جمعہ، 29 جون، 2018

سفرِانگلستان (20)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِِ ولایت ، یوکے ( 20)۔
جیسے ہی یہ چند مسافروں بھری کشتی چلی ، پُنٹر نے اپنا نام اور عمر بھی بتائی ، اور یہ کہ وہ یہاں طالبِ علم بھی ہے ، اور یہ آخری سمسٹر رہ گیا ہے ، وغیرہ ،،، وہ یہ تعارف پیشہ وارانہ ڈیوٹی کے طور پر کروا رہا تھا ،یا ، مسافروں کو ذرا ، ریلیکس کرنے کے لیۓ ،،، جو بھی تھا ، اس کی حسِ مزاح ، بذاتِ خود اس کا اچھا تعارف تھا۔ 
یہ کشتیاں ، چپو یا لمبے بانسوں سے چلائی جاتی ہیں ،، اور اگر کسی سیاح کے پاس وقت کم ہے اور وہ پورے کیمبریج کا چکر نہیں لگا سکتا، تو اس کے لیۓ اس کشتی میں 40 ، 50 منٹ کی رائیڈ ہی کافی ہو گی ، کہ اس دریاۓ " کیم " کے گرد ساری اہم عمارات بتدریج آتی چلی جاتی ہیں ، اور جیسے جیسے آگے چلتے جائیں ،، تاریخ کی کتاب کے صفحے اُلٹتے چلے جاتے ہیں ۔ اور بندہ جس بھی قوم سے تعلق رکھتا ہے ، وہ ان عمارات کی تعمیر کے " سال " اور ان عما رات کا استعمال ، ، ، کا موازنہ اپنے ملک ، سے کرتا چلا جاتا ہے ، اور " اس محاورے کو ذہن میں لاتے رہیۓ ۔ " پڑھتا جا شرماتا جا " ،،،، یہاں کی ذیادہ تر سیر ، تصاویر سے کروا رہی ہوں کہ وہ بہت کچھ واضح کرتی چلی جاتی ہیں ،،، میَں نے شروع میں لکھا تھا کہ ذیادہ تر بہت پرانی ، 800 سال تک کی پرانی عمارات کو باہر سے لیپا پوتی کرنے کے بجاۓ ، ان کی اچھی دیکھ بھال کی جاتی ہے تاکہ وہ با مقصد استعمال میں رہیں ۔ اسی لیۓ ماحول پر " گرے رنگ " غالب نظر آیا ۔ البتہ نئی عمارات ، جو ، 100 ، یا 200 سال پرانی تھیں ، وہ کچھ خوش رنگ کہی جا سکتی تھیں ۔ لیکن جو تاریخ کا طالب علم ہے ،، یا ،، جو علم کی اہمیت سے آگاہ ہو گا ، اسے اس طرح کی تحقیقی درسگاہ کے چپے چپے سے دلچسپی ہو گی ، اور جس نے یہاں کچھ وقت بطورِ طالبِ علم گزارا ہو گا ، تو اس کے لیے تو اس کے عشق میں مبتلا ہونا قدرتی ہے ۔ 
دریاۓ کیم یا کھیم ،، دریا تو کہیں سے نہیں لگتا تھا ، ایک چوڑے ، سیاہی مائل ، نالے کی شکل میں تھا ، جس کی تہہ بہ مشکل دو تین گز تک ہو گی۔
دیکھا جاۓ تو کیمبریج یونیورسٹی کا قیام ، اس دور کی ، پولیس گردی کے نتیجے میں ری ایکشن کے طور پر ، کچھ اساتذہ اور طلباء کی ہمت کی مظہر ہے،،، راستے میں آنے والے " پُلوں " کے نیچے سے گزرتے ہوۓ ، پُنٹر ، اور گائیڈ نے ہمیں دلچسپ اور مزاحیہ انداز میں ، ان کی ہسٹری اے بھی آگاہی دی ،، یہ " میتھمیٹیکل پل " ہے ،، اس جیسا آج تک کوئ نہیں ، بنا پایا ، ،،، یہ " آہوں اور سسکیوں کا پُل " ہے ،،،جس دور میں ، دریا کے ایک طرف قید خانے اور پُل کے دوسری طرف عدالتوں کی عمارات ہوتیں تھیں ، تب فیصلے کے دن قیدی آہ و زاریوں کے ساتھ اس پُل سے گزرتے ،، کہ انھیں کوئی اندازہ نہ ہوتا تھا کہ ، آج ان کی زندگی کے خاتمے کا دن ہے ،یا ، آذادی،،، جب اس سارے علاقے کو علمی درسگا میں بدل دیا گیا ، تو ، تب بھی پل کے اس نام کو برقرار رکھا گیا ،،، کہ اب طلباء اپنے رزلٹ کے دن ، اسی طرح "روتے دھوتے " ( محاورتاً) سننے جاتے ہیں ، کہ " پاس یا فیل !!! ۔
کیمبریج کی سبھی عمارات ، نوابوں ، روساء اور بہت امیر زمینداروں کی رہائش گاہیں تھیں ، علم کے ذوق و شوق ، کی ابتدا کسی ایک نے کی اور پھر ،، اور پھر ہر رہائشی کے لیۓ ، اپنی عمارات کو اس اعلیٰ مقصد کے لیۓ وقف کرنا ، اعزاز بن گیا ۔ ،" پُنٹر "یا گائیڈ کی اپنے پیشے سے جڑی معلومات بہت خوب تھیں ۔ اور پھر " بیاں وہ اپنا غالب " والا حساب ، دلچسپ انداز تھا ،، واپس آکر ، ہم نے اس کا دلی شکریہ اور کچھ فالتو پونڈ بھی دیۓ ،، وہ خوشی سے نہال ہو گیا ۔ 
پنٹنگ سے فارغ ہو کر ،، کیمبریج کی مختلف سڑکوں ، کارنرز ، اور چھوٹے چھوٹے ریسٹونٹس کو دیکھنے بھالنے شروع کر دیۓ ، یہاں سڑک پر دنیا کی ہر قومیت ، اپنی کسی انفرادی خدو خال یا لباس سے نظر آرہی تھی ،، لیکن ذیادہ تر نے اپنے آپ کو اسی آسان ڈریس میں ملبوس کر رکھا تھا ، جینز اور شرٹ ،،، جبکہ ، سر سے پاؤں تک ، برقعے میں ملبوس نوجوان مسلم لڑکیاں بھی نظر آئیں ۔ اور یہ ان کے اعتماد کا مظہر بھی تھا ، اور یونیورسٹی کی آزاد پالیسی کا بھی !۔
اب ہماری بھوک ، کے زور کا وقت تھا ، صبح ناشتے کے بعد ، کارن فلورز ، یا ، گھر سے جوجی کے تیار کردہ ایک ایک سینڈوچ کے بعد اب شام کے 6 ، 7 بج چکے تھے ،، مائرہ نے جلد ہی حلال فوڈ کے لیۓ ، گوگل سے ایک لبنانی ریسٹورینٹ ڈھونڈا ،، اور جاتے ہی ہم نے تلی مرغی اور اسکے ساتھ سلاد ، چپس ، اور ایک ایک سینڈوچ کا آرڈر دیا ،، 20 منٹ میں یہ سب حا ضر ہو گیا ،، کہ یہ وقت طلبا کی موجودگی کا نہ تھا ،، رش نہیں تھا ، کھانا بہت مزیدار ، اور وافر تھا کہ ، پیٹ بھرا تو بےزاری کا جو غلبہ آنا شروع ہوا تھا ،، وہ ختم ہو گیا ،، ایسے مواقع اکثر پیش آتے ہیں ،، تب ان محاوروں کی ایجاد کا سبب بھی بالکل واٖضع ہو جاتا ہے ،،، پنجابی کا ایک مشہور محاورہ ہے " پیٹ نہ پئیآں روٹیاں ، تے سبھے گلاں کھوٹیاں " ،،،  
( پیٹ میں روٹی نہ ہو ، تو دین و دنیا کی ہر بات بےکار لگتی ہے )
اب شام تھی اور کیمبریج کی بتیاں جلنے لگیں ،، اور ہم نے اسے الوداع کہا ،، ابھی ہم نے مزید ایک گھنٹے کا سفر کرنا تھا ،، کیمبریج یونیورسٹی ،،، جسے دیکھنا ، ، محض خواب تھا لیکن ، اللہ مسبب الاسباب ہے ،،، مائرہ کی شادی ،، پر آنا ، ایمن ثمن کی چھٹیوں ،، مائرہ کی کار کی موجودگی ،،، اور سب سے بڑھ کر ، ان سب کے تعاون اور محبت نے میرے لیۓ اس سفر کو یادگار ہی نہیں ،، بہت خوبصورت یادوں کا مرکز بنا دیا ،، انھوں نے مجھے میری عمر ، اور میری ہمت کے مطابق بہترین ٹریٹ کیا ،، اور سارے سفرِ یو کے ، میں اس یونیورسٹی کا وزٹ تو خالص میری دلچسپی کے لیۓ کیا گیا ،، !! اور میری بہت سی دعائیں ان کے لیۓ ،،، کسی بھی مہمان کو اینٹر ٹینڈ کرنے کا گُر ان بچیوں سے سیکھنا چاہیۓ،،، ۔😍👩‍👧‍👧
💞 ( منیرہ قریشی 29 جون 2018ء واہ کینٹ )
 تصاویر۔۔۔ کیمبریج یونیورسٹی ، یو کے ! اکتوبر 2014ء ۔۔۔
کیمبریج میں طلباء کی رہائشی عمارات ۔۔۔
کیمبریج یونیورسٹی میں ایک لائبریری ،، جس کی پہلی منزل میں ایک مرتبہ پانی آ گیا ، اس وقت کے طلبا اور ٹیچرز نے لاکھوں کتب ، کو مل کر راتوں رات ، اوپری منزل پہنچایا ،، اور آج بھی یہ کتب وہاں موجود ہیں ، اس یونیورسٹی میں 100 سے زائد لائبریریز ۔ 
میتھمیٹیکل برج ،،، کیمبریج یونیورسٹی۔۔۔  

  کیمبریج یونیورسٹی ، میں موجود " آہوں کا پُل " جس میں سے بہت پہلے قیدی ، اور اب طلباء اپنے رزلٹ کے روز آہیں بھرتے گزرتے ہیں ،، اسے آج بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے ،، اور ہمارا خوش مزاج گائیڈ۔۔۔

کیمبریج یونیورسٹی کا ایک یادگار ، کارنر ،، اگر مجھے یہ آج بھی یاد آتا ہے تو ، جو طلباء یہاں سے پڑھ کر جاتے ہوں گے ، انھیں تو اپنی علمی درسگاہ سے کتنا پیار ہوتا ہو گا ۔۔۔۔ 
کیمبریج میں مختلف کالجز ہیں ، جن کو ملا کر یونیورسٹی بنتی ہے ، ان کو دو حصوں میں الگ کیا گیا ہے ، اس طرح ان میں آپس کے مختلف صحت مند مقابلے ممکن ہوتے ہیں ، ایک کو ٹرینٹی اور دوسرے کو کنگز کالج کہا جاتا ہے ! یہ کنگز کالج ہے ! یہاں 100 کے قریب مضامین کو متعارف کرایا دیاگیا ہے ۔ 
کیمبریج یونیورسٹی  کاایک کالج، دریائے کیم کنارے۔۔۔ 
کیمبریج شائر ،، کا ایک کالج ، ۔ 
پنٹنگ سے پہلے ایک طائرانہ نظر !کیمبریج شائر۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں