جمعرات، 8 نومبر، 2018

اک پرِخیال(19)۔۔(1)۔

" وجودِ خاکی"
' محبت و شفقت ' ( اپنے والد کی بیسویں برسی کے موقع پر خراجِ تحسین )
ان دو خوبصورت الفاظ کو سنتے ہی ، تصوراتی طور پر ہمارے پردہء خیال میں ، فوری طور پر یا تو والدین کے چہرے اُبھرتے ہیں ،، یا ،، وہ مہربان اور دعاؤں کے حصار لیۓ متفکر چہرے اُبھرتے ہیں ،جن سے کبھی تو کوئ رشتہ ہوتا ہے اور کبھی کوئ رشتہ نہیں ہوتا ،،،، کہا جاتا ہےاللہ رحیم و کریم نے جب " قلم " کی تخلیق کی تھی تو اس نے اِس قلم سے پہلا جملہ لکھا " میری رحمت ، ،میرے غضب پر حاوی رہے گی" ،،،، اور یہ بھی کہ " اس دنیا میں اس کی رحمت کا نزول ایک سوئ کی نوک برابر نازل ہوا ہے ، باقی "رحمت" روزِ محشر کے لیۓ مختص کر دی گئی اور آج ،،، اسی رحمت ، محبت اور شفقت کی تقسیم کا عکس ،،،، کبھی ماں باپ ، کبھی بہن بھائ ، یا ، کچھ دوسرے انسانی رشتوں ، کی صورت میں نظر آتا ہے تو اس محبت کی پاکیزہ مِٹھاس کے (ہم وصولنے والے) شیرے میں نچڑ نچڑ جاتے ہیں ۔ اور یہ اُس مہربان اول و آخر کی ہی صفتِ رحیمی کا عکس ہوتا ہے ،،، ورنہ اس کی یہ"تخلیق" محبت و شفقت کے دریاؤں سمندروں کے بغیر نہ پنپ پاتی ۔ حتیٰ کہ جب یہ شفقت و رحمت ،، جانوروں میں بھی نظر آتی ہے تو ایسے ڈھنگ سے کہ کبھی کبھی انسان بھی شرمندہ ہو جاتا ہے ،، "کہ میَں تو اتنی محبت بھی نہیں کر پایا / پائی ۔ جتنی یہ جانور ماں اپنے بچوں سے کر رہی ہے۔اس رب نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہر چیز اور ہر جذبے کے" جوڑے " بنا دیۓ ۔ اور اسی میں بقا اور فنا ،،، کے ساتھ کا بھی جوڑا بنا دیا ،،،،، بقا صرف "خالق" کو اور اور فنا " تخلیق " کو حاصل ہو گئی ۔ 
اب اگر اپنے والدین کی طرف دیکھیں تو ہر اولاد کو اپنے والدین بہت عظیم اور منفرد لگتے ہیں ۔ مجھے بھی اپنے ماں باپ کےاندر جو خوبیاں نظر آتی ہیں ، شاید اور لوگوں میں بھی ہوں گی ،، لیکن کم ،، اوروہ میرے نزدیک لاکھوں میں سے ایک تھے ! اباجی 24 نومبر 1998ِکو 82 سال کے ہو کر ، اس جہانِ فانی سے رخصت ہوۓ ۔ چارسدہ کے گاؤں " عمر زئ ، صوبہ سرحد میں پیدا ہونے والے اپنے نوجوان والدین کی وہ پہلی اولاد تھے ،،، یقینا" ان کے والدین پہلی اولاد بیٹا ہونے پر خوش ہوۓ ہوں گے ۔ لیکن میَں اُس جوڑے کی اداسی، اور ،،،عجیب سے دکھ کو اکثر محسوس کرتی ہوں ، کہ خاندانی دشمنی کے باعث اس جوڑے کو غیر منقسم برِ صغیر کے اس نزدیکی صوبے میں جانا ، پناہ لینا اور کئی سال رہنا پڑا ،، نوجوان ماں اور باپ خوش قسمت تھے کہ ان کے پڑوسی ، پٹھان خاندان نہ صرف اثر نفوذ ،والا تھا، بلکہ تعلیمی میدان کا شہسوار بھی تھا ،، اباجی کے والد فضلِ حق قریشی فسٹ ڈویژن میٹرک پاس ، اور انگلش ، اردو ، فارسی اور عربی کی زبانوں پر اتنا عبور ضرور تھا کہ اردو ، فارسی میں شاعری کرتے ، اور پڑوس کے خان صاحب سے انگلش ناولز اور کتب کو ایکسچینج کرتے تھے ،، خود انھوں نے لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا لیکن ،،اب دن تو اپنی نوکری کے سلسلے میں پوسٹ ماسٹر جنرل کے طور پر اور شامیں ، با ذوق پڑوسی اور ان کی کتابوں کی صحبت میں گزرتیں ، اِسی خاندان کی ایک بہن سلمیٰ تھیں جو تحریکِ پاکستان میں شامل خواتین کی صف میں بیگم سلمیٰ تصدق حسین کے نام سے نامور ہوئیں ۔ تو گویا آغا جی ( ہم دادا جی کو یہ ہی کہتے تھے ) کو بالغ النظر پڑوسی ملے ، تو اباجی ظفر الحق کا بچپن لٹریری اور با اخلاق ماحول میں گزرا ،، کہ پڑوسی کے 11 بچوں میں سب ہی لڑکے ، لڑکیاں سکول جاتے ، اور ان کے ساتھ اباجی کو بھی داخل کروایا گیا ۔ اباجی کی والدہ کو ایک دبنگ اور بہت محبتی پڑوسن ملی ، جس نے اس پنجابی نوجوان ماں کے آنسو بھی پہنچے اور تینوں بچوں کی زچگی میں بھی مکمل ماں کا کردار ادا کیا ، کہ محبت کی نہ کوئ زبان ہوتی ہے نہ سرحدیں ،، نہ عمر ، نہ دنیاوی دولت کا کوئی لیول ،،،،،،،!اباجی کے بعد ایک بھائ انوار الحق اور ایک بہن اقبال بیگم پیدا ہوۓ ، یہ سب اِس پختون ماحول میں ، پشتو ہی بولتے تھے ،، یہ ہی وجہ تھی کہ یہ تینوں پشتو بول اور سمجھ لیتے تھے لیکن ، اباجی ، اس معاملے میں بہت آگے رہے کہ جماعت ششم تک اسی ماحول میں پلنے کی وجہ سے اور مکمل طور پر پختون ساتھیوں اور ٹیچرز کی وجہ سے زندگی بھر اپنے سے ملنے کے لیۓ آنے والے پشتو بولنے والوں سے اِسی زبان میں بات چیت کرتے تھے ، اور یہ ہی وجہ تھی کہ وہاں کے بنے دوستوں سے ان کی محبت دو چند ہوتی ،، ان سے لین دین ، انھیں گھر بلانا ، دعوت کا اہتمام کرنا ۔۔ اور اُس تعلیمی ماحول میں گزارے اثرات تا دیر اور پختہ رہے ۔ "جوان ماں" کی وفات اور اُسے اسی گاؤں میں ان کو دفنا کر ، جوان"غم ذدہ باپ" اپنا مختصر خاندان واپس پنجاب ، اپنے والدین کے پاس لے آیا ۔،،بچے نا سمجھ تھے ، ان کے دادی دادا نے نئ ماں کا اہتمام کیا ۔ 
اور اباجی ،،، کے دل کے اندرہمیشہ کے لیۓ ، ماں ، کی محبت کا خانہ خالی رہا ۔۔۔ اباجی پڑھائ میں شاید بہت اول دوم نہ آتے تھے ، لیکن ایک اچھے طالب علم رہۓ ۔ ساتویں سے دسویں تک ٹیکسلا کے گورئنمنٹ سکول سے فسٹ ڈویژن سے میٹرک پاس کیا ، اور والد نے بہت شوق سے پنڈی اسلامیہ کالج میں داخل کروایا ،،، فسٹ ایئر کا فائنل نزدیک تھا کہ دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا چاہتا تھا،، انگریز حکومت کو دنیا میں پھیلی اپنی مختلف " کانونیز " بچانے کے لیۓ ،، قربان کی جانے والے بے شمار اجسام کی ضرورت تھی ، اور انہی میں وہ لوگ بھی تھے ،، جن کے نزدیک تعلیم سے ذیادہ " ماحول " کی تبدیلی اولیت رکھتی تھی ، اور اباجی نےیہ تبدیلی والد کو اطلاع دیۓ بغیر کی ۔ اور جب تک باپ کو پتہ چلتا ، بیٹا ٹریننگ کے لیۓ جا چکا تھا ، اباجی کی انگریزی اور اردو ، میں بہترین استعداد کی وجہ سے ، انھیں سنگنلز میں بطورِ کلرک بھرتی کیا گیا اور ساتھ ہی کچھ ماہ کے لیۓ پنڈی پوسٹ کر دیا گیا ، یہ ہی دورانیہ تھا جب وہ گھر آۓ ، تو باپ نے اپنی بات منوائ ، کہ 24 سالہ بیٹے کی شادی دور کے رشتے دار، کی 16 سالہ بیٹی سے کر دی ،،، ایک ڈیڑھ سال میں وہ ایک بیٹی کےباپ اور ماںبن گۓ ۔ 
اباجی ، کی نئ دوسری والدہ بھی دو بیٹیا ں اور ایک بیٹا (جو بہت چھوٹے تھے ) چھوڑ کر اگلی دنیا جا بسی ۔ لیکن اباجی اب اپنے سے چھوٹے پانچ بہن بھائیوں کے بڑے بھائ ہی نہیں ،، باپ اور ماں بھی بن گۓ ،،، کہ آغا جی نے تیسری شادی کر لی تھی ،، اباجی اپنے بہن بھائیوں سے محبت میں اتنے آگے آگے رہے کہ بیوی بچی کی حیثیت ، دوسرے نمبر پر رہی ، ، اور " بیوی عزیزہ بیگم " نے اس راستے کو جلد اپنا لیا ، کہ شوہر کو جیتنا ہے تو اس کے بہن بھائیوں کی خوشنودی کو اولیت دینی ہو گی ۔ اور اماں جی نے یہ پالیسی زندگی بھر اپناۓ رکھی ۔ 
بعد میں اباجی دوسری جنگِ عظیم شروع ہوتے ہی، سوڈان ، مصر ، لیبیا اور عراق میں چار سال کے لیۓ چلے گۓ ۔ اباجی بتاتے تھے اس چار سال میں ، میَں نے شاید ہی کوئ اچھا انگریزی ناول چھوڑا ہو ۔ وہ بتاتے تھے ، سارا وقت کانواۓ کا ایک جگہ دوسری جگہ کے سفر کے دوران ، ٹینشن سے دور رہنے کا سب سے بہترین علاج ، انگلش فکشن پڑھنا تھا ،، اس کے ساتھ اگر کسی ذریعے سے " علامہ اقبال ؒ" کی کوئ کتاب مل جاتی ، تو اب عاشقِ اقبالؒ کے لیۓ اسے سمجھنا اور بھی آسان ہو گیا کہ انؒ کے ایک ایک مصرعے میں وہ ہسٹری اور جغرافیہ تھا ، جس میں وہ اُس وقت پھر پھرا رہے تھے ، اور یوں جب وہ اس جنگِ عظیم سے واپس پاکستان آۓ ، تو انگریزی لٹریچر میں ان کی دلچسپی تو دوچند ہو ہی گئ تھی ۔ لیکن علامہؒ سے ان کا عشق اور ہی انداز سے اُن کے مزاج میں آگیا ، علامہؒ کی ساری کتب کا سیٹ اس لیۓ بھی موجود تھا کہ اپنی پہلی اولاد " زاہدہ نسیم " کو آٹھویں پاس کرنے پر یا سالگرہ پر علامہ ؒ کی کتاب کاہی تحفہ ملتا ، 1938ء کا پرنٹ شدہ علامہؒ کی سب کتب پاکستان بننے سے پہلے کی خرید لی گئیں تھیں ،، بعد میں مولانا مودودی ؒ کی تفہیم القرآن کی چھے جلدیں خرید لی گئیں ، جو میرے خیال میں اِن جلدوں کا پہلا ایڈیشن تھا ، الحمدُ للہ ! کہ اس کے بعد اکثر بہت خوبصورت قرآن پاک جن کے رنگین حاشیوں سے سجے صفحے ، ایک دم آنکھوں کو روشن سے کر دیتے ، حتیٰ کہ انگلش ترجمے والا قرآن بھی گھر میں تھا جو دو جلدوں پر مشتمل تھا ، اس کی ایک جلد کوئ لے گیا ، واپس نہ کرنے کے لیۓ اور ایک آج بھی موجود ہے ،، ! کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اباجی کے شوق اور ذوق نے گھر کی فضا کو بھی وہ ماحول دیا ، جو میرے خیال میں شاید ہمارے ، خاندان کے 60، 70 گھرانوں میں سے ایک آدھ میں نظر آیا ،، اباجی نے پاکستان بننے کے فورا" بعد کمشن حاصل کیا اور 
آرمی میں ان کو انٹیلیجینس کے شعبے میں تعینات کیا گیا ، ،، اس دوران اللہ تعا لیٰ نے انھیں ایک بیٹا دیا ، جس کا نام " احسان الحق " رکھا گیا ۔ اور اِن کے کچھ وقت کے بعد ہم دو بہنیں پیدا ہوئیں ،، تو میرا نام نیرہ رکھا گیا،لیکن اباجی نے علامہؒ کی بیٹی کا سُن کر میرا نام " منیرہ " رکھا اور یوں ، ہم تین بہنوں اوراکلوتے بھائ نے اپنے ادبی ذوق والے ، والد ، اور نہایت ذہین والدہ کے زیرِ نگرانی پرورش پائی۔ 
اماں جی ،،، اپنے شوہر سے متعلق ایک جملہ اکثر بولتی تھیں ، " تمہارا باپ تو فرشتہ ہے ، اس بندے کے تن کے کپڑے بھی کوئ مانگ بیٹھے ، تو یہ اسے دینے میں لمحہ بھر بھی نہیں سوچے گا ۔ ہمیں اس جملے کی کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔ بعد میں، کبھی کوئ قصہ سنانے کا اُن کاموڈ بن جاتا تو اباجی کی شخصیت کا مثبت پہلو سامنے آتا ۔ اور ہم بچے حیران ہوتے کہ ان کا کتنا بڑا دل تھا ۔
جب اباجی دوسری جنگِ عظیم کے دوران رہے ، اچھی سیلری کی بنا پر ، اس دور میں جو پیسے ملتے، سارے اپنے والد کو بھیجتے ، اس میں سے چھوٹی بہنوں اور بھائ کو 10 ، 10 روپے ، پاکٹ منی دینے کی ہدایت ہوتی ، نیز ایک نزدیکی رشتہ دار جاب لیس تھا ، اسے اسکی چار ممبران پر مشتمل فیملی کو 25 روپے مہینہ دینے کی ہدایت تھی ۔ ( یہ واضع رہے اس دور میں 25 روپے ایک 15 یا 16 گریڈ کی تنخواہ ہوتی تھی ) آغا جی ، کو مزید تفصیل مہیا تھی کہ خاندان میں کس کو کتنے دینے ہیں وغیرہ ، اور اِن سب اخراجات کے بعد بھی اتنے پیسے بچتے کہ آغا جی زمینیں خریدتے رہتے ۔ لیکن وہ یہ اپنے نام سے خریدتے ،، اورجس رشتہ دار کو جاب لیس ہونے کی بناپر 25 روپے ماہانہ دو تین سال دیا جاتا رہا ، وہ سال بعد ہی جاب پر لگ گیا تب بھی اس نے آغا جی کو آگاہ نہیں کیا کہ اب اسے ضرورت نہیں رہی ۔ لیکن اباجی نے اپنے والد کو اسے کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا ۔
اس زمانے کے دستور کے مطابق ، ہمارے نانا جی نے اپنی بیٹیوں کو اچھا جہیز دیا ۔ جس کی خاصی تفصیل دوسروں سے سنتے لیکن ، جب اباجی کمشن ملنے ا(ور پاکستان بننے سے پہلے )کے فورا" بعد پہلی ٹرانسفر جہلم میں ہوئ اور انھوں نے عندیہ دیا ، کہ میَں اپنی بیوی اور بیٹی کو ساتھ لے کر جاؤں گا ،، تو اُس وقت کی آغا جی کی چوتھی ، بیوی نے فیصلہ سنایا کہ ، تمہارے جہیز کی کوئ چیز تم نہیں اُٹھا سکتیں ۔ یوں عائلی زندگی کا آغاز ہی مشکلات سے ہوا لیکن جہاں محبت اور اعتماد کا سرسبز پودا لگا ہو ، تو کوئ مشکل ، مشکل نہیں لگتی ۔ 
اباجی کو کتابوں کے شوق میں اکثر اس قدر محو دیکھا کہ رات کو کوئ کتاب پڑھے بغیر سوتے نہیں دیکھا ،، جب میں پانچ سال کی تھی تو ہماری سب سے بڑی بہن جنھیں ہم آپا کہتی تھیں کی میٹرک ( فسٹ ڈویژن ) کے رزلٹ سے اگلے مہینے اباجی کے پھوپھی ذاد سے ہوگئ ، وہ بھی آرمی میں کیپٹن تھے ، آپا اس وقت صرف 15 سال کی تھیں ۔ لیکن اباجی ، اپنی بیٹی جو خاندان کی حسین ترین لڑکی تھیں ، کو مزید نہیں پڑھانا چاہتے تھے کیوں کہ ، نہ اس دور میں کالج کا بہت رواج تھا نہ ہی بڑے بزرگوں کی طرف سے اجازت ،،، آپا سخت برقعے میں سکول جاتی رہیں وہ ایک لائق سٹوڈنٹ تھیں ،،، دراصل ہمارے بزرگ کنزرویٹو خیالات کے مالک تھے ، جن کے نزدیک لڑکیاں کالج جا کر خراب ہو جاتی ہیں ،، حالانکہ ، ٹیکسلا کے گاؤں سے تعلق رکھنے کے باوجود ، میری دونوں پھو پھییاں سکول پڑھنے ، تانگے پرجاتیں ، خوب بڑے بڑے برقعوں میں ۔۔ یہ اور بات کہ وہ پانچویں تک پڑھ کر گھر بیٹھ گئیں ۔ 
بچپن میں ہم نے اباجی کو ذیادہ تر سنجیدہ دیکھا ۔ وہ دوست پرست ، اپنے والد کے انتہائ تابعدار بیٹے اور بھائ بہنوں کے بےحد کنسرنگ بھائ تھے ، اپنے امیر یا غریب رشتہ داروں کی تکالیف کو دور کرنا تو جیسے ان کا فرض تھا ، یہ ہی وجہ تھی کہ ہمارا گھر ، خاندان کے ان لوگوں سے اکثر آباد رہتا جو ، علاج کرانے ٹھہرتے تھے ، اور یہ قیام چار دن سے چار ماہ تک کا ہوتا ، ، بے شک اس آؤ بھگت میں اماں جی کا ذیادہ ہاتھ ہوتا ، لیکن وہ بھی اپنے شوہر کی خوشنودی کی رمز جان چکی تھیں ، اس لیۓ ، وہ مریض میں کافی دلچسپی لیتیں ، اور میرا خیال ہے ۔۔ بنیادی طور پر دونوں ، نرم دل ، مدد پر ہاتھ پھیلانے والے کا ہاتھ تھامنے والے ، کھلے دل کے مالک ، اور شفقت کرنے والے تھے ، اسی لیۓ مہمان کی آمد پر ناک بھوں نہیں چڑھائ جاتی تھی ، حالانکہ بجٹ خاصا اِپ سِٹ ہو جاتا تھا ، گھر میں دو تین ملازم ضرور تھے ، جس کی وجہ سے اماں جی پر کام کاج کا بوجھ نہیں پڑتا تھا لیکن ، روٹین کافی بدل جاتا ۔ ،،، اس سب میں اباجی ، مریض کو جس ڈاکٹر کا دکھانا ہے تو پہلی دفعہ اماںجی لے کر جائیں تاکہ ڈاکٹر سے تعارف بھی ہو جاۓ ، اور مریض راستوں سے بھی واقف ہو جاۓ ۔۔۔ مریض چاہے مرد ہے یا عورت ،،، اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا تھا ،، اور میں سمجھتی ہوں یہ اباجی کا اپنی بیوی پر انتہا درجے کا " ٹرسٹ " تھا اعتبار کا یہ رشتہ اتنا ذبردست تھا ، کہ اماں جی کے اعتماد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ،،، اباجی کی فطرت کا یہ پہلو ،،، اتنا روشن ہے کہ آج بھی میَں بہت سے بہت پڑھے لکھے ، بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز یا مال و دولت سے آسودہ حال بھی اپنی بیویوں ، بیٹیوں پر " شک " کرتے ہیں ۔ جس سے اکثر خواتین شوہروں سے بد دل ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ " شک " گھر کی بنیادوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر ڈالتا ہے ۔ اباجی کی بہترین عادتوں میں سے ایک اور بھی تھی جو میَں نے خال خال ہی دیکھی ہے کہ ، کبھی احسان کر کے نہیں جتایا ۔ 
بلکہ در گزر سے کام لیتے ، اور ایسے احسان فراموش کو سامنے پاتے تو بس اتنا کرتے کہ اس سے بہت گرم جوشی سے نہ ملتے ۔ اپنے بہن بھائیوں کی زمینوں سے آنے والی ، پائ پائ کا حساب کر کے لکھ لیتے ، اور جب باہر رہنے والا بھائ ، پاکستان آتا ، تو اسے اسکی بینک سٹیٹمنٹ دیتے ،، وہ صاف کہتے تھے " بھائ جان محنت آپ نے کی لیکن لاٹری ہماری نکل آئیں " ،، 
( کم ازکم ضیا الحق چچا نے ایڈمٹ تو کیا ) اور آخر کار اباجی نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ، باپ ، دادا کی زمینوں کے مشترکہ زمینوں کو الگ کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، تو اکیلے ہی گرمی سردی ، کار دوڑاتے 8 سال لگے ، لیکن پاکستانی قانون کی کمزوریوں کی وجہ سے کام تین حصہ ختم کروا لیا ۔ جبکہ باقی اب ہمارے بھائ نے زمینوں کے جھنجھٹوں سے فراغت کروائی ۔ لیکن کیا مجال کہ ضیاء چچا جیسا شکر گزار رویہ کسی نے دکھایا ہو ۔ 
اباجی ، نے اماں جی کی شدید بیماری میں جو خدمت کی ، وہ خاندان بھر میں مثال بنی رہی ، آپا کی شادی کو ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ اماں جی کو بہت سیریس بیماری کے سلسلے میں چار ماہ ہسپتال رہنا پڑا ، ہم دونوں بہنوں کو صبح سکول کے لیۓ تیار کرنا ، اباجی نے اپنا فرض سمجھا ، ہمارا اکلوتا بھائ ، ہاسٹل جا چکا تھا ، اس دور میں آپا کو ان کے شوہر نے ایبٹ آباد سے بھیج دیا کہ والدہ کے لیۓ ہاسپٹل میں رہنا تھا ، گھر پر ، اردلی ، اور دو نوکرانیاں بھی ہوتیں لیکن اباجی ، ہماری خوراک کا خاص خیال خود رکھتے تھے ۔ ہماری دیکھ بھال کے لیۓ کبھی اباجی کی ایک بزرگ خالہ آ جاتیں ، اباجی کہتے تھے ،، یہ دور مجھ پر بہت بھاری رہا ، اور اپنے خاندان کی ان گھروں کی بے اعتنائیاں سہیں ، جن کو میَں نے ہی قدموں پر کھڑا کیا تھا ، یا اُن کی نرمی، بیماری میں ان کا ہاتھ تھاما تھا " ،،،، اباجی نے ہی بتایا ،، " جس دن تمہاری اماں کا آپریشن صبح ہونا تھا میَں ساری رات ہاسپٹل کے لان میں ، سجدہ ریز رہا ، کہ میرے اللہ ، میں بھی اور میری بیوی بھی اپنی ماؤں کی محبت نہیں پا سکے ، اب میرے ان نا سمجھ بچیوں کو ان کی ماں نصیب کر دے " ،،،، اماں جی کے بقول ، " مجھے تو اللہ نے تمہارے باپ کی وجہ سے زندگی دے دی " ،،، ڈاکٹرز نے اباجی سے سائن لینے کے وقت بتادیا تھا ، کیپٹن ظفر ( اس وقت اباجی کیپٹن تھے ) بچنے کا چانس صرف دو فیصد ہے ،،، اور جب آپریشن ہو گیا تو ڈاکٹر نے کہا اس حالت میں یہ 10 سال زندہ رہیں گی ، وہ بھی بہت خیال اور احتیاط کرنے سے، جبکہ اماں جی کو اللہ نے 19 سال تک کی زندگی دی ۔ اباجی نے اماں جی کی ہر طرح کی بیماری کو ہمیشہ سیریئس لیا ،، اور کبھی بھی ان کے منہ سے کوئ احسان یا اکتاہٹ کے جملے نہیں سنے ۔ الحمدُ للہ ! ۔
( اباجی کی بیسویں برسی پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتی تھی ، تاکہ اپنے اپنے والدین کی خوبیوں کو ہم یاد تو کریں صرف زبانی نہیں ، تحریری بھی، ، اور اپنا بھی جائزہ لیں کہ ہم کیسے والدین ہیں)۔
( جاری )
( منیرہ قریشی ، 8 نومبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں