جمعرات، 31 مئی، 2018

سفرِانگلستان(18)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِِ ولایت یو کے " ( 18)۔"
اور اکتوبر کا پہلا ہفتہ بھی گزر گیا ، اب ہم نے ایمن ثمن کے ساتھ لندن روانہ ہونا تھا ،، ایک تو ان کی یونیورسٹیز کھلنے والی تھیں ، دوسرے ہم نے لندن کی سیر تو کرنا ہی تھی ،، اور تیسرے 2 نومبر 2014ء کی رات کا واپسی ٹکٹ مانچسٹر ہی سے تھا ،، لندن سیر کے بعد ہمیں دوبارہ بےکپ آنا تھا ،، اس لیۓ انہی تین ہفتوں میں مزید سیر ہو سکتی تھی ۔
اب یہ ڈیوٹی پھر مائرہ کے سپرد ہوئی، اسے اپنی پجارو لانا پڑی ، کیوں کہ ہم چار لوگوں کے بیگز ، اور ایمن ثمن کے لیۓ جوجی پاکستان سے فولڈنگ فوم کے گدے لے کر آئی تھی ، تاکہ لندن ، ان کے پاس جب فالتو مہمان آئیں تو وہ ان میٹریسسز کو بہ آسانی چھوٹی جگہ پر رکھ بھی سکتی ہیں ، وہ آرڈر پر بنواۓ گئےتھے ،اور بہت رول ہو کر ایک "گاؤ تکیۓ " جتنے ہو جاتے تھے ، انھیں بھی لندن اسی گاڑی میں لے کر جانا تھا ۔ کچھ مزید گھریلو اشیاء بھی تھیں ،، جن کے رکھنے کے بعد ہم نےخود کو ان سیٹس پر فکس کیا اور ، مانچسٹر سے لندن کا چار ساڑھے چار گھنٹے کا سفر، صبح 10 بجے سفر کی دعا پڑھتے ہوۓ شروع کیا ، ماشا اللہ مائرہ چار پانچ سالوں سے اپنی کار تو چلا ہی رہی تھی لیکن اب میاں کی پجارو پر بھی ہاتھ صاف تھا ، اس کی سموتھ ڈرائیونگ سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ ، ہم ہائی وے پر آۓ ، اس شاہراہ کا مقابلہ ، ہماری موٹروے سے کیا جا سکتا ہے ! اور جوں ہی 12 بجے ، ہمیں چاۓ کی یاد نے ستایا ۔ اور مائرہ نے گاڑی راستے کے ایک معروف چین کے ریستورنٹ میں جا کھڑی کی ،، فریش ہو کر انکے لان میں میں لگے میز کرسیوں پر جا بیٹھیں ،، چاۓ کے ساتھ کچھ سینڈوچ اور بچیوں نے اپنے لیۓ نوڈلز ،یا پاستہ اور بعد میں آئسکریم لی ، ہمیں یہاں بھی بیٹھنے کا مزا اس لیۓ آیا کہ یہ ایک اور دنیا تھی جہاں ، چند منٹوں کے بعد منظر مسلسل بدلتا جا رہا تھا ۔ کبھی کوئی کار کبھی کوئی بس رنگا رنگ مسافروں سے بھری آتی ، اور ایک ایسے ہی ملٹی نیشنل خدو خال والے لوگوں سے بھری بس ، روانہ ہو رہی ہوتی۔ ہم دونوں جب بھی لوگوں کو دلچسپی سے دیکھتیں ،،، تو مائرہ سے ذیادہ ایمن ثمن ،کانشس ہو کر کہتیں ،، " اماں ، خالہ ، انھیں اتنا غور سے نہ دیکھیں ، یہ اچھانہیں سمجھتے " ،،، لیکن ہم اپنی مرضی کرتیں ،، اس لیۓ نہیں کی لوگ کبھی نہیں دیکھے یا غیر ملکی لوگ نہیں دیکھے ،، ہم تو نیرنگئ قدرت کا مشاہدہ کرنے لگتیں،، ورنہ لوگوں کی جتنی اقسام ،، حج کے موقع پر نظر آتیں ہیں ،، اس کا کہیں بھی مقابلہ نہیں ۔ اور ہمیں وہاں بھی انھیں اگر بہت غورسے دیکھنے کا موقع نہیں بھی ملا ، تب بھی ہمیں بہت تجربات حاصل ہوۓ ،، یہ میں نے اپنے سفرِ حج میں ذکر کیا ہے کہ " اکثر سننے میں آتا رہا کہ نیگرو ، بہت اکھڑ اور دھکے دے کر آگے بڑھ جانے والے ہوتے ہیں ، ان سے بچ کر رہنا وغیرہ ،، جب کہ ہمیں دونوں شہروں میں جب کہیں نیگرو نظر آۓ ، یا ان سے کوئ رابطہ ہوا ،نہایت مہذب ، اور نرمی سے بولنے والے تھے "،، گویا واسطہ کس کا کس قوم سے کس انداز سے پڑتا ہے یہ ، زندگی کے تجربات ہوتے ہیں ، تب ہم کسی قوم کا بہ نظرِ غائر ، تصور بنا سکتے ہیں ، ، اور بنا لیتے ہیں ۔ 
لندن تک کا ساراراستہ ، کچھ سوتے ، جاگتے ، اور باتیں کرتے گزرا ،، لندن کے اندر کس جانب سے داخل ہوۓ ، یہ تو یاد نہیں لیکن ہم اس مشہور پُل سے گزرے جس کو دیکھنے کی چاہت تھی یعنی " ٹاور بریج ، لندن " دن کے تین بجے تھے ، روشن دن میں اسے دیکھنا اچھا لگا کہ ٹاورز کا اپنا ہی وکٹورین ، سٹائل تھا یا رومن ،، لیکن دبدبہ خاصا تھا ،، اور سب سے بڑی بات کہ کہیں 1886 تا 1894 میں تعمیر کیۓ گۓ ٹاورز ، یوں نۓ لگ رہے تھے جیسے ذیادہ سے ذیادہ 50 سال پہلے تعمیر ہوۓ ہوں ،، یہ بریج ، لندن کی پہچان ہے ، کیوں کہ انجیئنرنگ کے کمال میں یہ دریاۓ ٹیمز سے گزرنے والے اونچے بحری جہاز کے لیۓ بریج اس وقت دو حصے میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ، اور دو حصوں میں اُٹھی سڑک کا نظارہ بھی کیا کمال ہوتا ہو گا۔ہم اس نظارے کو البتہ نہ دیکھ سکیں۔ 
ایمن ثمن کو ، مائرہ نے بہت محفوظ جگہ پر ایک فلیٹ لے کر شفٹ کیا تھا ۔ اسی لیۓ جوجی ہر معاملہ مائرہ پر چھوڑا ہوا تھا ، کہ وہ بہت سے عواقب کو سوچ کر ایمن ثمن کے لیۓ قدم اُٹھاتی تھی ۔، اور اب وہ یہاں دو سال سے رہ رہی تھیں ، یہ علاقہ ، " کنیری وارف" کہلاتا ہے ،،اس فلیٹ کے ایریا میں میں مزید اسی طرح کے تین بلڈنگز تھیں ، جو تین تین منزلہ فلیٹس تھیں۔ انہی میں صرف تین منزلہ فلیٹس میں سے درمیان والا فلیٹ ان کا تھا ،، یہ سٹوڈنٹس کے لیۓ ، خاص طور پر لڑکیوں کے لیۓ بڑی ، محفوظ جگہ تھی ،، اس کے گیٹ سے کمپیوٹر سسٹم کے تحت پاس ٹچ کر کے ہی اندر داخل ہوا جا سکتا ہے ۔ اور باقی سیکیورٹی کے انتظام بھی اچھے تھے ،کار پارکنگ کی بھی مناسب جگہ بنائی گئی تھی ، ایمن ثمن کے فلیٹ کی مالکہ ، بزرگ برٹش خاتون تھی ،، جس سے ان کی ملاقات خال ہی ہوئی تھی ۔ کار سے سارا سامان لڑکیوں نے ہی نکالا ، میں اور جوجی اپنے پرس سنبھالے ،، تھکی ملکانیوں کی طرح آگے چل پڑیں ، ، جوجی نے جا کر تالہ کھولا ،، اور ہم نے حسبِ عادت بہ آواز سلام کیا ،، یہ عادت ہمیں اماں جی سے ملی ہے کہ ،، گھر بھلے خالی ہو ، اندر داخل ہو تو اونچی آواز میں سلام کریں ،، فرشتے جواب دیتے ہیں !!۔
ایمن ثمن نے بہت تیزی سے پہلے ہمارے لیۓ چاۓ کا بندوبست کیا ،، ان کا گھریلو پن تو بےکپ کے قیام میں نظر آگیا تھا ،، لیکن یہ " اُن کا اپنا ٹھکانہ تھا " اور ہم " اُن " دونوں کی مہمان تھیں ۔ بلکہ میرے پہلی دفعہ آنے کا محبت بھرے انداز سے ویلکم کیا جا رہا تھا ،، ڈاخل ہوتے ہی ایک طرف ان کے کوٹ لٹکانے کی جگہ اور جوتے اتارے کی جگہ تھی ، اسی کے اپوزٹ، گھر کو گرم کرنے کی مشین کا بند کیبن تھا ۔۔ اور چند قدم کی گلی کے فوراً دائیں جانب ، ایک چھوٹا سا کمرہ تھا ، جس میں ایک سنگل بیڈ اور ایک ٹیبل تھا ایک کھڑکی سامنے کے منظر کو دکھا رہی تھی ،، اسی کے ساتھ دائیں ہی طرف دوسرا بیڈ روم تھا جو ڈبل بیڈ والا کمرہ تھا اس میں ایک چھوٹی الماری ،اور ایک سنگھار میز رکھی ہوئی تھی ،، جب ان کی اماں آجاتی ، یا میرے جیسے مہمان ،، تو یہ دونوں بیڈ رومز بہت کام آتے ۔ لندن میں ان کے پاس چند دن ٹھہرنے والے مہمان اکثر آۓ رہتے ، اور ان کی مہمان نواز طبیعت سے لوگ فائدے اُٹھاتے ،، یہ مہمان نوازی اس لیۓ بھی تھی کہ جوجی کی اس عادت کو انھوں نے اپنایا ہوا تھا ،، حالنکہ کبھی کبھار ، ان کی اس خوش مزاجی کا کچھ لوگ غلط فائدہ اُٹھاتے ،، وہ سمجھتے کہ ، ہم تو انکے مہمان ہیں ، ٹیکسی کا کرایا بھی یہ ہی دیں ،، ہم ایسی سوچ پر سواۓ افسوس کے کیا کر سکتے ہیں ،،، بہرحال آخر اسی گیلری کے بائیں طرف پہلے ایک باتھ روم اور اسکے بعد کچن اور آخر میں ایک نہایت مناسب سائز کا " لیونگ روم " تھا ،، جس کی رائٹ سائڈ پر ایک بڑا صوفہ ، ایک آرام دہ کرسی ، اور دو موڑھے تھے ، جبکہ اس کے بائیں طرف گول ڈائینگ ٹیبل چار کرسیوں والا رکھا تھا ۔ یہ دو نوجوان لڑکیوں کے لیۓ بہت خوب تھا ، چاۓ  کی تواضع کے بعد مائرہ نے تجویز دی کہ ابھی صرف شام کے پانچ بجے ہیں ۔ آرام بھی ہو گیا ہے کوئ وقت ضائع نہ ہو تو بہتر ہے ،، میَں آپ کو حکیم چاچا جی کےگھر ابھی گھما لاتی ہوں ، کہ آج کے دن کو بھی استعمال کر لیں !!! ۔
جیسا میَں نے مائرہ کی شادی کے احوال میں لکھا تھا ، کہ لندن سے اباجی کے چچا ذاد بھائی" حکیم چچا بھی شادی میں شریک ہوۓ تھے۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں اور بہوؤں ، اور دو پوتے پوتی کے ساتھ آۓ تھے حکیم چچا کی بیوی بہت ہی اچھی خاتون تھیں جو کچھ عرصہ قبل فوت ہو چکی تھیں ، ان کے دونوں بیٹے ، انتہائی لائق فائق ، اور والدین کے بہت تابعدار بیٹے ہیں ، اب یہ دونوں بیٹے فخر اور باسط خود بال بچے دار ہیں ، بلکہ فخر کے چار بیٹے ہیں ، جو جوان ہیں ، شادی میں شاہین ( بہو ) نے بتایا تھا کہ بڑے بیٹے کی منگنی کر دی ہے ، اب ہم بھی انہی کیٹرنگ والوں کو بلائیں گے وغیرہ ،،، بس دو ماہ بعد کی تاریخ رکھی ہے ،،، ہماری ملاقات کے بعد ، بہ مشکل تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ ، ان کے دوسرا پوتا ، جو جوان لڑکا تھا ،، کو کسی نے قتل کر دیا ،، ہم تدفین میں شریک نہیں ہوسکی تھیں ، لہذٰا اب ہمارا ان کے گھر کی طرف اظہارِ افسوس کے لیۓ جانا ضروری تھا ، جو مائرہ لے جا رہی تھی ،، فخر کا گھر " سلاؤ " میں تھا ،، ایک دفعہ پھر ٹاور بریج سے گزر کر وہاں پہنچیں ، وہاں تک اچھا خاصا فاصلہ تھا ۔ اسی میں شام کے سات بج گۓ ،،، کچھ دیر شاہین اور فخر سے بیٹے کی  مزیدتحقیق کا بھی پوچھا ، اور یہاں محض شک اور نسلی تعصب کے اکا دکا کیس ہوتے ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی کچھ ایسا ہی تھا !دعا کی اور واپسی ، پر ٹاور بریج ، روشنیوں میں نہایا ہوا ، مزید خوبصورت لگا۔ 
اور یوں لندن کی سڑکوں اور عمارتوں ، اور پلوں کا پہلا تعارف ہوا ،،،، جو اگر یہ کہوں کہ بس نارمل تائثر رہا ،، تو صحیح ہے ، کیوں کہ لندن کی محبت کو محسوس کرنے کے لیۓ یہاں سالوں رہنا پڑتا ہے شاید !!۔
( منیرہ قریشی ، 31 مئی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں