" وجودِ خاکی "
' محبت و شفقت' ( اباجی ) ( حصہ سوم)۔
ابا جی نے، زندگی کے ساتھی کو جو توجہ دی ، اور دنیاوی سہولتیں دیں ، یہ اُن کی صرف چھُپی محبت تھی ،، وہ اظہار نہ کر سکنے والے انسان رہۓ ۔ شاید اُن کے اندر ایک ایسی " شائ نیس " تھی ، جس پر وہ قابو نہ پا سکے ،، اور اسی جھجھک نے اماں جی کوکچھ گلہ مند رکھا ۔ کیوں کہ وہ جرات سے خاندانی پالیٹیکس میں ، غلط لوگوں کو غلط نہ کہہ سکے تھے۔ ایسا اس لیۓ بھی تھاکہ اُن میں سے کئ بہت نزدیکی رشتے تھے ، اور اباجی بنیادی طور پر رشتے دار اور خاندان کو اہمیت دینے کے قائل تھے ۔ ہم بطورِ اولاد ، اپنے والدین کی عادات ، کمزوریوں ، اور خوبیوں سے ذرا دیر سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ اور جب تک شعور آتا ہے ، تب تک ہم لحاظ اور ادب و مؤدب کے اُس دائرے میں رہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ والدین سے بحث نہیں کر پاتے ۔ حالانکہ اماں جی اکثر اپنے شوہر کی در گزر کرنے والی عادات کو بہت سراہتیں بھی تھیں ۔ ،،،،
دوسری بات ، دونوں مہمان نواز تھے ، اس لیۓ ہمارے گھر مہمان صرف چند گھنٹوں والے نہیں ، "اکثر " ، چند دن ، یا چند ہفتے رہنے والے آتے تھے ، اور کئ تو ایسے مہمان بھی ہوتے جن کا علاج کروایا جاتا،، اور چونکہ ان کے پاس سواری کا معقول انتظام نہیں ، اس لیۓ بہتر ہے یہ یہیں رہۓ ، علاج مکمل ہو جاۓ تو چلا جاۓ ،، شاید ، آج میَں بھی خود کو اُن کی جگہ پر رکھوں تو ایسا نہیں کر سکوں گی ، کئی ایسے افراد ہمارے ہاں قیام پزیر رہۓ ، جن سے کوئی رشتہ نہیں ، کوئ آنا جانا نہیں ، بلکہ ایک پرانے نوکر کی بہن ہے اسے ٹی بی ہے ، غریب ہے اس لیۓ وہ معہ اپنے دونوں چھوٹے بچوں کے یہیں رہۓ گی ،،، اباجی کو جو بنگلہ ملا ہوا تھا ، اس کے ساتھ تین سرونٹ کواٹرز بھی تھے ، دو میں تو ملازمین رہتے اور ایک ، ایسے آجانے والے خاندانوں کے لیۓ ہر دم تیار رہتا ۔ وہاں ضرورت کی سب چیزیں لگی رہتیں ، اور کھانا پینا تو اماں جی کے حکم پر اُنہی کے کچن سے جاتا ، ،، کچھ ایسے لوگ بھی تھے ، جنھیں اباجی کچھ اتنا پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن اگراُس فیملی سے کوئ مسلہء لے کر آتا ، جیسے صحت یا پولیس سے مسائل ،، تو ایسے میں اباجی نے کبھی کوتاہی نہیں دکھائ ، بلکہ ان کے خاندان میں سے کسی کو علاج کے لیۓ ہمارے گھر رکنا پڑا ، تو کبھی غصہ نہیں دکھایا ۔ گویا ،، اباجی نے خود پر ضروری حد ،،، والا ضبط قائم کر لیا تھا ۔ ایسے موقع پر اُن کی خاموشی ذیادہ ہو جاتی ۔کہ اِس سے گھر آۓ کی دل آزاری نہ ہو ۔ ۔ ویسے بھی وہ ہر کسی سے بہت گپ شپ والے نہیں تھے ۔ اس لیۓ رشتہ داروں پر اُن کا ایک خاص رعب اور دبدبہ تھا ۔ہمارے ساتھ اُن کا رویہ فرق تھا ، ، ، ۔
اماں جی ، دنیا کی اُن ٹپیکل عورتوں کی طرح ہی تھیں ، جنھیں جائیداد بنانے کا شوق ہوتا ہے ۔ اور صرف یہ ایک ایسا " ایشو " تھا ، جو دونوں کے درمیان شدت سے اختلاف اور ناراضی کا باعث بنتا ، روال پنڈی کا گھر خریدا گیا تو اماں جی نے اپنا ، سارا زیور سامنے لا رکھا کہ اسے بھی بیچ کر ادائیگی پوری کر لیں ، لیکن گھر ہاتھ سے نہیں جانے دینا ۔ اباجی کا خیال تھا "کوئی ضرورت نہیں گھر خریدنے کی ، ریٹائر ہوں گا ، تب دیکھا جاۓ گا ،، گاؤں تو اپنا ہے ہی " ۔ لیکن اماں جی نے بات منوا کر چھوڑی ۔
اور میرا خیال ہے ،، عورت کے اندر "" اپنی ، ذاتی ، چھت بنانے کا خیال ، اس قدر مضبوط اس لیۓ ہوتا ہے ، کہ اسے تحفظ کا عجیب سا احساس رہتا ہے "" ،،،، اگر ہم جانوروں یا پرندوں کی دنیاؤں کو دیکھیں تو چند ایک کو چھوڑ کر سبھی مادائیں ، گھر خود اکیلے ہی بناتی ہیں ، یا نر اور مادہ مل کر بناتے ہیں ،، شاید قدرت کا یہ قانون ، انسانی فطرت کا حصہ بھی بنادیا گیا ہے ۔
اماں جی کی وفات کے بعد اباجی نے 22 سال اکلاپے میں گزارے ، اس دوران میَں ہی ان کے ساتھ مستقل طور پر رہی ۔ اگر وہ چاہتے تو دوسری بیوی کے ساتھ کا قدم اُٹھا سکتے تھے ،، لیکن وہ بہت ذیادہ اس پر آمادہ نہ ہوۓ ، اور میرا اُن کے ساتھ رہنا ایسا صرف قسمت کے پھیر نے کر دیا ،، لیکن ، یہ اماں جی کی آخری خواہش بھی تھی ،، اباجی شاید میرے اور میَں اُن کے مزاج کی واقف تھی ۔ اس لیۓ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات بناۓ رکھے ،، کہ میَں اباجی کے ساتھ آخری لمحے تک رہی ۔
اباجی نے ، اپنی دلچسپیاں ، اور ملنا ملانا ، عین اسی طرح رکھا جیسا اُن کا دل چاہا ،،، اب رہنے والے مہمانان تو بہت ہی کم ہو گۓ ۔ لیکن روزانہ آنے والوں کا ماشا اللہ تانتا رہتا ۔ یہ اباجی کی مہمان نوازی اور مہمان کے لیۓ خوش مزاجی کا مظہر تھا ۔ ان کی پینشن ، اور ایک گھر کا کرایا آنے سے بہترین گزارا ہونے لگا ، ، ، انھوں نے زندگی کے صرف آخری تین سال بغیر کار چلاۓ گزارے جب ، ان کی بینائ کمزور ہو گئی تھی ۔ کار تو کھڑی رہی ، لیکن خود نہیں چلا سکے ۔
اباجی ، کچھ بہت پریکٹسنگ مذہبی بندے نہیں تھے ، جمعے کی نماز مسجد جاتے ، صبح کی نماز ضرور پڑھتے ، لیکن دن بھر میں کبھی ایک ، کبھی دو نمازیں پڑھ لیتے ، قرآن ، اکثر صبح ہی تھوڑی دیر پڑھتے لیکن ، ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ۔ بغیر تفسیر پڑھنا ، ان کے لیۓ محال تھا ۔ مولانا مودودیؒ کی چھے جلدوں کے تفہیم القرآن کے ابتدائ ایڈیشن ، بہت عرصہ پہلے ہی خرید لیۓ گے تھے ، اور اکثرانہی کو دونوں میاں بیوی پڑھتے ، بعد میں ہم بہنوں نے بھی پڑھا ۔ الحمدُللہ ۔،،، لیکن اباجی رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، اور مہمانوں کا بہت ذیادہ خیال کرنے والے ، " مسلمان " تھے ، گھر میں آۓ اور جُڑے نۓ اجنبی رشتوں " دامادوں ، اور بہو " کو جس ہمبل طریقے سے انھوں نے نبھایا ۔ ایسی اعلیٰ ظرفی بہت کم نظر آتی ہے ۔
چند بہت ضرورت مند رشتہ داروں کو ہمیشہ مالی مدد پہنچائ ۔ اماں جی کی نرم دلی ،، کا مزاق اُڑانے ،، یا ، اُن کی مدد سے انکار کے بجاۓ ،، کسی نا کسی طرح اس کام کو پائیہء تکمیل تک پہنچا دیتے ، یہ ایک مرد کی وہ اعلیٰ کوالٹی ہے کہ اُن معاملوں میں بیوی کا ساتھ دینا ،، جو شوہر کی مرضی اور مزاج کا نہیں ہوتا تھا ، کیوں کہ وہ جان گۓ تھے کہ اپنی نرم دلی کی وجہ سے یہ کام کروانا چاہے گی ، جبکہ صحت کی خرابی اسے ایکٹو نہیں کر پاۓ گی ۔ ( اللہ انھیں اُن کاموں پر اجرِ عظیم عطا کرے ۔)
اباجی کی پوری کوشش رہی کہ اپنے " وسائل " کے اندر رہ کر گھر چلائیں ، اور تمام " نیکیاں " بھی اسی دائرے میں رہ کر کریں ۔اس وقت وہ مجھے کچھ " کنجوس " بھی لگتے ،، لیکن اب سوچتی ہوں ، تو وہ بالکل صحیح نہج پر " متوازن " طرز ِ زندگی گزار گۓ ۔ اباجی 80 سال تک پہنچے ، تو وہ نہ کسی کے قرض دار تھے ،، نہ اکلوتے بیٹے پر انحصار کی نوبت آئ ، اُن کے پرانے ، نۓ دوست میں سے کئ یکے بعد دیگرے چل بسے ۔ اور جب بھی کسی کی جدائ کا سنتے یا اسے دفنا کر آتے دو تین دن ڈیپریشن میں رہتے ۔ ان دنوں رئیس امروہوی کا یہ اشعار اکثر دہراتے ،۔
؎ خاموش زندگی بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے ریئس
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
آخر دورِ علالت آگیا ، پہلے یاداشت متاثر ہونا شروع ہوئی ۔ پھر مزید بیماری بڑھی ، اور ان کے ہمدرد معالج ڈاکٹر شاہد سلیم نے ہمیں پوری سچویشن سمجھائ ،، میجر صاحب ، پارکنسن کا شکار ہو رہے ہیں ، آہستہ آہستہ ، مزید بھولنے لگیں گے ۔ اور ایک وقت آۓ گا ، چلنا بھی ممکن نہیں رہے گا ۔" اور خود ڈاکٹر شاہد کا یہ حال ، چاہے رات کتنی بھی دیر سے فارغ ہوں ، اباجی کو ضرور دیکھتے ہوۓ گھر جاتے ، یا ضرورت پڑتی تو ہماری ایک کال پر پہنچتے، ان کا آخری دن کے وزٹ پر یہ جملہ ہمیں بے حد اطمینان دے گیا ،" اس سے ذیادہ اچھی نرسنگ کوئ نہیں ہو سکتی ، جتنی میجر صاحب کی ہوئ "" کیوں کہ اباجی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے تھے ، جن کو بہت محبتوں سے سنبھالا گیا ، کہ گھر کی پرانی ملازمہ شہناز نے بیٹی کی طرح خدمت کی ،، میری چھوٹی پھوپھو ، اور آپا ، صبح سے دوپہر تک ڈیوٹی دیتیں ، اور پھر دوپہر سکول سے آ کر اگلے دن صبح تک میَں اور میرے بچے پوری توجہ سے ان کے سب کام نبٹاتے ، الحمدُ للہ ، ہم جب پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ابا جی کی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے ، اُن کے سب بچوں نے ،، ان کے نواسے نواسیوں ، نے اور پوتے پوتی نے اپنے اپنے طور پر حصہ ڈالا ، ، خاص طور پر میرا بڑا بیٹا علی ، تو خود اُن کا "اباجی " بن گیا تھا ،،،، یہ اُن کی اپنی نیکیاں تھیں ، کہ ڈیڑھ سال بستر پر رہنے کے باوجود، ان کی اہمیت بڑھی ، کم نہیں ہوئی ، کسی کی طرف سے کوئی کوتاہی ،کوئی اُکتاہٹ نہیں ہوئ ۔ وہ ایک ایسے مرکز رہۓجس نے صرف اپنے بچوں کو ہی نہیں جوڑے رکھا ، بلکہ خاندان کے بہت سے لوگ بھی ان کی معاونت کے محتاج رہۓ ، یہ مددصرف مالی ہی نہیں اخلاقی بھی رہی ۔ اباجی ، نے رزقِ حلال کو اپنا اوڑھنا ، بچھونا بناۓ رکھا ۔ اور اپنے بچوں کو یہ سبق عملا" دیا ۔ "" کہ جتنا پاس ہے اتنے میں گزارا کرو "" اباجی ،،، کی شخصیت ، بہت سی خوبیوں ، اور بہت کم کمزوریوں کے ساتھ مُسَجَع تھی ،، وہ الحمدُ للہ ایسی نیک نامی کما گۓ ، کہ جن کا نام آج بھی ہمارے لیۓ تعارف کا باعث ہے ۔ جبکہ ہم سب بہن بھائ ، خود گرینڈ فادرز ، مدرز بن چکے ہیں ،، اور جب کبھی ہم سے کوئ کہتا ہے کہ اچھا میجر صاحب کے بیٹے / بیٹی ہو ،،، تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ، کہ مرنے کے 20 سال بعد بھی ، ہمارے والدین کی نیک نامیاں ہم کما رہۓ ہیں ۔ کاش ، ہم بھی اپنے والدین کی اچھی خوبیاں اپنا لیں ،، اور ہم اُن کے لیۓ باعثِ شفاعت بن سکیں ۔
اباجی جوانی سے لٹریچر پڑھنے کے ہی شوقین نہیں تھے بلکہ ، خود بھی شاعری کرتے تھے ،' خالد' تخلص رکھا ، تو اکثر اپنے پورے دستخط ظفرالحق قریشی خالد لکھتے تھے ، افسوس اُن کی کئ غزلیں ، جس رسالے میں چھپیں ، نہ مجھے اُن کانام معلوم ہے ، اور نہ ہی اُن کی غزلوں کا کوئ ریکارڈ ، لیکن اُن کے جگری یار جو خود پنجابی کے نامور شاعر تھے ، " افضل پرویز " نے ایک خط میں انھیں یاد دلایا کہ ، ، ظفر ، تمہارے اندر کا خالد کہاں چلا گیا ہے ، تم اب کوئی شاعری کیوں نہیں کرتے ، جب ایسے شعر لکھے تھے ، تو اب کیا ہوا ہے ،، اور یوں ایک شعر ہمارے لیۓ یاد گار کے طور پر ہاتھ آگیا ،، ۔
؎ رہ گۓ محوِ تماشا لبِ ساحل دانا ! !
اور موجوں سے لگے کھیلنے دیوانے چند
مجھے فخر ہے کہ اباجی نے اپنی گھریلو تعلیم حاصل کر سکنے والی ، ذہین بیوی کے ذوق کو بے شمار کتب لا کر دینے سے اور بڑھایا ۔ اور اپنی اولاد کو بھی فضول محافل کے بجاۓ ، الفاظ کی دنیا کو کھوجنے کا ہنر دیا ۔
بڑے بہنوئ غلام یٰسین ہمارے لیۓ مانندِ باپ رہے ، جب کچھ عرصے بعد اُن کا بھی انتقال ہو گیا ، تو میرے چھوٹے صاحب ذادے نے بہت اچھا ایک جملہ کہا " بڑے ابا جی ، اور یہ بڑے ابو ،،،ایسے لوگ تھے ، جن کے کہنے پر، اور ایک پھیرے پر لوگ بیٹیوں کے رشتے دے دیتے ہیں "۔
اللہ سبحانَ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرماۓ ، دعا ہے ہم اُن کے لیۓ شرمندگی کا باعث نہ بنیں ، ، اللہ اُن کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے آمین ثم آمین !۔
( منیرہ قریشی 11 نومبر 2018ء واہ کینٹ ) ( اختتام )
' محبت و شفقت' ( اباجی ) ( حصہ سوم)۔
ابا جی نے، زندگی کے ساتھی کو جو توجہ دی ، اور دنیاوی سہولتیں دیں ، یہ اُن کی صرف چھُپی محبت تھی ،، وہ اظہار نہ کر سکنے والے انسان رہۓ ۔ شاید اُن کے اندر ایک ایسی " شائ نیس " تھی ، جس پر وہ قابو نہ پا سکے ،، اور اسی جھجھک نے اماں جی کوکچھ گلہ مند رکھا ۔ کیوں کہ وہ جرات سے خاندانی پالیٹیکس میں ، غلط لوگوں کو غلط نہ کہہ سکے تھے۔ ایسا اس لیۓ بھی تھاکہ اُن میں سے کئ بہت نزدیکی رشتے تھے ، اور اباجی بنیادی طور پر رشتے دار اور خاندان کو اہمیت دینے کے قائل تھے ۔ ہم بطورِ اولاد ، اپنے والدین کی عادات ، کمزوریوں ، اور خوبیوں سے ذرا دیر سے آگاہ ہوتے ہیں ۔ اور جب تک شعور آتا ہے ، تب تک ہم لحاظ اور ادب و مؤدب کے اُس دائرے میں رہنے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ والدین سے بحث نہیں کر پاتے ۔ حالانکہ اماں جی اکثر اپنے شوہر کی در گزر کرنے والی عادات کو بہت سراہتیں بھی تھیں ۔ ،،،،
دوسری بات ، دونوں مہمان نواز تھے ، اس لیۓ ہمارے گھر مہمان صرف چند گھنٹوں والے نہیں ، "اکثر " ، چند دن ، یا چند ہفتے رہنے والے آتے تھے ، اور کئ تو ایسے مہمان بھی ہوتے جن کا علاج کروایا جاتا،، اور چونکہ ان کے پاس سواری کا معقول انتظام نہیں ، اس لیۓ بہتر ہے یہ یہیں رہۓ ، علاج مکمل ہو جاۓ تو چلا جاۓ ،، شاید ، آج میَں بھی خود کو اُن کی جگہ پر رکھوں تو ایسا نہیں کر سکوں گی ، کئی ایسے افراد ہمارے ہاں قیام پزیر رہۓ ، جن سے کوئی رشتہ نہیں ، کوئ آنا جانا نہیں ، بلکہ ایک پرانے نوکر کی بہن ہے اسے ٹی بی ہے ، غریب ہے اس لیۓ وہ معہ اپنے دونوں چھوٹے بچوں کے یہیں رہۓ گی ،،، اباجی کو جو بنگلہ ملا ہوا تھا ، اس کے ساتھ تین سرونٹ کواٹرز بھی تھے ، دو میں تو ملازمین رہتے اور ایک ، ایسے آجانے والے خاندانوں کے لیۓ ہر دم تیار رہتا ۔ وہاں ضرورت کی سب چیزیں لگی رہتیں ، اور کھانا پینا تو اماں جی کے حکم پر اُنہی کے کچن سے جاتا ، ،، کچھ ایسے لوگ بھی تھے ، جنھیں اباجی کچھ اتنا پسند نہیں کرتے تھے ،لیکن اگراُس فیملی سے کوئ مسلہء لے کر آتا ، جیسے صحت یا پولیس سے مسائل ،، تو ایسے میں اباجی نے کبھی کوتاہی نہیں دکھائ ، بلکہ ان کے خاندان میں سے کسی کو علاج کے لیۓ ہمارے گھر رکنا پڑا ، تو کبھی غصہ نہیں دکھایا ۔ گویا ،، اباجی نے خود پر ضروری حد ،،، والا ضبط قائم کر لیا تھا ۔ ایسے موقع پر اُن کی خاموشی ذیادہ ہو جاتی ۔کہ اِس سے گھر آۓ کی دل آزاری نہ ہو ۔ ۔ ویسے بھی وہ ہر کسی سے بہت گپ شپ والے نہیں تھے ۔ اس لیۓ رشتہ داروں پر اُن کا ایک خاص رعب اور دبدبہ تھا ۔ہمارے ساتھ اُن کا رویہ فرق تھا ، ، ، ۔
اماں جی ، دنیا کی اُن ٹپیکل عورتوں کی طرح ہی تھیں ، جنھیں جائیداد بنانے کا شوق ہوتا ہے ۔ اور صرف یہ ایک ایسا " ایشو " تھا ، جو دونوں کے درمیان شدت سے اختلاف اور ناراضی کا باعث بنتا ، روال پنڈی کا گھر خریدا گیا تو اماں جی نے اپنا ، سارا زیور سامنے لا رکھا کہ اسے بھی بیچ کر ادائیگی پوری کر لیں ، لیکن گھر ہاتھ سے نہیں جانے دینا ۔ اباجی کا خیال تھا "کوئی ضرورت نہیں گھر خریدنے کی ، ریٹائر ہوں گا ، تب دیکھا جاۓ گا ،، گاؤں تو اپنا ہے ہی " ۔ لیکن اماں جی نے بات منوا کر چھوڑی ۔
اور میرا خیال ہے ،، عورت کے اندر "" اپنی ، ذاتی ، چھت بنانے کا خیال ، اس قدر مضبوط اس لیۓ ہوتا ہے ، کہ اسے تحفظ کا عجیب سا احساس رہتا ہے "" ،،،، اگر ہم جانوروں یا پرندوں کی دنیاؤں کو دیکھیں تو چند ایک کو چھوڑ کر سبھی مادائیں ، گھر خود اکیلے ہی بناتی ہیں ، یا نر اور مادہ مل کر بناتے ہیں ،، شاید قدرت کا یہ قانون ، انسانی فطرت کا حصہ بھی بنادیا گیا ہے ۔
اماں جی کی وفات کے بعد اباجی نے 22 سال اکلاپے میں گزارے ، اس دوران میَں ہی ان کے ساتھ مستقل طور پر رہی ۔ اگر وہ چاہتے تو دوسری بیوی کے ساتھ کا قدم اُٹھا سکتے تھے ،، لیکن وہ بہت ذیادہ اس پر آمادہ نہ ہوۓ ، اور میرا اُن کے ساتھ رہنا ایسا صرف قسمت کے پھیر نے کر دیا ،، لیکن ، یہ اماں جی کی آخری خواہش بھی تھی ،، اباجی شاید میرے اور میَں اُن کے مزاج کی واقف تھی ۔ اس لیۓ بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات بناۓ رکھے ،، کہ میَں اباجی کے ساتھ آخری لمحے تک رہی ۔
اباجی نے ، اپنی دلچسپیاں ، اور ملنا ملانا ، عین اسی طرح رکھا جیسا اُن کا دل چاہا ،،، اب رہنے والے مہمانان تو بہت ہی کم ہو گۓ ۔ لیکن روزانہ آنے والوں کا ماشا اللہ تانتا رہتا ۔ یہ اباجی کی مہمان نوازی اور مہمان کے لیۓ خوش مزاجی کا مظہر تھا ۔ ان کی پینشن ، اور ایک گھر کا کرایا آنے سے بہترین گزارا ہونے لگا ، ، ، انھوں نے زندگی کے صرف آخری تین سال بغیر کار چلاۓ گزارے جب ، ان کی بینائ کمزور ہو گئی تھی ۔ کار تو کھڑی رہی ، لیکن خود نہیں چلا سکے ۔
اباجی ، کچھ بہت پریکٹسنگ مذہبی بندے نہیں تھے ، جمعے کی نماز مسجد جاتے ، صبح کی نماز ضرور پڑھتے ، لیکن دن بھر میں کبھی ایک ، کبھی دو نمازیں پڑھ لیتے ، قرآن ، اکثر صبح ہی تھوڑی دیر پڑھتے لیکن ، ترجمہ و تفسیر کے ساتھ ۔ بغیر تفسیر پڑھنا ، ان کے لیۓ محال تھا ۔ مولانا مودودیؒ کی چھے جلدوں کے تفہیم القرآن کے ابتدائ ایڈیشن ، بہت عرصہ پہلے ہی خرید لیۓ گے تھے ، اور اکثرانہی کو دونوں میاں بیوی پڑھتے ، بعد میں ہم بہنوں نے بھی پڑھا ۔ الحمدُللہ ۔،،، لیکن اباجی رشتہ داروں ، پڑوسیوں ، اور مہمانوں کا بہت ذیادہ خیال کرنے والے ، " مسلمان " تھے ، گھر میں آۓ اور جُڑے نۓ اجنبی رشتوں " دامادوں ، اور بہو " کو جس ہمبل طریقے سے انھوں نے نبھایا ۔ ایسی اعلیٰ ظرفی بہت کم نظر آتی ہے ۔
چند بہت ضرورت مند رشتہ داروں کو ہمیشہ مالی مدد پہنچائ ۔ اماں جی کی نرم دلی ،، کا مزاق اُڑانے ،، یا ، اُن کی مدد سے انکار کے بجاۓ ،، کسی نا کسی طرح اس کام کو پائیہء تکمیل تک پہنچا دیتے ، یہ ایک مرد کی وہ اعلیٰ کوالٹی ہے کہ اُن معاملوں میں بیوی کا ساتھ دینا ،، جو شوہر کی مرضی اور مزاج کا نہیں ہوتا تھا ، کیوں کہ وہ جان گۓ تھے کہ اپنی نرم دلی کی وجہ سے یہ کام کروانا چاہے گی ، جبکہ صحت کی خرابی اسے ایکٹو نہیں کر پاۓ گی ۔ ( اللہ انھیں اُن کاموں پر اجرِ عظیم عطا کرے ۔)
اباجی کی پوری کوشش رہی کہ اپنے " وسائل " کے اندر رہ کر گھر چلائیں ، اور تمام " نیکیاں " بھی اسی دائرے میں رہ کر کریں ۔اس وقت وہ مجھے کچھ " کنجوس " بھی لگتے ،، لیکن اب سوچتی ہوں ، تو وہ بالکل صحیح نہج پر " متوازن " طرز ِ زندگی گزار گۓ ۔ اباجی 80 سال تک پہنچے ، تو وہ نہ کسی کے قرض دار تھے ،، نہ اکلوتے بیٹے پر انحصار کی نوبت آئ ، اُن کے پرانے ، نۓ دوست میں سے کئ یکے بعد دیگرے چل بسے ۔ اور جب بھی کسی کی جدائ کا سنتے یا اسے دفنا کر آتے دو تین دن ڈیپریشن میں رہتے ۔ ان دنوں رئیس امروہوی کا یہ اشعار اکثر دہراتے ،۔
؎ خاموش زندگی بسر کر رہے ہیں ہم
گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہم
ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے ریئس
یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم
آخر دورِ علالت آگیا ، پہلے یاداشت متاثر ہونا شروع ہوئی ۔ پھر مزید بیماری بڑھی ، اور ان کے ہمدرد معالج ڈاکٹر شاہد سلیم نے ہمیں پوری سچویشن سمجھائ ،، میجر صاحب ، پارکنسن کا شکار ہو رہے ہیں ، آہستہ آہستہ ، مزید بھولنے لگیں گے ۔ اور ایک وقت آۓ گا ، چلنا بھی ممکن نہیں رہے گا ۔" اور خود ڈاکٹر شاہد کا یہ حال ، چاہے رات کتنی بھی دیر سے فارغ ہوں ، اباجی کو ضرور دیکھتے ہوۓ گھر جاتے ، یا ضرورت پڑتی تو ہماری ایک کال پر پہنچتے، ان کا آخری دن کے وزٹ پر یہ جملہ ہمیں بے حد اطمینان دے گیا ،" اس سے ذیادہ اچھی نرسنگ کوئ نہیں ہو سکتی ، جتنی میجر صاحب کی ہوئ "" کیوں کہ اباجی اُن خوش قسمت لوگوں میں سے تھے ، جن کو بہت محبتوں سے سنبھالا گیا ، کہ گھر کی پرانی ملازمہ شہناز نے بیٹی کی طرح خدمت کی ،، میری چھوٹی پھوپھو ، اور آپا ، صبح سے دوپہر تک ڈیوٹی دیتیں ، اور پھر دوپہر سکول سے آ کر اگلے دن صبح تک میَں اور میرے بچے پوری توجہ سے ان کے سب کام نبٹاتے ، الحمدُ للہ ، ہم جب پلٹ کر دیکھتے ہیں تو ابا جی کی خوش نصیبی پر رشک آتا ہے ، اُن کے سب بچوں نے ،، ان کے نواسے نواسیوں ، نے اور پوتے پوتی نے اپنے اپنے طور پر حصہ ڈالا ، ، خاص طور پر میرا بڑا بیٹا علی ، تو خود اُن کا "اباجی " بن گیا تھا ،،،، یہ اُن کی اپنی نیکیاں تھیں ، کہ ڈیڑھ سال بستر پر رہنے کے باوجود، ان کی اہمیت بڑھی ، کم نہیں ہوئی ، کسی کی طرف سے کوئی کوتاہی ،کوئی اُکتاہٹ نہیں ہوئ ۔ وہ ایک ایسے مرکز رہۓجس نے صرف اپنے بچوں کو ہی نہیں جوڑے رکھا ، بلکہ خاندان کے بہت سے لوگ بھی ان کی معاونت کے محتاج رہۓ ، یہ مددصرف مالی ہی نہیں اخلاقی بھی رہی ۔ اباجی ، نے رزقِ حلال کو اپنا اوڑھنا ، بچھونا بناۓ رکھا ۔ اور اپنے بچوں کو یہ سبق عملا" دیا ۔ "" کہ جتنا پاس ہے اتنے میں گزارا کرو "" اباجی ،،، کی شخصیت ، بہت سی خوبیوں ، اور بہت کم کمزوریوں کے ساتھ مُسَجَع تھی ،، وہ الحمدُ للہ ایسی نیک نامی کما گۓ ، کہ جن کا نام آج بھی ہمارے لیۓ تعارف کا باعث ہے ۔ جبکہ ہم سب بہن بھائ ، خود گرینڈ فادرز ، مدرز بن چکے ہیں ،، اور جب کبھی ہم سے کوئ کہتا ہے کہ اچھا میجر صاحب کے بیٹے / بیٹی ہو ،،، تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ، کہ مرنے کے 20 سال بعد بھی ، ہمارے والدین کی نیک نامیاں ہم کما رہۓ ہیں ۔ کاش ، ہم بھی اپنے والدین کی اچھی خوبیاں اپنا لیں ،، اور ہم اُن کے لیۓ باعثِ شفاعت بن سکیں ۔
اباجی جوانی سے لٹریچر پڑھنے کے ہی شوقین نہیں تھے بلکہ ، خود بھی شاعری کرتے تھے ،' خالد' تخلص رکھا ، تو اکثر اپنے پورے دستخط ظفرالحق قریشی خالد لکھتے تھے ، افسوس اُن کی کئ غزلیں ، جس رسالے میں چھپیں ، نہ مجھے اُن کانام معلوم ہے ، اور نہ ہی اُن کی غزلوں کا کوئ ریکارڈ ، لیکن اُن کے جگری یار جو خود پنجابی کے نامور شاعر تھے ، " افضل پرویز " نے ایک خط میں انھیں یاد دلایا کہ ، ، ظفر ، تمہارے اندر کا خالد کہاں چلا گیا ہے ، تم اب کوئی شاعری کیوں نہیں کرتے ، جب ایسے شعر لکھے تھے ، تو اب کیا ہوا ہے ،، اور یوں ایک شعر ہمارے لیۓ یاد گار کے طور پر ہاتھ آگیا ،، ۔
؎ رہ گۓ محوِ تماشا لبِ ساحل دانا ! !
اور موجوں سے لگے کھیلنے دیوانے چند
مجھے فخر ہے کہ اباجی نے اپنی گھریلو تعلیم حاصل کر سکنے والی ، ذہین بیوی کے ذوق کو بے شمار کتب لا کر دینے سے اور بڑھایا ۔ اور اپنی اولاد کو بھی فضول محافل کے بجاۓ ، الفاظ کی دنیا کو کھوجنے کا ہنر دیا ۔
بڑے بہنوئ غلام یٰسین ہمارے لیۓ مانندِ باپ رہے ، جب کچھ عرصے بعد اُن کا بھی انتقال ہو گیا ، تو میرے چھوٹے صاحب ذادے نے بہت اچھا ایک جملہ کہا " بڑے ابا جی ، اور یہ بڑے ابو ،،،ایسے لوگ تھے ، جن کے کہنے پر، اور ایک پھیرے پر لوگ بیٹیوں کے رشتے دے دیتے ہیں "۔
اللہ سبحانَ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرماۓ ، دعا ہے ہم اُن کے لیۓ شرمندگی کا باعث نہ بنیں ، ، اللہ اُن کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے آمین ثم آمین !۔
( منیرہ قریشی 11 نومبر 2018ء واہ کینٹ ) ( اختتام )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں