڑیاں۔ قدرت نے مجھے اس نئے ، منفرد اور بے آواز تجربے سے آگاہ کیا ۔ کہ دل اور جسم رقصِ درویش کی کیفیت سے دو چار ہوتا محسوس ہوا۔ چند الفاظ بے اختیار دل کی دھڑکنوں میں آن بسے ۔ کبھی کبھی آ کھڑی ہوتی ہیں ،وہ ساعتیں" جیسے وحی کا نزول ہو کائناتِ مظہر پر کبھی کبھی آسمان برساتا ہے روئی کے گالے ،چپکے چپکے جیسے لڑیاں ہوں موتیے کے پھولوں کی صورت جھڑی تھی برف کے گالوں کی صورت بے آواز جلترنگ تھا ، سناٹے کی صورت اور کائنات تھی رقصاں ننگے پاؤں آگہی پانے کی مستی کیف کی صورت وہ آگہی کی ساعتیں ، ہم جیسوں کے لئے دل کھول کر دیدار کراتی رہیں۔ جو بیالیس درجہ حرارت سے آئے ، اور پھر سال بھر کے لئے اُن کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گی۔ اگلی صبح، جلدی سے دوست جنگل کی طرف گئی ۔ لیکن یہ کیا !! سارے درختوں نے برف کے لحاف اوڑھ لئے تھے ۔ اور ان کی کمزور اور مضبوط ٹہنیوں نے دعایہ انداز میں اپنے ہاتھوں پر برف کو ٹھہرایا ہوا تھا ۔ تا دیر ساکت ہو کر یہ نظارہ دیکھا ۔ چاروں طرف مقدس خاموشی کا پہرہ تھا ۔ کسی بھی درخت پر کوئی لرزہ طاری نہ تھا کہ اب ان کی روحانی تربیت کا دورانیہ چل پڑا تھا ۔ رات کی اوّلین برفباری گویا اٗن کو روحانی تجربے سے گزارے جانے کا آغاز تھی۔ آج ہر درخت نے ساکن ہو کر آنکھیں موند رکھی تھیں۔ وہ مراقبے کی اس کیفیت میں آچکے تھے کہ اگر ان پر کلہاڑی بھی چل جاتی تو وہ سر تسلیم خم کئے رہتے۔ یہ اعتکاف کبھی کم کبھی زیادہ دنوں پر محیط رہتا ہے ۔ اور جب وہ آنکھیں کھولیں گے ، تب مہاتما بدھ راجا سدھارت کی طرح گیان پا لیں گے ۔ وہ دوسروں کو پھر سے محبت ، شفقت اور بانٹنے کا سبق دیں گے کہ کائنات کے ہر مظہر میں یہ صفت سمو دی گئی ہے کہ میری مخلوق کو محبت کے ساتھ اپنی روشنی ، اپنی خصوصیات ، اپنا پھل بانٹتے رہو ، یہی نرمی ،یہی تعاون ، کا سبق وہ اوّل دن سے دے رہے ہیں ، یہ اور بات کہ کچھ قوموں نے اس سبق کو کسی حد تک اپنا لیا ۔ لیکن کچھ اقوام جہالت کے گڑھے سے نکل ہی نہیں پا رہیں ۔ وہ درختوں کو محض لکڑی سمجھ کر ان سے بے دردی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔
مجھے وقت نے مہلت نہیں دی کہ اپنے دوست جنگل کو اِن کے نئے ملبوسات پر انھیں مبارک باد کہہ سکتی ۔ لیکن جیسا پہلے لکھا ہے ۔۔
۔"کہ آرزوؤں کی ٹوکری کو کچھ ادھورا ہی رہنا چاہیے، تاکہ جینے کے کچھ جواز موجود رہیں"۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں