جمعرات، 15 نومبر، 2018

"اکِ پرِخیال(20)۔

" اِک پرِ خیال "
' سکرپٹ ' ( 20 )۔
استاد،اداکار ، یا اینکرز ، یا سب ایسے پیشوں سے وابستہ افراد جنھیں ، "ہدایات " دینی ہوتی ہیں ، یا نالج بانٹنی ہوتی ہے، یا سوالات کرنے ، اور جوابات اُگلوانے ہوتے ہیں ،،، سب کے ہاتھوں میں سکرپٹ کی ایک کاپی ہوتی ہے ، اور ایک کاپی ، اُس دوسری اتھارٹی کے ہاتھ میں ہوتی ہے ،،،، جو اُن سے اُوپر ہے ۔
مثلاً  جوں ہی اداکار اپنے حصے کے ڈائیلاگ زبانی یاد کر کے ادائیگی شروع کرتا ہے ، سکرپٹ رائیٹر بھی ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ میں پکڑی کاپی پر نگاہ ڈالتا چلا جاتا ہے ،تاکہ اس اداکار کے غلط بولنے پر ، یا نامکمل جملے پر پر اُسے ٹوک دے ، اور دوسرا " ری ٹیک " لے کر صحیح ڈائیلاگ ادا کرواۓ ، تلفظ پر دھیان بھی دلاۓ ۔ ،، کتنے قدم دائیں ، اور کتنے بائیں چلنے ہیں ، حرکات و سکنات بھی صحیح ہوں گویا اچھا رائٹر ، اپنے لکھے کو دل و جان سے لکھ چکا ہے ، اب وہ دوسرے سے بھی کامل توجہ مانگتا ہے ،،، لیکن جب ڈرامے کا کردار بادشاہ سلامت کا ہے اور وہ نہ وہ لہجہ اپنا رہا ہے نہ سکرپٹ کو ذمہ داری سے پڑھتا ہے ، تو کچھ ڈھیل کے بعد رائیٹر بھی اور ہدایت کار بھی مایوس ہو کر اسے ، وزیر ، اور پھر یہ کرداربھی نہ ادا کر سکے تو چوبدار ، کے کردار پر رکھنے کا کہہ دیتے ہیں ، اب یہ اُس فرد کی صوابدید ہے کہ وہ ایک اہم ترین کردار کے بعد ، ایک غیر اہم کردار کو قبول کر لے ۔ یہ ڈھیل بھی اس کے بار بار " سوری" کرنے پر ملتی رہتی ہے ۔ ورنہ ، بعینہہ ،، کائنات کے خالق کے ہاتھ میں بھی ایک لوح ہے جس پر ہر نفسِ انسانی کے لیۓ لکھے کردار کے مندرجات محفوظ ہیں ، اور ہر فرد کے ہاتھ میں اِس محفوظ شدہ مندرجات کے مطابق کا " سکرپٹ " پکڑا دیا گیا ہے ۔ عقل و فہم سے کام لینے والے ، ہر سطر ، ہر ہدایت کو بغور پڑھتے ، اور اسی کے مطابق عمل کی کوشش کرتے ہیں، ہم جیسے جلد باز ایک نظر اُس پر ڈالتے ہیں ، اور ڈائیلاگ ، ، یا حرکات و سکنات کی ادائیگی تیزی سےکرتے چلے جاتے ہیں ،، دماغ کے صرف پانچ فیصد حصے کو کام میں لاتے ہوۓ ، سکرپٹ کے لکھے سے " انحراف " کی کمینی حرکتیں کرتے بھی کرتےچلے جاتے ہیں ،تین چار دفعہ اس طرح ڈنڈی مارنے کی حرکت کے بعد تنبیہ کی آواز آتی ہے ، اور ہم " توبہ " ( سوری) کہہ کر خود کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ،،، تواتر سے ٖغلطیوں کا خمیازہ بھگتنا ہی پڑتا ہے ۔ ،، اور ہمارے تنزلی " آرڈر " جاری ہو جاتے ہیں ۔ سکرپٹ چھین لیا جاتا ہے ، اور بندہ بادشاہ کے عہدے سے چوبدار بنا دیا جاتا ہے ،،، دنیا وی پیشے میں یہ عہدہ پسند نہیں آیا ،، چھوڑا ،، کہیں ، اور کام لے لیا ،،لیکن" خالق حقیقی " ،، اگر سکرپٹ لیتا اور تنزلی آرڈر جاری کرتا ہے تو پھر ایسے بندے کو دنیا میں کوئ دوسری " نوکری " نہیں ملتی ۔ 
اور اگر بالفرض ، فوری طور پر " سوری " قبول ہو جاتی ہے اور دنیا وی عہدے بحال ہو جائیں ،، لیکن ہم پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں ، کہ ہم کسی کو نہیں دیکھ پا رہۓ ،، تو کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا ۔ ڈھیل توشاید مل جاۓ ،، لیکن انجامِ زندگی ،،، و ،، آخرت کی کوئی چھوٹ نہیں ،ملے گی ۔ " کتبے " پر تو چند تعارفی جملے ہوتے ہیں ، لیکن " تاریخ اور وقت " کبھی سالوں اور کبھی صدیوں ہمارا تعارف کراتے چلے جاتے ہیں ، یہ تعارف کس انداز میں ہوتا چلا جاتا ہے ، یہ منحصر ہوتا ہے " سکرپٹ " سے روگردانی کرنے میں کتنی لاپروائی دکھائی ؟ یا اس کے نقاط پر کوئی غور و فکر کیوں نہیں کیا ،،، لہٰذا تعارفی کتبے کے بس یہ ہی لمحے ہیں ! ہم مہلت سے فائدہ اُٹھا پائیں گے ؟؟؟؟ 
۔"سب مایا ہے ،،،چلتی پھرتی ، ڈھلتی چھایا ہے ۔ آج یہاں ، کل وہاں ، آج میرے پاس ،کل اُس کے پاس ! ، بس بھروسہ اللہ واحد پر اور جواب کی فکر بھی اس واحد کے سامنے کی ہو تو " غلطیاں شاید " کم ہو جائیں"۔
( منیرہ قریشی 15 نومبر 2018ء واہ کینٹ )
۔( نیچے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اور ان کی ملکہ زینت محل کی تصاویر )۔
قیدِ فرنگ کے دورانیہ میں ،جب وہ برما میں اندھے کر کے روانہ کر دیۓ گۓ تھے ، تو ایک انگریز کیپٹن کے گھر کے گیراج  میں کئی سال گزارے ،،، مجھے اس تصویر نے یہ کالم لکھوایا )۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں