جمعہ، 9 نومبر، 2018

اک پرِخیال (19)۔۔۔۔(2)۔

" وجودِ خاکی"
' محبت و شفقت ' ( اباجی ) ( حصہ دوم )۔
اور جب بھی ہم بہنیں اور بھائی اپنے بچپن پر نظر ڈالتے تھے ، تو ایک دوسرے سےبہت سی اور باتیں پتہ چلتیں ،،، کہ بڑے دونوں یعنی آپا ، اور احسان بھائ جان جن میں سات سال کا فرق تھا اور دونوں نہایت شریف اور تمیز دار بچے تھے ،، وقت پر کام ، سونا کھیلنا ، سکول باقاعدگی سے جانا وغیرہ جیسی عادات ، کی آبیاری سو فیصد اماں جی کی وجہ سے تھی ۔ دونوں بچوں کو اباجی بہت کم وقت دے پاتے تھے ، کہ انکے کیپٹن بننے کے بعد انٹیلی جینس میں تعیناتی سے انھیں شدید مصروفیات رہتیں ،، اس دوران اگر وہ گھر آتے تو ، اماں جی کی پوری کوشش ہوتی کہ وہ انھیں گھریلو مسائل سے دور رکھیں ،، لیکن ایسا ممکن نہ ہو پاتا ، کسی نا کسی مسلۓ میں الجھی ہماری اماں جی ، اگر کبھی اس مسئلے کی ذیادہ یا کم اہمیت کا احساس دلاتیں بھی ،،، تو بھی اباجی کا پہلا ری ایکشن یہ ہی ہوتا کہ ،،، "تم غلط سوچتی ہو " تمہیں غصہ ذیادہ آ رہا ہے وغیرہ ،، !اور اُن کی پوری کوشش ہوتی کہ دوسرے سے جھگڑے یا اسے الزام دینے کے بجاۓ ،، معاملہ ہلکے پھلکے انداز سےرفع دفع کردیا جاۓ ۔ جبکہ اماں جی اُن کی یہ بے جا نرمی پسند نہیں کرتی تھیں ، اور واقعی بعض دفعہ اماں جی کا مؤقف صحیح ہوتا تھا ۔ لیکن اباجی کی بچپن میں ماں کی محبت کی کمی ،، والد کا لیۓ دیۓ رویہ ، اور جلد ہی چھوٹے بہن بھائیوں کو اپنا تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داریاں اُٹھالینے سے ، وہ ایک ہمبل انسان بن گۓ تھے ،، جن کے پاس لڑائ کا ، یا نفرت کرنے کا وقت نہیں ہوتا تھا ،، !آپا اور بھائ جان بتاتے تھے کہ ان کے بچپن میں اباجی گھر میں بہت ذیادہ سنجیدہ رہتے ،، بچوں سے ان کے سکول کی پراگریس پوچھ لی ، یا کیا لکھتے ، پڑھتے ہو ؟ لیکن اس نان فرینڈلی دور میں بھی ، بچوں کے لیۓ بہت سی کتابیں لائ جاتیں کہ یہ ایکسٹرا بکس ریڈنگ کی عادت ڈالیں ، آپا کے لیۓ خوب رنگین پینسلیں لائ جاتیں کہ وہ ڈرائنگ میں اچھی ہوں ، اباجی کی طرف سے آرڈر ہوتا ، کہ اپنے ماموں کو انگلش میں خط لکھو ، تاکہ انگریزی اچھی ہو ۔شاعری میں علامہ اقبالؒ کے اشعار یاد ہوں تو خوش ہوتے ،، بھائ جان کے کمرے میں ایک الماری ایسی تھی ، جس میں بہت سے سائنسی ایکویپمنٹس ہوتے ، وہ جس سکول میں ساتویں تک پڑھے ، وہاں کی اچھی پڑھائ تھی کہ بغیر کسی ٹیوشن کےجلد ہی وہ پاکستان کے پہلے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخل کر لیۓ گۓ ، اور یوں آپا کی شادی ، بھائ جان کا ہوسٹل جانا ، اور اماں جی کا بہت سیریئس آپریشن سے گزرنا ، ایک ہی سال اور چند مہینوں میں وقوع پزیر ہوۓ ،، میَں اور جوجی ، چار ، پانچ سال کی عمر میں تھیں ،۔ اور یہ ہی وہ دور تھا کہ ہم دونوں اباجی کی منظورِ نظر بن گئیں ، اور یوں بڑے دونوں بچوں کے ساتھ وہ جتنے سنجیدہ باپ رہۓ ، اتنے ہم دونوں کو کبھی بھی نہیں ڈانٹا ، اور ہمارے بچپن یا لڑکپن کا دورانیہ ، اُن سے محبت سمیٹنے میں گزرا۔ 
پنڈی کے قیام کے دوران ، اچھی انگریزی فلمیں دکھانے خود لے جاتے ، آرمی کلب میں کوئی فنگشن ہے تو وہاں ، ہر سال گرمیوں میں مَری کا قیام ، اور وہاں کا کونا کونا دکھایا ، جب بھی کراچی ، یا ڈھاکہ سے ہو کر آتے ، وہاں کی سوغات لانا ضروری ہوتا ، صدر ایوب کے عملے میں شامل ہوۓ ،تو ان کے ساتھ وہ شکار پر جاتے ، تو یہ اپنے حصے کا شکار مرغابیاں ، تیتر ، بٹیر اتنے لے آتے کہ نہ صرف اسی محلے میں موجود رشتہ داروں کو بھیجی جاتیں ، بلکہ محلے کے کچھ ملنے والوں میں بھی یہ سوغات بٹتی ۔ جبکہ ہم دونوں بہنوں نے کبھی عام بکرے کاگوشت شوق سے نہیں کھایا ، تو یہ مرغابیاں تو ہماری شدید محبت کی حقدار ٹھیرتیں ،، کہ انھں کیوں مارا گیا ،، میَں تو باقاعدہ بحث کرتی تھی۔ ہمارا یہ بحث مباحثہ کرنا آپا کو اکثر حیران کرتا کہ اباجی کتنے بدل گۓ ہیں ۔ ڈھاکہ کے شیرے میں لتھڑے رَس گُلے ، جو پتوں میں پیک اور تنکوں سے بنی ٹوکریوں میں آتے ، انھیں بھی دونوں میاں بیوی ، کھلے دل سے بانٹتے ۔ 
اباجی نے ہم دونوں کے بچپن میں ہمیں پیار اور اہمیت دیۓ رکھی ۔ اُن کے لاۓ ، چابی والی ہاتھ میں گُلدستہ پکڑے ڈانس کرتی گُڑیا ، بہت سالوں تک میرے پاس محفوظ رہی اور جوجی کے لیۓ چابی ، والی ایک پریم چلاتی گڑیا تھی ،، ہم دونوں یہ کھلونے بہت محتاط طریقے سے گھنٹہ بھر کھیل کرواپس ڈبوں میں رکھ دیتیں ، ،، گھر میں ایک اردو کا اخبار ، اماں جی کے لیۓ حُور اور زیب النسا اردو میگزین،، اور ہم دونوں کے لیۓ " تعلیم و تربیت ، بچوں کی دنیا اور کھلونا " رسالے آتے ،، تو گویا اباجی کو یہ سب فضول خرچی نہیں لگتی تھی لیکن ،، دوسری طرف وہ محتاط اخراجات کے قائل تھے ۔ وہ اپنے والد کے آگے کبھی" نہ" نا کر سکنے والے بیٹے رہۓ ۔
اباجی کے آرمی سے ریٹائر ہونے اور واہ فیکٹری میں بطورِ چیف سیکورٹی آفیسر تعینات ہونے پر ہم واہ فیکڑی آۓ تو 1964ستمبر کے دن تھے ، ہلکی ہلکی سردی شروع ہو چکی تھی ، ، اماں جی اتنے بڑے لان والے گھر کو دیکھ کر بہت خوش ،، اور میں اور جوجی غموں میں ڈوب گئیں تھیں ، ، کہ اتنا ویران لان ،، دراصل اباجی کو ملنے والا گھر تب تک خالی نہ ہو سکا تھا ، تو فوری طور پر یہ گھر لینا پڑا جس میں ایک بنگالی فیملی رہ کر گئ تھی ، اور انھوں نے اس گھر کو تین سالوں تک ایسے استعمال کیا ، جیسے " بس کل ہی چلے جائیں گے " اس لیۓ وہ کمروں تک محدود رہۓ ، اور وہ بھی سفیدی کے قابل تھے ۔ ،، لیکن اگلے ہی دن سے اباجی نے ملنے والے اختیارات کا بھرپور استعمال ہوا،، پھر تو روزانہ کی بنیاد پر سارے کام ہوۓ ، اور اباجی نے ،، اپنی بیگم کو خوب خوش کیا ،، جیسا اماں جی نے فرمائش کی ، ویسے کیا گیا ،، بچے بازار کا دودھ نہیں پیئیں گے ،، بھینس جو اب تک گاؤں میں رکھی گئی تھی ، واپس لائ گئ ، اسکے لیۓ دو چھپر والےکمرے بنا دیۓ گۓ ، ایک خدمت گار بھی آگیا ، اور اجڑے لان کو گُل و گلزار بنا دیا گیا ، اس سب میں اباجی نے دل کھول کر خرچ کیا ۔ تاکہ ، بیمار بیوی کا دل راضی ہو جاۓ ۔ اور وہ اپنا ذاتی گھر چھوڑنے پر افسوس نہ کرے ۔ یہاں ہمیں اباجی سے ذیادہ وقت ملنے لگا ، سردی کی جلد چھا جانے والی راتوں میں ،، اباجی ہمیں کبھی کبھار لیبیا ، یا سوڈان کی باتیں بتاتے ،،، یا ،، ہم سے تاش کھیلتے اور چند آسان کھیل انہی سے سیکھے ، سکریبل کا شاید ہماری سہیلیوں نے نام بھی نہ سنا ہو گا ۔ لیکن اباجی نے ہمیں لا کر دیا اور سکھایا ۔ پنڈی صدر میں ایک چائینیزفیملی کی جوتوں کی شاپ تھی ،، ( جو آج بھی موجود ہے) اُس دور میں آرڈر پر بھی جوتے بنواۓ جاتے تھے ، اور اس سلسلے میں بھی اباجی نے ہمارے ذوق کو بہت بڑھایا ، اور دوتین سال تک عیدوں سے دو ماہ پہلے ہمیں اباجی راولپنڈی لے جاتے ، اور ہمارے ناپ کے ،ہماری پسند کے جوتے آرڈر دیۓ جاتے ۔ اُن جوتوں کو اپنی پرانی تصویروں میں دیکھتے ہیں ، تو اباجی کے لاڈ ، کے انداز یاد آ جاتے ہیں ۔ ،،، 
بنیادی طور پر ہم دیہات سے تعلق رکھنے والی " قدامت پسند " خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، آغا جی جیسے پڑھے لکھے دادا کی اجازت " نہ " ملنے کے باوجود آپا کا دس جماعت پڑھ جانا ، اباجی اور اماں جی کا جہاد تھا ۔ لیکن جوں ہی ہم واہ آۓ ، اباجی کے دل و دماغ کو جیسے مزید آزادی مل گئ ، حلانکہ یہاں سے گاؤں ذیادہ نزدیک پڑتا تھا ۔ اور آغا جی کا آنا جانا زیادہ رہنے لگا ۔ اور اب ہمارا آرڈینینس کلب جانا بھی ایشو بنتا چلا گیا ، لیکن اباجی نے اس قسم کی باتوں کو بالکل نظر انداز کیۓ رکھا ، اور ،،،،، ہم نے اس دوران کلب میں بہترین فلمیں بھی دیکھیں ،، کلب کی لائیبریری سے بہترین کتابیں ایشو کروائی گئیں ۔ اور اسی کلب میں ملک کے اعلیٰ و ارفعٰ   شعراء کے مشاعروں میں شرکت کی ،،، استاد امانت علی ، فتح علی کی خوبصورت گائیکی کا لطف اُٹھایا ،، اور جی ہاں ،، " تمبولا " بھی کھیلا ۔( جس کا نام ہم نے یہیں سنا ، صرف ہمارے شوق اور معلومات کے لیۓ اباجی نے یہ دو یا تین مرتبہ کھیلنے دیا ) اور یہ سب ماحول ہم نے اپنے محبت و شفقت بھرے والد کے زیرِِنگرانی ، انجواۓ کیا ۔ لیکن ان سب میں اماں جی کی کہیں شرکت بیماری کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی ، لیکن ان کی خوشی ضرور ہوتی تھی ۔ ہر دو ماہ میں ایک دفعہ کسی پکنک سپاٹ لے جایا جاتا ،، اور اکثر ہمیں گاڑی معہ ڈرائیور پنڈی کے لیۓ شاپنگ کے لیۓملتی ، ہمارے ساتھ جگری سہیلیاں ، شاہدہ اینڈ سسٹرز کی کمپنی ہوتی ۔ اس دوران ہمارے کالج کے دن آ چکے تھے ، تب بھی اباجی نے کسی برقعے سے متعلق کبھی بات نہیں کی ، حالانکہ آپا نے آٹھویں یا ساتویں میں ہی برقع اوڑھ لیا تھا ،،، البتہ ہمارے کالج کے دوران اُن دنوں سفید اوورآل کارواج تھا جو ہم بہنیں پہنتی تھیں ۔ اباجی کی سوچ ، منفرد اور قدرِ آزاد تو تھی ۔ لیکن آزاد خیال نہیں ، نہ ہی اباجی نے کبھی ہمیں آزاد روش اپنانےیا جدید ہر طرح کا لباس پہننے کی اجازت دی ،،، گویا انھوں نے بھی حد مقرر رکھی ، تو ہم نے بھی حد کراس نہیں کی !وقت گزرتا گیا ، میں نے بی اے کے بعد پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں لی ، لیکن جوجی نے بائیو میں ایم ایس سی کر لیا ، اور وہ ہمارے خاندان کی پہلی ایم ایس سی لڑکی تھی ، اور یہ علمی سفر اباجی ، کی اجازت سے مکمل ہوا۔
اماں جی مسلسل بیمار تھیں ، لیکن علاج میں رتی بھر کوتاہی نہیں ہوئ ۔ آخر کار اماں جی ایک لنگ ، ایک کڈنی ،کے ساتھ اور شدید دمہ رہنے کے بعد ، تھک سی گئیں ۔ اور ربِ رحیم کریم نے انھیں ابدی سکون سے نواز دیا ، 7 فروری 1976ء غم و دکھ کا سال تھا لیکن یہ سال بہت لمبا چلا ۔ آہستہ آہستہ اباجی نے اپنی دلچسپیاں ڈھونڈلیں ۔ وہ میرے جڑواں بچوں میں اتنے محو ہو گۓ ، کہ جہاں تک ممکن ہوتا انھیں گاڑی میں ساتھ لیۓ لیۓ پھرتے ۔ چونکہ فیکٹری سے بھی نو سالہ ملازمت کے بعد ریٹائر ہو چکے تھے ۔ اس لیۓ اب گھریلو کاموں میں بھی دلچسپی لینے لگے ، جو ان کی کبھی عادت نہیں رہی تھی ۔ لیکن سبزی ، گوشت کے بھاؤ معلوم ہو گئے ۔ (جاری)۔
( منیرہ قریشی 9 نومبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں