بدھ، 11 مارچ، 2020

" اِک پَرِ خیال"(37)۔

" اِک پَرِ خیال"
" سُر کہاں کہاں، سُر توہر جا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی یہ سوچ آئی کہ جن لفظوں میں جن جملوں میں سُر ہوتا ہے وہی ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں ۔ ان کے ردھم سے وہ الفاظ یا جملے ، زبان   پر یوں رواں ہو جاتے ہیں ، جیسے یہ الفاظ ، یہ جملے نہ تو اجنبی ہیں ، نہ ہی مشکل !! 1500 سال سے قرآن کو  حرف حرف یاد کرنے والے حفاظ اَن گنت ہیں ، اس میں نہ مخصوص خطے کی بات ہے ، نہ مخصوص بولی بولنے والوں کی اور نہ ہی چُنیدہ نفوس کی !! دنیا کے ہر گوشے میں اس سچی الہامی کتاب کے سُر اور اس کے اِسرار سے سرشار دل جھوم رہے  ہیں ۔ اس کے مقابلے میں کسی اور الہامی کتاب کے حفاظ انگلیوں پر گنے جا تے ہیں ۔بہ عینہ اچھی شاعری کے دیوان کا دیوان یوں یاد ہو جاتا ہے کہ جیسے اس کا سُر ، یاد کرنے والے کے خون میں انجیکٹ کر دیا گیا ہو ۔
یہ سُر یہ ردھم ، کائنات کے ذرے ذرے میں چھُپا ہواہے ۔ کائنات کا  ایک خاص  زاویے سے جھکاؤ کے ساتھ چکر میں رہنا ،ایک خاص سُر کی عکاسی ہی تو ہے،، آہ ، یوں لگتا ہے ، جیسے،،،" کائنات " ایک دور اُفتادہ وادی کے پہاڑوں کے پیچھے سے نمودار ہوتی ندی کی طرح ہے ، جو ابتداء میں مدھم سُر الاپتی ، اِٹھلاتی ، بَل کھاتی چلی آ رہی ہے ، جوں ہی وسیع میدان ملا ، خود بھی وسیع کینوس   کوسمیٹ لیا ، یہ وسعت سرشاری کی کیفیت لیۓ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی چلی جارہی ہے ،، ابھی سُر کچھ بلند اور کچھ پست ہوتے نشیب کو پاٹتے جا رہے   ہیں ، اور ردھم میں روانی ہی روانی آ چکی ہو ،،، اور پھر یکدم یہ نشیب بہت " اونچے سُر" کو بلند کرتا آبشار کی صورت جب گِرا ،، تو اُونچے سُروں کی ہیبت اور ندرت نے کائنات کے باقی موجودات کو مبہوت کر کے رکھ دیا ۔ اور اگلے لمحے کائنات کچھ دیر بلند ،، لیکن پھر یہاں ایک " اَن سنا گیت" گنگناتی چلی جارہی ہے ،، وہ ایسے میں اس پُرسکون سرشاری کی کیفیت میں محو ہے کہ جیسے " خالق کے حکم " کی تابعداری کے سُر نے اسے بےحال و دیوانہ بنا دیا ہو ،، سُریلے ردھم ،،کا وہ دریا چڑھا ہوا ہے کہ جیسے " دیوانہ بنایا ہے مجھے تو دیوانہ بنا دے " اور یہی دیوانگی دریا کی صورت خیر بانٹتی ،،، اسے سمندر کے شوریدہ آہنگ سے جا ملاتی ہو !! اور یوں اس سمے سمندر اسے سُر کی نئی سمفنی سکھا دیتا ہے ،، وہ سُر جو " مَن و تُو" کے فرق کو مٹا دیتا ہو ،،، خالق نے کائنات میں سُر کے اِسرار کو کس کس طور سے عیاں نہیں کیا ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات صرف سات سُروں کی رہینِ منت ہو ،، یہاں تو رنگوں ، موسموں، نقوش ، خِطوں اور رویوں کے سُر چوبیس گھنٹے بدلتے چلے جا رہۓ ہیں ۔ یوں ،،، جیسے قطرے ٹپ ٹَپ ٹپا ٹَپ کی صورت میں سُر پھیلا رہے ہوں ۔ بس ،،،، یہ سُر اسی لمحے بند ہوں گے جب " صورِ اسرافیل" کا سُر تمام تر ہیبت سے وقت پر حاوی ہو جاۓ گا ، تب " کائنات اپنے سبھی سُروں سمیت " اپنے خالق کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہوگی !! اور ہر جی دار کو اس کے حصے کے سُر پکڑا دیۓ جائیں گے ، چاہے کوئی چاہے ، یا نہ چاہے !!۔
( منیرہ قریشی ، 11 مارچ 2020ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں