منگل، 19 مئی، 2020

" اِک پر خیال(43)"

" اِک پر خیال"
تاریخ ہی تاریخ (حصہ دوم)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مؤرخینِ تاریخ ، چاہے کسی بھی خطے سے متعلق ہوں ،، ذیادہ تر اُن میں وہ ہیں ،جنھوں نے لکھتے وقت انصاف سے کام لینے کی کوشش کی ہوتی ہے ،، ظاہر ہے تھوڑا بہت تعصب اگر آ بھی جاۓ ،،، تو یہ انسانی فطرت ہے ۔ کہیں عقیدہ ، کہیں معاشرتی لیول ، کہیں قبیلہ یا کہیں میلانِ طبیعت آڑے آ ہی جاتا ہے،،، لیکن مؤرخ ہمیں گزرے وقت میں چلائی جانے والی سازشوں ، خودغرضیوں ، ہیروز کی ان تھک محنتوں ، محبتوں ، اور اُن کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالنے والوں شطرنج کی بساط بچھاۓ مہرے چلانے والوں کی کمینگیوں کو بےنقاب کرتا چلا جاتا ہے ،، اور اسی دوران عام عوام پر اِن چالوں سے ہونے والے اثرات کو ساتھ ساتھ واضح کرتا چلا جاتا ہے ۔ مؤرخِ تاریخ کا شکریہ ،،، جوہمارے لیۓ ایسے صحیفے چھوڑ جاتا ہے جو دراصل " ہمارا اپنا نوشتہ ہوتا ہے "۔
ہم جو آج زمانۂ حال میں ہیں ،،، ہم جو آج تاریخی کُتب پڑھ رہے ہیں ،، ہم جو آج کل، ماضی کے ہیروز اور غداروں سے متعلق جان رہے ہیں،،،، اس سب کا کیا فائدہ ؟ زمانۂ حال ہے لیکن کردار وہی ہیں ،، وہی انا کا مسئلہ ،، وہی لالچ  وخودغرضی کی ہوس،،وہی عارضی زندگی کے لیۓ عیاشیاں، اپنی اگلی نسلوں کا محفوظ مستقبلکرنے کے جوڑ توڑ، وہی مخلص اور اہل شخصیات کی راہ میں رکاوٹیں ،،،،، آہ ،،، یہ سب کچھ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ،، یا اِن پر بنے ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،،، اور اگر ہم اشرافیہ میں سے ہیں ،، یا اُمراء کے طبقے میں سے ہیں ،، یا انقلابی سوچ رکھنے والے ہیں تو آج ،،،، اور ،، ابھی ہم انہی تاریخ کے صفحات میں سے اپنا کردار چُن کر اس پر ' ٹک مارک ' لگا سکتے ہیں ! کیوں کہ ابھی ہم نے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹنا ہے اور آگے بھی ہم موجود ہیں ،، لیکن یہ سوچ لیں ، تاریخ ہمیں ایک چھُپی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ، یہ ہی وقت ہے کہ ہم چُن لیں کہ ہمیں کس کردار کے لیۓ یاد رکھا جاۓ گا ۔ غدار یا جانباز !! یہ ہی وقت ہے کہ ہماری نسلوں کو شرمندگی نہ ہو ، ۔ ایسا نہ ہو کہ عدالت کے باہر مِیرصادق اور میرجعفر کی اولادیں جب پہلی نسل کے بعد ہی جائیدادوں کے جھگڑے لیۓ پہنچیں تو عدالتی اہلکار جج کے سامنے حاضر ہونے کے لیۓ آواز لگاتا " میر صادق غدار کی اولاد حاضر ہو """۔
" گویا تاریخ ہی اپنی تاریخ پڑھ رہی ہے ، لیکن عبرت کے بغیر "
" اللہُ اکبر ، اللہُ اکبر "
پسِِ تحریر۔۔۔
تاریخی کتب پڑھنا یا ڈرامے یا فلمیں دیکھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ، ان دنوں ڈرامہ " ارتغل غازی " دیکھا ،،، تو سوچ یہاں اَٹکی کہ آج بھی ہیروز کا جہان اور اس کے ارادے فرق اور آس پاس کے ولن تمام تر چالوں کے باوجود ناکام و نامراد ،،، لیکن تاریخ انھیں کن الفاظ سے یاد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی " ! طاقتور کی سوچ بدلنا بےحد ضروری ہے"۔
جس محنت سے ترکیہ کے عظیم ہیرو ارتغل سے متعلق مصنف نے لکھا ، ڈائریکٹرز نے اور اداکاروں نے فلمایا ،،،، جہاں جہاں اسے دیکھا گیا ، لوگوں کی کثیر تعداد کو  تاریخ سے دلچسپی ہوئی ہے ، اور یہ ایک محبِ وطن کی اپنے ملک کے ہیروز کو خراجِ تحسین کا بہترین طریقہ ہے۔
( منیرہ قریشی 19 مئی 2020ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں