ہفتہ، 30 جون، 2018

سفرِانگلستان (21)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
 سفر ولایت یو، کے( 21)۔
لندن کا دوسرا دن خوابوں کی تعبیر کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ،، واپسی کے راستے میں جوجی ، اور بچیوں نے بتایا کہ ہم نے کیمبریج یونیورسٹی کے پہلے وزٹ کو نارمل لیا تھا ،، جو معلومات ہمیں لینی چاہیے تھیں ، اس کے بجاۓ ہمارا فوکس سینری یا دریاۓکیم کی سیر تک تھا ،، اس دفعہ صورتِ حال خاصی علمی معلومات کے ساتھ رہی ۔ کاش ہم مزید ایک آدھ دن رکتیں تو تو ان کلاس رومز ، کو دیکھتیں جہاں علامہؒ نے وقت گزارا تھا ، یا آئزک نیوٹن کی تجربہ گاہوں میں جا سکتیں ،، میرا خیال ہے اس یونیورسٹی میں ایک ماہ گزارا جانا ، حسین ترین وقت بِتانا ہوتا ۔ لیکن خیر !! گویا اب ان سب کا دوسرا وزٹ بھی نیا ہی رہا ۔ اگلے دن مائرہ واپس مانچسٹر روانہ ہو گئی ، اور اب میرا اور جوجی کا واپس مانچسٹر باۓ ٹرین کا ارادہ تھا کہ میں یہ تجربہ بھی ضرور کرنا چاہتی تھی ۔ اور ابھی تو دنیا کے مشہور اور اہم ترین شہر پر صرف نظر ڈالی تھی ۔۔ اور اب وقت بھی کم ، اور " دید " کا مقابلہ سخت تھا ، کوئ دن ضائع نہیں کیا جا سکتا تھا ،،،، میرا اپنا خیال ہے ، ،،،، !۔
اگر آپ کو کوئی نیا شہر پہلی نظر میں پسند نہیں آیا ، تو وہاں ایک ہفتہ سے ذیادہ نہ ٹھہریں ، بھلے کتنا بھی ناپسند آۓ ، پھر بھی وہاں دیکھی جانے والی کچھ جگہیں ہوں گی ، جنھیں ایک دفعہ دیکھ کر اس جگہ کا کچھ نہ کچھ خاکہ ذہن میں کلیئر ہو جاتا ہے ، اور زندگی میں آپ دوبارہ یہاں" "نہ"آنے ، کی خواہش پال سکتے ہیں ۔
اگر آپ کو کوئی جگہ یا شہر" کچھ" پسند آہی گیا ہے ، تو یہاں دو ہفتے سے ایک ماہ ضرور ٹِک جائیں ۔ ( آپکے وسائل پر بھی مبنی ہے ) تاکہ یہاں کی مشہور جگہیں ، ضرور دیکھ لیں ، یا یہاں کے لوگوں سے کچھ میل جول ہو ، یہاں کے مقبول کھانوں کو چکھ سکیں ،،، اور دوبارہ آنے کی خواہش کو ذہن و دل کے نہاں خانوں میں سنبھال کر لپیٹ کر رکھ لیں ، کیوں کہ آپ اس جگہ ، یا شہر کو پہلی نظر میں کچھ پسند کر چکے ہیں ۔
اور اگر کوئی جگہ بہت ہی پسند آ گئی ہے ، تو پھر اس بارے دوسری بات ہے ہی نہیں ،، آپ یہاں بار بار آنا چائیں گے ، اور ہر دفعہ اس کے عشق میں ذیادہ غرق ہوتے چلے جائیں گے ،،، اور میرے لیۓ چند جگہیں اسی لسٹ میں شامل ہیں ،،، جن میں کسی بھی سوچ کے بغیر میں مکہ اور مدینہ کانام لوں گی، جہاں مجھے سال سال بھر کا دورانیہ مل جاتا ، تو میرے لیۓ دنیا کا  بہترین وقت گزرتا ،، لیکن یہ وقت ایک تحقیقی جذبے کے ساتھ ہوتا ،، ایک ایک لمحے کو با شعور ہو کر کشید کر سکتی ، کاش !۔
اور پھر میں نے اور دنیا دیکھی ہی کہاں تھی ،،، اس لیۓ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ،،، والا حساب تھا ،، البتہ لندن ،، جس کے عشق میں ٹونزیں ناکوں ناک دھنسیں ہوئی تھیں ،،، میرے دل کو اداس کر گیا ،، شاید بہت عرصہ رہنے سے محبت جاگزیں ہو جاتی ہو ، یہ ہفتہ ، دس دن تو کچھ بھی نہ تھے ،، لیکن میں نے دل ہی دل میں مانچسٹر کی وادیوں کو ذیادہ نمبر دے دیۓ تھے ۔ 
خیر تو بات ہو رہی تھی اگلے دن کی ، مائرہ کے جانے کے بعد ایمن ثمن نے کچھ گھریلو کام نبٹانے تھے ، وہ صبح نکل گئیں ،، تو جوجی نے مجھے بتایا کہ یہاں چند قدم کی واک پر ایک پارک ہے، جس کانام ہے " مڈ شوٹ پارک " چلو چلتے ہیں، فٹا فٹ بند بوٹ پہنے اور واقعی سڑک پار کرتے ہی ، چند منٹ واک کی ، تو اس پارک کے براۓ نام گیٹ میں داخل ہوئیں ، یہ ایک 15، 16 کنال کے رقبے پر پھیلا پارک تھا ،، جو ارد گرد کے لوگوں کے لیۓ نہ صرف تفریح کے لیے تھا بلکہ ،، یہاں نزدیکی بوڑھے خواتین و حضرات کے لیے ، دو کنال مختص تھے ، جس کے گرد مضبوط  باڑھ لگا دی گئی تھئ اور اب جس نے جتنا ایریا کراۓ پر لیا تھا ، اس نے اپنے اس ایریا کے گرد بھی الگ فینس لگا لی تھی ،، اور ہم اس مضبوط فینس کے عین سامنے ایک بینچ پر بیٹھیں آس پاس کے ماحول کو انجواۓ کر رہی تھیں کہ ایک بزرگ برطانوی نے،،،سامنے والی فینس پر لگے نہایت براۓ نام سے گیٹ کے تالے کو کھولا ، تو ہم دونوں مسکرانے لگیں ۔ کہ تنکوں ، اور سرکنڈوں سے بنے اس دو ڈھائی فٹ اونچے گیٹ کو تالا لگانے کی کیا ضرورت تھی ، لیکن انسانی نفسیات ہے کہ ، ملکیت کا احساس اور تالے کا خود سے کھولنا ، خود حفاظتی کی کوشش کا اظہار ہوتا ہے ،، آزما کر دیکھیں ،،، !  ۔
ہم وونوں نے بیک وقت ، سوچا ، اور ان سے درخواست کی کہ کیا آپ اپنے ایریا کو دکھانا پسند کریں گے ؟ ، انھوں نے ایک نظر ہمیں دیکھا ،، اور ہمارے لباس کے تحت کہا " انڈیا " ؟ ،،، فوراً بتایا ، نو پاکستان ! ، لیکن انھوں نے فوراً " او شؤر " کہا ، اور ہمیں اپنا ایریا دکھانے آگے چل پڑے , اندر کسی کا "ایک مرلے کا باغ" تھا ، کسی کا دو مرلے ،،، اس سےذیادہ کسی کا نہیں تھا ۔ جی ہاں ،، ہر  ایک کے ایریا کے گرد اپنی فینس تھی! اور کسی کے " باغ "میں ، بینگن لگے سوکھ رہے تھے اور کسی کے "کھیت" میں ٹماٹر لگے ہوۓ تھے ،، ہمارے بزرگ میزبان نے خوش دلی سے بتایا ، میَں دو ماہ سے ملک سے باہر تھا ،، اس لیۓ میرا ایریا " اجڑ اجاڑ " پڑا ہوا ہے ، آج سے اس کی صفائی کروں گا ۔ اس نے بتایا ،،،،،، چوں کہ ہم بہت چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں ، بعض اوقات ایک آدھ گملا رکھنے کی ہی گنجائش ہوتی ہے ، جبکہ ہمارا دل چاہتا ہے باغبانی کرنے کو ،،، تو ہماری حکومت نے اس طرح کے بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہمیں کراۓ پر دے دیۓ ہیں ، ذیادہ چھوٹا ایریا ایک مرلے والے کا کرایا ، ایک یا ڈیڑھ پونڈ ہوتا ہے ، جبکہ ذرا اس سے بڑا دو پونڈ کرایا میں پڑتا ہے ۔ ہم کبھی روز اور کبھی ہفتے میں ایک دو دن آتے ہیں اپنے باغبانی کا چسکا پورا کر لیتے ہیں ۔ "" ،،،، یہ سب ریٹائرڈ لوگوں کے لیۓ ،،، اور اس عمر کے لوگوں کی مصروفیات کے لیۓ ،،، اور ان کی فرسٹریشن ( اداسی اور تنہائی ) ختم کرنے کے لیۓ ،، ان کی ویلفئر حکومت ان کی کتنی فکر کرتی ہے ۔ ،،، اور یہ سوچ ، یہ اقدامات ، انھیں ، " دینِ اسلام " نے دیئۓ ،، انھیں قانونِ فاروقی ر ض نے یہ اقدامات کرنے کا آئیڈیا دیا ۔ کہ یہ بزرگ لوگ ہمارے لیۓ اپنی جوانی ، کی سبھی طاقتیں لگا تے رہیں ہیں اب انکو پینشن ، اور انکی عمر کے مطابق مصروفیت دینا ، سٹیٹ کی ذمہ داری ہے ۔ میری نظروں کے سامنے ،،، اپنے مڈل کلاس کے بزرگوں کی مصروفیات ، اور صحت ، اور سہولتوں کی تصویر آگئی ،،، کیا ہو گا کب ہو گا ،،،؟؟؟؟؟؟؟؟
میَں جب بھی دوسرے ممالک کی ترقی ، اور عوامی سہولیات دیکھتی ہوں ، تو میری دعاؤں میں شدت آجاتی ہے کہ میرے " یا اللہ ، ہمارے ترسے ہوۓ ، بے یار ومددگار لوگوں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لانے والے حکمران آئیں" ،،،، آمین۔ 
مڈ شوٹ پارک کے باقی حصے کی سیر کی تو پتہ چلا کہ اس سارے ایریا کو بہت قدرتی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے ، پارک کے درمیان سے ایک پتلی سڑک گزرتی تھی ، جہاں صرف سکول کے بچوں کی وین ،آ سکتی تھی ، یا وہاں کے ڈیوٹی پر موجود ورکرز کی بیٹری سے چلنے والی دو چار چھوٹی کاریں چل رہی تھیں ،، دائیں طرف ایک گہری جگہ تھی جہاں سفید سوانز ، یا بطخیں ، کافی تعداد میں پھر رہیں تھیں ، نیز یہیں ایک صاف لان میں ایک دو موٹے رسے تنے ہوۓ تھے ، جن کی اونچائی ذیادہ نہ تھی ۔ یہ نرسری تا پنجم تک کے بچوں کے لٹکنے اور رسہ سے لٹک کر کمانڈوز کی طرح، گزرنے کے لیۓ لگاۓ گۓ تھے ،، سڑک کے بائیں طرف ایک یا ڈیڑھ کنال کے پانچ ، چھے جنگلے بنے ہوۓ تھے ۔ جہاں وہ جانور جوڑا جوڑا کر کے رکھے گۓ تھے ، ، جنھیں بچے چھُو سکیں ،، یہ گھریلو جانور ہیں ، ایک جوڑا ، بیل اور گاۓ کا تھا ، ایک جنگلے میں اونٹ ، ایک میں بکرا بکری اور ایک میں بھڑ یں تھیں ، البتہ ایک میں جنگلی بھینسا بھی تھا اور ایک میں " لاما " ،، اس پارک کے ڈیوٹی ورکرز میں 5،، 6 چاک و چوبند عورتیں اور مرد ، سمارٹ یونیفارم میں موجود تھے ۔ آج بہت پیارے بچوں کا ایک گروپ ، خوبصورت نیلے یونیفارم میں اپنی تین استانیوں کی نگرانی میں لائن میں چلے آرہے تھے ،، ہم تو سر تا پیر ٹیچرز تھیں ،، اس لیۓ یہ نظارہ ہمارے لیۓ بہت دلچسپی کا تھا ۔ اس لیۓ ہم نے مزید معلومات ٹیچرز سے لینے کی درخواست کی ،، اس نے بھی مسکرا کر لیکن مسلسل چلتے رہنے کی پوزیشن میں ہمارے سوالوں کے جواب دیۓ ،،، یہ ان کی فرض شناسی تھی کہ ، اپنی ڈیوٹی کا کوئی لمحہ غفلت سے نہیں گزارنا ، اسی نے بتایا ، یہ ایک پورا ہفتہ ایک سکول کی باری ہوتی ہے ، ہر روز دو کلاسز ٹیچرز کی نگرانی میں آتی ہیں ، بچے بطخوں کو کھانا ڈالتے ،، رسے کی ایکسر سائز کرتے ہیں ، اور آخر میں ، پارک میں موجود کسی ایک یا دو جانوروں کو چھُونے کے لیۓ اس سڑک پر آجاتے ہیں ،،، ایسا بچوں کے نیچر سے محبت بڑھانے اور گھریلو جانوروں کے خوف دور کرنا مقصد ہوتا ہے ۔ یہ محبتیں ، یہ توجہ ، یہ بچوں کا انتہا درجہ خیال ،،، ہمارے ملک میں صرف 5 فیصد بچوں کو میسر ہے ،، وہ بھی " اَپر کلاس " سے تعلق رکھنے والوں کے بچوں کو ۔ باقی 95 فیصد ، اس تعلیمی تربیت کا صرف سوچ سکتے ہیں ، ، خود ہم دونوں ، کیسے کیسے پلان بناتی رہیں ، اور اپنے سکول کی ابتدا ئی دور میں ہم نے چھوٹے طوطوں کے دو پنجرے ، اور ایک فینس لگا خرگوشوں کا ایریا بنایا تھا ،، ایک فینس میں صرف ریت ڈلوائی گئی تھی ، جہاں گرمیوں میں آخری پیریڈ میں پلے گروپ ، ، نرسری اور پریپ تک کے بچے ، اس ریت سے انجواۓ کرتے ، اور پھر چھٹی کے وقت تک ، وہیں رہتے ، اس طرح گھر جاتے ہی نہا لیتے ،، اور یہ وقت ، ان بچوں کی خوشی کی انتہا کا ہوتا ،،، لیکن افسوس بہت کہنے کے باوجود ذیادہ تر مائیں ، صفائی کے خبط کے تحت ، بچوں کو مٹی یا ریت سے نہیں کھیلنے دیتیں ۔ اور ایسا چھوٹا سا گھریلو جانوروں کاپارک بھی ہمارے آس پاس نہیں ، البتہ کسی بھینسوں کے باڑے جو قطعی صفائی کے معیار پر نہیں اترتا ،،، کاش بچوں کو نیچر سے متعارف کراۓ رکھنے کی طرف ، اہلِ ثروت ہی توجہ کر دیں ،،، کیوں کہ میرے وطن کے بجٹ میں سب سے کم بجٹ تعلیم کے لیۓ رکھا جاتا ہے ۔ اس لیۓ باقی سہولتوں کے خواب دیکھتے شاید ایک اور نسل گزر جاۓ۔
( منیرہ قریشی 30 جون 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں