پیر، 18 مئی، 2020

" اِک پرِ خیال(42) "

" اِک پرِ خیال "
' تاریخ ہی تاریخ ' ( حصہ اوّل )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم جب بھی کسی تاریخی کتاب کو پڑھتے ہیں ،، اور جدید دور میں بنائی تاریخی واقعات پر مبنی فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،، تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے اپنے تصور کی آنکھ سے بھی جانچتے چلے جاتے ہیں ۔
ایک تاریخی کتاب پڑھنے والے کو اُس وقت یہ کتاب محویت کے عالم میں لے جاتی ہے کہ ،،، قاری خود کو اُسی دور کے گلی کوچوں میں پھرتا ، اسی دور کے لوگوں کے قریب سے گزرتا محسوس کرنے لگتا ہے ،،، ایک اچھے مؤرخ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات اور مکالمے اس انداز سے لکھے کہ کرداروں کے ہونٹ ہلتے ، اُن کےکپڑوں کی سرسراہٹ ،، اُن کے گرد گزرتے گھوڑے یا گھر کے صحن میں کھنکتے برتنوں یا قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگتی ہیں ،،،،،یہ اچھے مؤرخ کے الفاظ اور تصورات کا وہ جادو ہوتا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔ ہر وہ تاریخی کتاب جسے مصنف مکمل ریسرچ اور روحانی درجے کے ساتھ لکھے ضرور اس کی زبان ، ماحول معاشرت ، یا سچائی کی بنا پر تا دیر زندہ رہتی ہے ،،، بلکہ اُس اہم تاریخی واقع اور اسکے اہم کرداروں کو زندہ رکھتی ہے ۔
اور جب سے فلم کا دور آیا ،، کچھ باہمت پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز نے تاریخ جیسے مشکل موضوعات پر ہاتھ ڈالا ،،، اور پھر شدید محنت سے ایسے شاہ کار دنیا کو دکھا ڈالے کہ شاید جب وہ خود بھی اُس فلم کو دیکھتے ہوں گے تو سوچتے ہوں گے ،،، کیا واقعی یہ میں نے تاریخ کو " ریورس " نہیں کر دیا !!! اَن مٹ نقوش چھوڑ جانے والی یہ تاریخی فلمیں احساسات کو نئی دنیا میں لے جاتی ہیں !! حتیٰ کہ اِن تاریخی فلموں میں کردار ادا کرنے والے فنکار ،، اپنی عام زندگی میں اُسی کردار کی وہ چلتی پھرتی تصویر اور پہچان بن جاتے ہیں کہ دیر تک وہ خود بھی اُس کردار سے نہیں نکل پاتے ! شاید یہ اُس تاریخی شخصیت کے مضبوط ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
ہم کتاب پڑھتے یا تاریخی فلم دیکھتے خود کو بھی اُنہی حویلیوں ، قلعوں ،،، یا خیموں میں موجود پاتے ہیں ،،،، کبھی کسی قلعے کی راہداریوں میں سازشیں کرتے کردار ،، کبھی حویلیوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب ،، اور کبھی پُر امن رہتے لوگوں کے جلاۓ جانے والے خیموں کو دیکھتے ہوۓ ، کہنا چاہتے ہیں ،،،،، چند لمحوں بعد یہ قیامت  آیا  چاہتی ہے ،، یہ سازشیں نہ کرو ،،، اس کا انجام بُرا ہی بُرا ہے ،،، یہ بےانصافیاں نہ کرو ! کہ صرف چند سال ، یا چند سو سال بعد لکھی گئی تاریخ میں تم نفرین زدہ کردار بنو گے،،،، مت ایسا قدم اُٹھاؤ کہ عارضی دولت ، شہرت کی خاطر لمحوں کی غلطیاں اور انا کے تکبر سے پوری قوم صدیوں عذاب جھیلے گی،، اس کچھ دیر کی دنیا کے بدلے ہمیشگی کی زندگی کا سودا نہ کرو !! اور پچھتاوے کا طوق گلے میں مت 

ڈالو ،، کہ یہ دنیا تو کسی کی نہیں ہوئی ، چاہے وہ تاریخ کا ہیرو تھا یا ولن !!۔
پسِِ تحریر۔۔۔
تاریخی کتب پڑھنا یا ڈرامے یا فلمیں دیکھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ، ان دنوں ڈرامہ " ارتغل غازی " دیکھا ،،، تو سوچ یہاں اَٹکی کہ آج بھی ہیروز کا جہان اور اس کے ارادے فرق اور آس پاس کے ولن تمام تر چالوں کے باوجود ناکام و نامراد ،،، لیکن تاریخ انھیں کن الفاظ سے یاد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی " ! طاقتور کی سوچ بدلنا بےحد ضروری ہے"۔
جس محنت سے ترکیہ کے عظیم ہیرو ارتغل سے متعلق مصنف نے لکھا ، ڈائریکٹرز نے اور اداکاروں نے فلمایا ،،،، جہاں جہاں اسے دیکھا گیا ، لوگوں کی کثیر تعداد کو  تاریخ سے دلچسپی ہوئی ہے ، اور یہ ایک محبِ وطن کی اپنے ملک کے ہیروز کو خراجِ تحسین کا بہترین طریقہ ہے۔
( منیرہ قریشی 18 مئی 2020ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں