منگل، 10 جولائی، 2018

سفرِانگلستان(22)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
سفرِ ولایت ، یو کے(22)۔
۔"مڈ شوٹ پارک " کے اندر سے گزرنے والی پتلی سی سڑک ذیادہ سے ذیادہ میل بھر لمبی تھی ،، اور یہاں سے کوئی ٹریفک نہیں گزر سکتی، اسکے آخر میں دو تین چھوٹے پلرز لگا دیۓ گۓ تھے، البتہ سائیکل گزاری جاسکتی تھی ،، کیوں کہ پارک کی سیر کے اگلے دن ایمن ثمن کی چھٹی تھی، ہم گیارہ بارہ بجے تک گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر ، اور گراسری لسٹ تیار کر لی ،، اور ہم اچھے موسم کا لطف اُٹھاتے ہوۓ اسی پارک کے درمیان سے گزر کر آخر میں ایک چوڑی سڑک پر پہنچیں ۔ اور چند منٹ مزید چلنے کے بعد سامنے یہاں کی مشہور " شاپنگ چَین ، ایستا ،یا ،ایسدا " تھا ،،، جہاں ضرورت کی ہر چیز مل رہی تھی ، اور خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں " ہلال کاؤنٹر " بھی الگ تھا،،، جہاں سے مکمل اعتماد سے صاف کیا گیا گوشت لیا جا سکتا ہے ۔ گویا ، کفار نے اعتماد ، ایمانداری اور ملاوٹ کے بغیر خوراک فراہم کر دی تھی ،،، ایمن ثمن نے اپنی ڈیوٹی سنبھالی اور ، کچھ دیر جوجی نے ان کا ساتھ دیا ، پھر میَں اور جوجی ، کچھ تحائف لینے کے لیۓ سر گرم ہو گئیں ، اور دو گھنٹے کے بعد وہیں باہر نکل کر ایک کافی بار سے کافی پی ،، ایمن ثمن نے پہلے نمبر پر ، ذیادہ بوجھ اُٹھایا ، دوسرے نمبر پر جوجی نے ،،، اور حسبِ عادت میں نے خود کو " چالاکی " سے ہلکا پھلکا رکھا ،،، اور ایمن ثمن نے نہایت مروت سے مجھے " بےچاری خالہ "
بناۓ رکھا ۔ حالانکہ جوجی اس" بیان " سے بالکل متفق نہیں رہی کہ خالہ کو بےچارہ سمجھا جاۓ ،،( واپسی پر سامان کے بوجھ کی وجہ سے رفتار سست رہی اور اسی بہانے مڈ شوٹ پارک کے عین درمیان میں ایک بنچ پر بیٹھیں اور اس سہ پہر کی خاموشی کے تجربے کو خود پر وارد ہوتے محسوس کیا ،، ! اور میرے " مکرم و محترم اشفاق احمد صاحب " ایک خط میں، رفیق احمد نقش " کو لکھتے ہیں ۔،،، " "میَں میر پُور خاص آیا تھا ، تھر کے صحرا کی سیر کی، میر پور خاص سے باہرکھپرُو روڈ پر ایک قدیم مدرسے میں گیا ،،مختلف جگہوں کی " خاموشی " ریکارڈ کی ،،، کیوں کہ ایک جگہ کی خاموشی،،،، دوسری جگہ کی خاموشی سے مختلف ہوتی ہے ۔ گویا خاموشی کی بھی جہتیں ہوتی ہیں "مشہور و معروف ادیب ، لیو ٹالسٹائی نے اپنے ناول " جنگ اور امن " میں لکھا ، ،، " ایک گھر کے ہر کونے ،اور کمرے کی کیفیت الگ ہوتی ہے "تو مجھے بھی اب تک ان خاموشیوں نے " سرگوشیوں " میں اپنا نا معلوم ، نام ، کان میں سنایا اور محسوس کرایا تھا،،،،،،،اگلے دن " عید الاضحیٰ " تھی ، ،، سواۓ ایک دوسرے کو عید مبارک کہنے کے اور کوئ انداز ،یا، نشانی نہ تھی کہ عید کے تہوار کو محسوس کر لیتیں ،، یہاں نزدیک کوئ ایسا اسلامک سینٹر بھی نہ تھا جہاں ، باقی امت مسلماء میں سے کوئ مل جاتا ،،، اسلیۓ سوچا ویسے بھی ورکنگ دن ہے ،، ثمن نے کہا " چلیں آج آپ میری یونیورسٹی دیکھیں " ،،، جلدی سے تیاری کی ،، ثمن نے پوچھا ، " بس سے جانا پسند کریں گی ، یا ، جس طرح میَں روز جاتی ہوں ، ایسے ،،، میَں نے کہا َ میں تمہاری روٹین سے جانا چاہوں گی کہ یہ اچھا تجربہ ہو گا ،، کیوں کہ اس نے مجھے بتایا ہوا تھا کہ میَں روزانہ دریاۓ ٹیمز کے اندر بنی ٹنل سے ہو کر جاتی ہوں " ،، یہ جملہ خود ایک ایڈونچرتھا ،اس لیۓ 15 منٹ کی واک کے بعد،، ایک سٹیشن پر آ رُکیں ،، جہاں لفٹ کے ذریعے کئ فٹ نیچے ، پہنچیں ،، اور ایک وسیع احاطے میں جہاں کچھ درخت اور بنچز بھی تھے اور یہیں ،، ٹنل کا دہانہ بھی نظر آرہا تھا ،، اور ،،، یہیں ایک فیملی نظر آئ ،، جو کچھ مردوں ، کچھ عورتوں اورچند بچوں پر مشتمل تھی ،، ہم دونوں کو فوراً کلک کیا کہ یہ پاکستانی لگ رہے ہیں ،،کیوں کہ انھوں نے ذرا جھلمل سے کپڑے پہن رکھے تو ، جو ہمارے خیال کے مطابق عید کے دن کی مناسبت سے ہو سکتے تھے۔ جھجکتے ہوۓ ہم نے دونوں نے انھیں سلام کیا ،، اور پوچھا پاکستانی ؟ انھوں نے ٹھیٹ لاہوری یا فیصل آبادی ، اردو میں جواب دیا ،، " آہو جی ، پاکستانی ہوں ، ہم فورا" خواتین کو گلے ملنے اور عید مبارک ، عید مبارک کہا جانے لگیں ،،، انھوں نے دوسرے منٹ میں اپنا سارا تعارف شروع کر دیا ،،، خاص طور پر ان کے ساتھ آۓ دونوں مرد حضرات نے اگلے 15 منٹ اپنے انگلینڈ آنے ، 15 سالہ جدوجہد ، یہاں سیٹل ہونے کی داستان ، اور پھر گروپ میں موجود افرد کی آپسی رشتہ داری بھی بتا دی ،،، یہ سب ہم دونوں بہت خوشی اور محبت سے دیکھ اور سن رہیں تھیں ،،، لیکن ، " اے پڑھنے والو،!،، ثمن ایمن کی حالت کا ضرور تصور کر لو ،،، کہ وہ ، جو فالتو بات چیت سے ہمیں بارہا منع کرتی رہیں تھیں ،، لیکن اسوقت ان کی بےبسی کی مسکراہٹ ،، سے ہم مزید لطف اندوز ہو رہیں تھیں ،، بلکہ ہم انھیں یوں نظر انداز کر رہیں تھیں ،، جیسے یہ ہماری  سیکٹریز ہیں ، جو صرف ہمارے حکم کی پابند ہیں ،، فی الحال ،، میَں نے انھیں کہا ،، بھئ آج مجھے وطن سے دور عید کا موقع ملا ہے اور اب اپنے ہم وطنوں کے ملنے سے "عید کی خوشی" مکمل ہو گئی اب تم ہماری فوٹو لو تاکہ یہ لمحے یاد گار ہو جائیں ،،، اور ( اس سادہ ، محبتی اور ٹپیکل ، کھلی ڈُلی بات چیت والے ،، جینوئن پاکستانیوں سے مل کر ہمیں بہت خوشی ہوئی ، لیکن اس کے بعد ایک دبا دبا غصے والا چھوٹا سا لیکچر بھی ایمن ثمن سے سننا پڑا ، جو ہم نے ایک کان سے سنا دوسرے سے نکال دیا )۔
لیکن ،،، ٹنل کے اندر جانا میرے لیۓ ، بہت پُر جوش تجربہ تھا ، وہ اتنی بڑی گولائی میں تھی کہ کھینچ کر ہاتھوں ہاتھ پکڑ کر 7یا 8 لوگ کھڑے ہو سکتے تھے، یہاں سے صرف پیدل ہی آنے جانے کی اجازت ہے ،، البتہ کچھ سائیکل سوار ، اور موٹر سائیکل مالکان ، انھیں پیدل چلاتے ہوۓ لے جارہے تھے کہ یونیورسٹی میں انھیں یہ وہیکل ضرورت تھی ۔ ٹنل میں روشنی کا 
انتظام توتھا ہی ، لیکن اسمیں تازہ ہوا کا بھی اچھا انتظام تھا ،، ہم ٹیمز کے اندر سے چلتے چلتے میل بھر سے بھی ذیادہ آچکیں ، تو پھر ایک احاطہ آیا ،، اور اب یہاں تک پہنچنے والے لوگو ں کولائن سے لفٹ کے ذریعے، اوپر لے جایا جاتا ہے ،اور ہم چند منٹوں کے بعد اپنی جانی پہچانی دنیا میں پہنچ گئیں ،،، لیکن یہ دنیا خدو خال اور تعمیرات اور پتھریلے فرش ، اور بہت چھوٹی چھوٹی ستھری دکانوں کی دنیا تھی ، یوں جیسے ہم " وکٹورین " دور میں چل پھر رہے ہوں ۔ اور چند منٹ کی مزید واک کے بعد ثمن کی " گرینوچ یونیورسٹی" میں غیر محسوس انداز سے داخل ہو گئیں ،، سب سے پہلے خوب لش گرین ، دور تک پھیلے لان تھے ۔ اور ذرا دور نہایت خوبصورت ، قلعے ، چرچ اور سمندر کو دور تک دیکھنے کے لیۓ اونچے خوبصورت ٹاورز کی عمارات تھیں ، جنھیں کچھ دیر کھڑے دیکھتی رہیں ۔ یہ سب عمارات ریکٹینگل انداز سے پھیلی ہوئ تھیں ۔۔ اور سبھی کو باہر سے ہلکے پیلے رنگ میں پینٹ کیا گیا تھا ،،، دراصل یہ سمندر کنارے ایک ڈسٹرکٹ وولُوچ تھا جس کے کنارے کنگ جارج کی رہائش ، اور عبادت کے لیۓ ایک چرچ اور ایک ایسی ڈرامیٹری بنائ گئ تھی ،، جو اس بندرگاہ تک آنے والے خصؤصی بحری جہاز ، جو بادشاہ کی اجازت سے لنگر انداز ہوتے ، آنے والے ڈیلی گیشنز سے اسکی ملاقاتیں اور معاہدے طے ہوتے ، اور یہاں , سے یہ لوگ ہر قوم ، کے ساتھ ہر چیز کی تجارت کرتے ،،،لیکن ہر دور میں ، ان کے حکمران اپنی قوم کی بہتری کو مقدم رکھتے ،، اگر 100 کا معاہدہ ہوتا تو 50/ 50 کھایا اور لگایا جاتا ،،، آج ہمارے حکمران کم ازکم یہ ہی کرتے رہتے تب بھی پاکستان مسائل کے ڈھیر کے ساتھ نہ چل رہا ہوتا ،، لیکن یہاں تو 100 میں سے 95 اپنی جیب میں اور باقی 5 فیصد اس قوم پر لگاتے ہیں جیسے ہم پر احسان کر رہے ہوں ۔ ،،، اور ہر عروج کے بعد زوال بھی ہے ،،، لہذٰا ،،، برطانوی سلطنت ،،جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ،، اس کے اقتدار کا سورج کہیں غروب نہیں ہوتا ، کہ امریکا ، کینیڈا ، آسٹریلیا ، اور پھر برِ صغیر ،، ان میں سے کسی نا کسی جگہ تو سورج نکل ہی رہا ہوتا ،، اور یوں ملکہ یا بادشاہ کی سلطنت کو دوام تھا ،، لیکن اب وہ سورج کئ عشروں سے اس جزیرے میں سمٹ چکا ہے۔ لیکن اِنھوں نے اپنی ذہانت اور قانون کی بالادستی کو مقدم رکھنے کا گُر سیکھ لیا تھا ،،، آج اپنی سوچ کو تعلیم اور ٹورزم کی طرف موڑ لیا ہے ، کہ آنے والے وقت کی دھار کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسی دھارے کے مطابق اپنی پالیسیاں اور نظریات بھی بدل ڈالے ۔ گرین وچ یونیورسٹی ہو ،، یا کیمبریج ، ہر طرح کی ایسی بڑی بڑی ، شاندار رہائشی عمارات کا بہترین استعمال تعلیم ہے ،، کوئی دو سو سال اور کوئ چھے سو سال سے بنی یہ عمارتیں ، دہرا فائدہ دے رہی ہیں ،، ہم جیسے آکر ان عمارات کی تاریخ کھوجتے ہیں اور سیاح کی آنکھ سے انھیں دیکھتے ہیں ،،، علم کے طالب آکرعلوم کا خزانہ سمیٹتے ہیں ،،، اور یہ سب اس لیۓ فائدہ مند تھا ،کہ آمدن اور خرچ کا حساب بھی دیانت داروں کے ہاتھ میں ہے اور ، معیارِ تعلم پر بھی کڑی نظر رکھی گئ ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج اگرچہ سورج اسی جزیرے کی حدود میں غروب ہو رہا ہے ،، لیکن یہ سلطنت ، آج بھی چھوٹے ملکوں کو " امداد " بانٹتی رہتی ہے ۔ صدیوں کی برِ صغیر سے لُوٹ مار ،، بھی انہی کی ذہانت (یا مکارانہ ذہانت) کا نتیجہ تھی ۔ لیکن اب ان کے ملک آکر ، ان کی ذہانتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے ۔ ،،، یونیورسٹی کی پہلی عمارت جس میں ثمن ہمیں لے گئ ،، یہ شروع دور میں صرف بطورِ چرچ استعمال ہوتی تھی ،، بعد میں اسے مختلف کمیونٹی، کانفرنسسز ، اور اجلاسوں کے لیۓ اور اب آرکیٹیکس کے لیۓ ایک لیکچر ہال بن چکا ہے ،، اس کے چپے چپے کو نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا ،، اور اب بھی اسی طرح ہے ،،، اسکی چھتیں ، فرش ، دیواریں ، فرنیچر، پلرز ، ہر ایک میں نفاست اور آرٹ کو عرق ریزی سے نمایاں کیا گیا ہے ۔ ہمیں یہاں اتنی معلومات دینے والا کوئی نہ تھا ، سواۓ ایمن ثمن کے گگل کے ،،، !اس کے بعد ہمیں کنگ کا گھر دکھانے لے گئیں ۔ جو ساتھ ہی تھا ،، یہ ایک مکمل چوکور ، دو منزلہ گھر تھا ،، جو درمیان میں صحن اور آس پاس کمرے ہی کمرے تھے ،، کوئی پہلی بیگم کا تو کوئی کسی شہزادی کا ،، لیکن ذیادہ بڑا اور اچھا کمرہ بادشاہ سلامت کی " سہیلی " ( گرل فرینڈ) کا تھا ۔ جو دیدہ دلیری سے بادشاہ سلامت ، ہر جگہ ایک یا ذیادہ ہر جگہ مختلف رکھیل ، رکھتے تھے،، تو گویا ، مرد مشرق کا ہو یا مغرب کا ،، طبقہء امراء سے ہو یا غرباء سے ، اپنی حاکمیت کا ایک اظہار اور حق یہ بھی رکھتا ہے کہ وہ زندگی مرضی سے گزارے۔ بےچارے بادشاہوں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ ، ان کی زندگیوں کے اچھے پہلو کے ساتھ ساتھ ، ان کی کمزوریاں بھی تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں ۔ اور اب جب تک یہ عمارات ہیں ،، یہاں کے مخصوص کمرے ، انکے کردار ، لفظوں ، جملوں میں یاد کیۓ جاتے رہیں گے۔ ان کمروں کی سجاوٹ بہرحال بہت سادہ تھی  یا قیمتی اشیاء کہیں اور رکھوا دی گئی تھیں ۔ یہ سب اتنا سادہ تھا کہ ہمارے ہاں کے امراء کے گھر اس سے ذیادہ خوبصورت تھااسکے دیکھنے سے جلد فارغ ہو گئیں ،، اور اب آخر میں اس اونچےسٹیج کی طرف جانا ہوا جہاں کھڑے ہو کر بادشاہ سلامت ، اور اسکے وزراء ، دور بینیں ، آنکھوں پر دھرے ، تادیر آنے والے جہاز کا نظارہ کرتے تھے ۔ 
اس سٹیج کے پیچھے وہ ہال تھا جہاں آنے والے جہاز کا کیپٹن اپنے ساتھیوں کے ساتھ آتا ، اور اسے یہاں ٹھہرایا جاتا ،،، اس کے بعد کی خوب پھیلی عمارت ،مختلف کلاسسز تھیں ۔ اور اب مزید پیدل چلنے کی ہمت نہیں تھی ،، اس لیۓ ، یونیورسٹی سے باہر موجود اس پرانی طرزکے ، پتھروں کے فرش والے بازار میں پہنچیں ،، یہاں چھوٹی دکانیں اور ریسٹورنٹس تھے ،، یہاں کھانے کی چیزوں کے ریٹس بھی بہت کم تھے ، تاکہ طلباء کی جیبوں پر بار نہ ہو ۔
ہم نے ایک چھوٹے سے چائینیز ریسٹورنٹ کو کھانا کھانے کے لیۓ پسند کیا ،، ٹونزوں نے مینؤ دیکھا ، حلال کی بحث کے بعد ، آرڈر دیا ،،اس کھانے کے ساتھ کھانا کھانے کی سٹکس بھی تھیں ، جسے میَں نے اور ثمن نے ٹرائی کرنے کے کوشش کی ، کچھ حد تک کامیابی ہوئی ۔ ان دو چار چیزوں کا ذائقہ واجبی تھا ، کہ حلال کی احتیاط میں ہم نے ذائقے کو کبھی اہمیت نہیں دی ، کھانا کھا کر ، کچھ سوینئرز خریدے گۓ ، اور کچھ ونڈو شاپنگ کی !اور اب شام کے 6 بج چکے تھے ، واپسی کی راہ لی،،، اور پھر اسی طرح لفٹ پر بیٹھے ، زیرِ زمین ، اور ٹنل سے گزر کر بذریعہ  لفٹ ،، سطحء زمین ،، اور پھر ہوم سویٹ ہوم ،،۔،😎🙂
( منیرہ قریشی 10 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں