ہفتہ، 28 مئی، 2022

'' اک پرِخیال'' ' طبقاتِ ارض و سما'

'' اک پرِ خیال''
' طبقاتِ ارض و سما'
طبقات کا نام سنا بھی ہوا ہے اور پڑھا بھی ہے ، انسانی معاشرے کے طبقات ،، زمین کے پرتوں کے طبقات ،،، اور پھر روحانی درجات کے لیے بھی ،،، طبقات کا لفظ استعمال ہوتا دیکھا،،، جن میں سے گزر کر پاکیزہ فطرت لوگوں کو درجات کی بتدریج بلندی ملتی چلی جاتی ہے ۔ انھیں طبقاتِ سماویٰ بھی کہا جاتا ہے ۔
فضائی سفر کے بارے یہی علم تھا کہ '' جہاز ہے اور فضائی سفر ہے'' ۔ لیکن جب اس سفر کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ یہاں بھی طبقات و درجات ہیں ،،اور ان کے الگ الگ اخراجات اور اسی کے مطابق مراعات بھی ہیں ۔ البتہ یہ نہیں واضح کیا گیا کہ ،،، حادثے کی صورت میں بچنے یا ،، بچاۓ جانے کی ترجیح بھی ہے ؟؟اور ہوائی سفر کے دوران ہی علم ہوا کہ ایک تو اکانومی کلاس ہوئی ،، دوسری بزنس کلاس ،،، لیکن ایک درجہء اولیٰ کی کلاس بھی ہوتی ہے ،،، جس کی مراعات عام عوام سوچ بھی نہیں سکتی ، سوچنا بھی نہیں چاہیے ،،کہ اس کا کیا فائدہ۔۔۔،میں تو صرف یہ سوچ رہی تھی ،محض چند گھنٹوں کے دوران بھی انسانی '' انا اور معاشرتی درجہ بندی '' اسے اِس تختِ تفاخر سے اترنے نہیں دیتی ۔ حالاں کہ اس ہوائی سفر میں حادثے کی صورت میں اکانومی ، بزنس ، اور اشرافیہ کلاسسز والے سب ایک ہی تھپیڑے میں ناپید ہو جانے ہیں ، بندہ رہتا ہے نہ بندے کی پہچان ،، بس راکھ ہی اُڑ رہی ہوتی ہے ،،، لیکن آہ ،،، انسان اور اس کی انا پرستی ،،، ہاۓ انسان کی 'میں کا سراب '۔
لیکن ہم سب کچھ سمجھتےہوۓ بھی سمجھنا نہیں چاہتے ۔

( منیرہ قریشی ، 28 مئی 2022ء مانچسٹر ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں