پیر، 25 جون، 2018

سفرِانگلستان (19)۔

 سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِِ ولایت ، یو کے (19)۔
لندن پہنچنے کے چند گھنٹوں میں مائرہ ہم دونوں کو " سلاؤ " کے علاقے میں پھرا لائی تھی ، تاکہ، مانچسٹر واپسی سے پہلے وہ ہمیں ان جگہوں پر لے جاۓ ، جہاں کا سفر لمبا ہے اور میرے لیۓ مشکل نہ ہو ، چناچہ فلیٹ پہنچ کر اس نے مجھ سے پوچھا ، کون سی خاص جگہ ، جہاں آپ جانا ضروری اور پسندیدہ سمجھتی ہیں ، تاکہ وہاں آپ کو لے جاؤں اور اگلے دن میں واپس چلی جاؤں ، میَں نے کہا ،، یا آکسفورڈ یونیورسٹی ،، یا کیمبریج یونیورسٹی ،،؟
ٹونزوں نے فوراً " جامِ جم " کھولا اور گوگل سے معلومات لیں ، پتہ چلا سینٹرل لندن سے دائیں طرف جائیں تو آکسفورڈ یونیورسٹی 70 کلو میٹر دور ہے اور بائیں طرف جائیں تو کیمبریج یونیورسٹی بھی 70 کلو میٹر دور پڑتی ہے ، آپ ہی بتائیں ، کہاں چلیں ،،، ! میَں نے کہا مجھے اپنے مرشد حضرتِ علامہ اقبالؒ کی علمی درس گاہ کو دیکھنا ہے ، سب نے اس پر اتفاق کیا ۔ اور صبح 9 بجے ہم کیمبریج ٹاؤن کی طرف رواں دواں تھیں ، ، لندن کے گنجان شہر سے نکلے اور ہائی وے پر آتے ہی آنکھوں کو طراوت مل گئی ،، دائیں بائیں ، ہموار ، با ترتیب ، سر سبز کھیت ،، لگاتار ، لگاتار !!! کھیتوں کے بہت بڑے قطعات فصل کی کٹائ کے بعد اب زمین کو ریسٹ دینے کا دورانیہ چل رہا تھا ، چند انچ کی سبز گھاس نے سارے راستے کو سبز رنگ میں رنگ دیا تھا، جگہ جگہ گھاس کے بڑے چھوٹے رولز کے بنڈل پڑے تھے۔ موسم لندن والوں کے حساب سے گرم تھا ( ہم گرمائی خطے والوں کے لیۓ معتدل ) سموتھ ڈرائیونگ ، با مذاق ہم سفر ، اور نئی جگہوں کی سیر نے مجھ پر سکون کی کیفیت طاری کر دی تھی ۔ اور وہ درس گاہ جہاں علامہؒ اقبالؒ کو ایک ڈگری لینے کا موقع ملا ، کودیکھنا میرے لیۓ بہت خوش کُن تھا ۔ دورانِ سفر جوجی اور بچیوں نے بتایا کہ ہم پہلے بھی کیمبریج ٹاؤن جا چکی ہیں،، مائرہ کی ایک سہیلی ان دنوں اس ٹاؤن میں رہ رہی تھی جس کی دعوت پر یہ سب گئیں ،،، کیمبریج یونیورسٹی کو بھی دیکھا لیکن سرسری سا ،،، اس لیۓ اس چند سال کے وقفے کے بعد دوبارہ دیکھنا ،، انھیں بھی اچھا لگ رہا تھا ۔ ٹھیک ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم ،ایک گھنے درختوں کے موڑ پر مڑے تو مائرہ نے بتایا ہم کیمبریج ٹاؤن کے قریب پہنچ گئی ہیں ،، اور پھر اس علمی درس گاہ کے قدیم طرز کے گیٹ میں داخلہ ،، میرے لیۓ خوشگوار لمحہ تھا ۔ ایمن ثمن کی طرف سے کھٹا کھٹ تصویریں کھینچی جانے لگیں ،،۔
چند منٹ کی ڈرائیو کے دوران جو آس پاس کی قدیم طرزِتعمیرکی عمارات کا " گرے رنگ "پورے منظر پر حاوی تھا ،،، ان مضبوط ، بڑی بڑی ، عمارات کو سجانے کے بجاۓ انھیں محفوظ اور کار آمد بنانے رکھنے پر ذیادہ فوکس کیا گیا تھا ،،،،،چند منٹ کی مزید ڈرائیو کے بعد مائرہ نے لینڈ کروزر ایک جگہ پارک کر دی ،،، اب ہم باقی سیر پیدل کریں گے ،،، اور واقعی آدھ گھنٹے کی سیر کے دوران ، اکا دکا کاریں نظر آئیں ،،، ذیادہ تر طلباء اور پروفیسر صاحبان سائیکلوں پر یا پیدل پھِر رہے تھے ۔ اور یہ ہی وجہ تھی کہ کہ دھوئیں سے قریباً صاف فضا ، نے ہر منظر واضح اور نمایاں کر رکھا تھا ۔ کچھ بلڈنگز کے اندر داخل ہو کر تصاویر لیں ،( یہ سب اس قسط کے آخر میں موجود ہیں ) ایک بہت چوڑی شاہراہ کے کناروں پر گھاس کے قطعات تھے ،، جن پر مختلف یونیفام پہنے لڑکے لڑکیاں ، کچھ بیٹھے ، کچھ پھرتے نظر آۓ ، تب مجھے علم ہوا کہ یہاں بہت سے کالجز ہیں ، جو کیمبریج بورڈ کے انڈر آتے ہیں اور یہ سب مل کر کیمبریج یونیورسٹی کہلاتے ہیں ، ان کالجز کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے ، ایک گروپ " ٹرینٹی " اور دوسرا " کنگز "کہلاتا ہے ، اور اس طرح دونوں کے درمیان صحت مندمقابلہ بازی چلتی رہتی ہے۔ 
کیمبریج یونیورسٹی کو کنگ ہنری( سوم ) نے 1209 ء میں قائم کرنے کی اجازت دی ،یہ آج بھی یوکے کی دوسری اور دنیا کی چوتھی بڑی یونیورسٹیز میں سے ہے ۔ ،،، یہاں کے سائینس فیکلٹی سے نامور سائنس دان فارغ التحصیل ہوۓ ہیں ان میں آئزک نیوٹن اور جی ایچ ہارڈی شامل ہیں ،، ہارڈی نے خوبصورت تجزیہ کیا اور کہا تھا " طلبا کو نمبروں کی دوڑ میں نہیں ، بلکہ ، طالب علم کوصرف مضمون میں دلچسپی کی بنیاد پر اہمیت ملنی چاہیۓ"۔
اور آئزک نیوٹن کے خیا لات اور کارنامے تو سب پر عیاں ہیں،لیکن اس کا ایک فلسفیانہ خیال یاد آگیا ہے اس نے کہاتھا"مجھے نہیں معلوم دنیا میرے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ لیکن اپنے متعلق میرا گمان ہے کہ میَں ہمیشہ سے سمندر کنارے کھیلتا بچہ ہوں جو خوبصورت گول پتھر اور سیپیاں ڈھونڈنے میں اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہو ، جب کہ میری نظروں سے پَرے سچائی کا ایک برِ اعظم غیردریافت شدہ حالت میں موجود ہے "۔اور انہی قیمتی لوگوں میں علامہؒ بھی شامل ہیں جن کا دور تو بعد کا تھا لیکن ،، وہ معروف ، عظیم فلسفی شاعر ، جسے شاعرِمشرق اور نباضِ مشرق کے القابات ملے ،، جن کی انقلابی شاعری نے قومِ مشارق کی سوچ بدل دی ۔۔ اور جن کی پرُاثر ، دبنگ شخصیت کو زمانے کے مشاہیر نے عزت و احترام دیا ،، ہم خوش قسمت ہیں کہ ہماری قوم کو قائدِ اعظم محمدعلی جناح اور علامہؒ جیسے قابلِ فخر، قائد ملے ، یہ اللہ کا احسان عظیم ہے۔ 
اور اس دوران آس پاس کی مشہور بلڈنگز میں اندر داخل ہوتیں ، تصاویر لی جاتیں اور یوں ہم کیمبریج یونیورسٹی کے ہر چپے کو دلچسپی اور شوق سے دیکھتی رہیں ۔ انگریز بلا شبہ نہایت ، ہوشیار ، چالاک لیکن بہت ذہین قوم ہے ، اور اس کی ذہانت کا ایک اچھا پہلو تو یہ ہے کہ اپنی قوم کے لیۓ ایمانداری سے وفادار ہے ( بھلے دوسری قوموں کے ساتھ بےایمانی اور چالبازی کر کے وہ یہ فائدے اُٹھاۓ ہوں ) ۔ یہ یونیورسٹی مختلف لارڈز ، یا نوابوں ، اور رؤساء کی مدد سے بنتی چلی گئی ،،، اور جب ہم کیمبریج کے درمیان سے گزرنے والی ، نالے ٹائپ نہر میں چلنے والی کشتی میں بیٹھیں ، تو اس میں بیٹھنا ہی میرے لیۓ الجھن اور ڈر کا باعث بنا ،، کہ ایک مدت بعد اس انداز سے بیٹھی تو ، گھٹنے کے درد نے یاد دلایا ،، اب کچھ دن احتیاط سے چلنا پھرنا ۔ یہاں کشتیاں چلانے والے ملاح ، یونیورسٹی کے طلباء ہیں ، جو پارٹ ٹائم جاب کے طور پر یہ نوکری کرتے اور اپنے اخراجات خود اُٹھاتے ہیں ۔ ہمیں جو ملاح ملا اس نوجوان میں حسِ مزاح کچھ ذیادہ ہی تھی ۔ اس کشتی رانی کو یہ " پُنٹنگ " اور ملاح کو " پُنٹر " کہتے ہیں ۔ ہم جوں ہی کشتی میں بیٹھ گئیں ،، اس نے بھی ایک دفعہ کشتی کو زور سے جھٹکا دیا ، اور کہا " کبھی کبھی یہ الٹ بھی جاتی ہے " ،،،  اور اب کشتی میں" ایک حد تک" مکمل کیمبریج کا نقشہ پھر گیا ۔ 
( منیرہ قریشی ، 25 جون 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں