" اِک پَرِ خیال "
" جائزہ تو لیں " ( عالمی وباء کرونا کے تناظر میں )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
٭بندہ کئی دفعہ مسائل سے گھبرا کر تنہائی کا شکار ہو کر ، خوب روتا ہے ، اور اس کے منہ سے یہ جملے بےاختیار نکلتے ہیں ' میرے مولا ، میَں تنہا ہوں ، میرا کوئی نہیں جو میرے دکھ کو سمجھے " ،،، اُس کی فریادیں سُن کر خالقِ حقیقی مسکراتا ہے ، تُو غور کر میرے بندے میَں تو تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں ، تُو جو سوچتا ہے میَں اس سے پہلے ہی جان جاتا ہوں، تُجھے خود ہی پریشان ہونے کا شوق ہے، تو میَں کیسے تیرے دل کو اطمینان دوں ،،میَں تو ہر لمحہ تیرے ساتھ ہوں ،لیکن میَں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا " میَں آزماؤں گا ، مال سے ، اولاد سے، نفس سے " !!۔
٭ ،،مجھے اپنے بچوں سے عشق ہے ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ میری محبوبہ اگر مجھے نہ ملی تو میں مَر جاؤں گا ، خود کُشی کر لوں گا۔ اپنے والدین سے میری محبت دنیا کی تمام محبتوں پر حاوی ہے ،،،،،،لیکن یہ کیسی وباء ، اور ہوا چلی کہ ہر محبت کو تین فٹ دور کر دیا ، ذرا سا بھی دوسرے کی چھینک ، یا کھانسی ہمارے فیلرز ( محسوسات) کو عام دنوں سے دُگنا کر چکی ہے ،،، کہیں ایسا نہ ہو جاۓ ،کہیں ویسا نہ ہو جاۓ،،، حالانکہ ہم پر واضع کیا جا چکا ہے " روزِ محشر نہ اولاد والدین کو دیکھے گی ، نہ والدین اولاد کو،کہیں مجھ سے نیکی کی مدد نہ مانگ بیٹھیں " !!۔
٭ اس زندگی کی حددرجہ چہل پہل کے دوران ، وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں " اکثر" جا کراُن کی غمی خوشی میں شریک ہوں ،، لیکن قدرت نے بتا دیا ، میَں تمہیں اسی چہل پہل سے بےنیاز کر دوں گا ۔ پھر تمہیں بھُولے رشتے یاد آ ئیں گے ،، لیکن اب ملنا ممکن نہیں ، اس لیے ابھی یہاں کی شرمندگی کا ازالہ کر لو !!۔
٭ یو کے ،، اور یو ایس تو جنت ہے ،، سیر کے لیۓ بھی ، اور جب بیمار ہو تو علاج کے لیۓ بھی ،،، واہ !وہاں کے علاج کا کیا کہنا ،،، ان ممالک کا ویزہ لگنے پر " الحمدُ للہ" کہا جاتا ہے ۔ لیکن اب ،، ایک اَن دیکھے جر ثومے نے یو کے اور یوایس کی حیثیت کھوٹے سِکے جیسی کر کے رکھ دی ہے ۔ یہ تیسری دنیا جیسی بھی ہے ، ٹھیک ہے ! قدر و منزلت کے معیار کیسے بدل گئے۔
٭ مدتوں بعد گنجان آباد شہروں کے باسیوں نے "خاموش کرونے کے ذریعے خاموشی کی آواز سنی ،، !!۔
٭ جدید ٹیکنالوجی کو کم فہم لوگوں نے صرف اپنی ذات کا غلام بنا لیا تھا ،،، موبائل ہے تو گھنٹوں ، گوسپ چل رہی ہے ، میری ساس ، میری بہو ، میری دیورانی ، میرا شوہر ، میرا نمک حرام نوکر،، کون سے رشتے نہ تھے جو زبان کی غلاظتوں سے آلودہ نہ کیۓ جاتے ہوں ،،، کوئی ڈر نہیں کوئی خوف نہیں کہ کاتبین کو لکھنے کے لیے کیا کیا مواد دیا جا رہا ہے ، آہ اور واہ کے پروگرام کی حدیں نہ رہیں تھیں ۔ ننّھے سے جر ثومے نے ایسی لمبی چھٹیاں کروا دیں کہ " بوریت " جا ہی نہیں پا رہی ۔ جنھوں نے سبق نہیں لینا ، وہ اس دورِ فتن میں بھی آلودہ ہیں ، حالانکہ صرف ہاتھ ہی نہیں دھونے لازم ،،، بلکہ اخلاق بھی دھونے کا موقع مل گیا ہے ، !!۔
٭ یہ وباء انسانی سازش کا نتیجہ ہے ، یا نہیں !! اللہ اپنے بندوں کو جھنجھوڑنے کے لیۓ ، کبھی بخت نصر کو بھیجتا ہے، کبھی چنگیز خان کو ،، بھی تیمور لنگ کی صورت میں انسان کی عقل کو گُھما کر رکھ دیتا ہے ۔اور انسان ؟؟؟؟ " بےشک انسان بڑا جلدباز ، جھگڑالو ، اورمتکبر ہے ،، وہ اگرسوچے تو وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں ناک و ناک ڈوبا ہوا ہے ۔ اور یہ ہی غفلت شیطان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے !!۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2020ء واہ کینٹ)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
٭بندہ کئی دفعہ مسائل سے گھبرا کر تنہائی کا شکار ہو کر ، خوب روتا ہے ، اور اس کے منہ سے یہ جملے بےاختیار نکلتے ہیں ' میرے مولا ، میَں تنہا ہوں ، میرا کوئی نہیں جو میرے دکھ کو سمجھے " ،،، اُس کی فریادیں سُن کر خالقِ حقیقی مسکراتا ہے ، تُو غور کر میرے بندے میَں تو تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں ، تُو جو سوچتا ہے میَں اس سے پہلے ہی جان جاتا ہوں، تُجھے خود ہی پریشان ہونے کا شوق ہے، تو میَں کیسے تیرے دل کو اطمینان دوں ،،میَں تو ہر لمحہ تیرے ساتھ ہوں ،لیکن میَں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا " میَں آزماؤں گا ، مال سے ، اولاد سے، نفس سے " !!۔
٭ ،،مجھے اپنے بچوں سے عشق ہے ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ میری محبوبہ اگر مجھے نہ ملی تو میں مَر جاؤں گا ، خود کُشی کر لوں گا۔ اپنے والدین سے میری محبت دنیا کی تمام محبتوں پر حاوی ہے ،،،،،،لیکن یہ کیسی وباء ، اور ہوا چلی کہ ہر محبت کو تین فٹ دور کر دیا ، ذرا سا بھی دوسرے کی چھینک ، یا کھانسی ہمارے فیلرز ( محسوسات) کو عام دنوں سے دُگنا کر چکی ہے ،،، کہیں ایسا نہ ہو جاۓ ،کہیں ویسا نہ ہو جاۓ،،، حالانکہ ہم پر واضع کیا جا چکا ہے " روزِ محشر نہ اولاد والدین کو دیکھے گی ، نہ والدین اولاد کو،کہیں مجھ سے نیکی کی مدد نہ مانگ بیٹھیں " !!۔
٭ اس زندگی کی حددرجہ چہل پہل کے دوران ، وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں " اکثر" جا کراُن کی غمی خوشی میں شریک ہوں ،، لیکن قدرت نے بتا دیا ، میَں تمہیں اسی چہل پہل سے بےنیاز کر دوں گا ۔ پھر تمہیں بھُولے رشتے یاد آ ئیں گے ،، لیکن اب ملنا ممکن نہیں ، اس لیے ابھی یہاں کی شرمندگی کا ازالہ کر لو !!۔
٭ یو کے ،، اور یو ایس تو جنت ہے ،، سیر کے لیۓ بھی ، اور جب بیمار ہو تو علاج کے لیۓ بھی ،،، واہ !وہاں کے علاج کا کیا کہنا ،،، ان ممالک کا ویزہ لگنے پر " الحمدُ للہ" کہا جاتا ہے ۔ لیکن اب ،، ایک اَن دیکھے جر ثومے نے یو کے اور یوایس کی حیثیت کھوٹے سِکے جیسی کر کے رکھ دی ہے ۔ یہ تیسری دنیا جیسی بھی ہے ، ٹھیک ہے ! قدر و منزلت کے معیار کیسے بدل گئے۔
٭ مدتوں بعد گنجان آباد شہروں کے باسیوں نے "خاموش کرونے کے ذریعے خاموشی کی آواز سنی ،، !!۔
٭ جدید ٹیکنالوجی کو کم فہم لوگوں نے صرف اپنی ذات کا غلام بنا لیا تھا ،،، موبائل ہے تو گھنٹوں ، گوسپ چل رہی ہے ، میری ساس ، میری بہو ، میری دیورانی ، میرا شوہر ، میرا نمک حرام نوکر،، کون سے رشتے نہ تھے جو زبان کی غلاظتوں سے آلودہ نہ کیۓ جاتے ہوں ،،، کوئی ڈر نہیں کوئی خوف نہیں کہ کاتبین کو لکھنے کے لیے کیا کیا مواد دیا جا رہا ہے ، آہ اور واہ کے پروگرام کی حدیں نہ رہیں تھیں ۔ ننّھے سے جر ثومے نے ایسی لمبی چھٹیاں کروا دیں کہ " بوریت " جا ہی نہیں پا رہی ۔ جنھوں نے سبق نہیں لینا ، وہ اس دورِ فتن میں بھی آلودہ ہیں ، حالانکہ صرف ہاتھ ہی نہیں دھونے لازم ،،، بلکہ اخلاق بھی دھونے کا موقع مل گیا ہے ، !!۔
٭ یہ وباء انسانی سازش کا نتیجہ ہے ، یا نہیں !! اللہ اپنے بندوں کو جھنجھوڑنے کے لیۓ ، کبھی بخت نصر کو بھیجتا ہے، کبھی چنگیز خان کو ،، بھی تیمور لنگ کی صورت میں انسان کی عقل کو گُھما کر رکھ دیتا ہے ۔اور انسان ؟؟؟؟ " بےشک انسان بڑا جلدباز ، جھگڑالو ، اورمتکبر ہے ،، وہ اگرسوچے تو وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں ناک و ناک ڈوبا ہوا ہے ۔ اور یہ ہی غفلت شیطان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے !!۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2020ء واہ کینٹ)