اتوار، 16 دسمبر، 2018

" اِک پَرِخیال (نوحہ 16 دسمبر 2014)۔

" اِک پَرِخیال "
' نوحہ' ("16 دسمبر 2014ء آرمی پبلک سکول کے شہدا پر ")۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب سے یہ دنیا لوگوں سےآباد ہوئی ،، ہر خطے کے لوگوں نے خود کے تحفظ کے لیۓ ، دوسرے خطے کے لوگوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا ۔ کہ شاید وہ ہم پر حاوی نہ ہو جائیں ۔ اور یہ ہی شک کا بیج جو شیطان نے ڈالا کہ " یہ تم پر قبضہ کر لیں گے ، تم پہل کر لو ،،، ورنہ " !! اور یہ " ورنہ " اور" شک " کا غلیظ کیچڑ، نسلِ انسانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیۓ اندوہناک سانحوں میں لتھیڑتا رہا ۔ کبھی بخت نصر کی حملہ آوری ، کبھی چنگیز خان کی ہوسِ خون ریزی ، کبھی پہلی اور کبھی دوسری جنگِ عظیم ، کبھی ایٹم بم کی دلخراش تباہی کی صورت میں ، کبھی دس سال اور کبھی تیس سالہ لمبی جنگوں کی صورت میں ،، انسان ، انسان نہیں ،،، درندہ بنتا چلا گیا ۔
لیکن اِن سب جنگوں اور خون ریزیوں میں مرنے والوں کے لیۓ " جاں بحق یا ہلاک " کے لفظ استعمال ہوتے رہے ۔ یہ اور بات کہ اپنے ہموطنوں اور ہم مذہبوں کے لیۓ ہر ایک فریق نے بہ زعمِ خود " شہید" کا لقب اختیار کیا ۔ شاید یہ اپنے ضمیر کے سکون کے لیۓ تھا ۔ حالانکہ تاریخ کی کتب میں ایسے بےنام لوگوں کے لیۓ ، جو لڑتے ہوۓ مارے گۓ یا ، محض لپیٹ میں آگۓ ،، لکھاگیا " اتنے اور اتنے لوگ اس لڑائ میں کھیت رہۓ " ۔
اور انسان پچھلے دو سو سال کے اندر، نئی ٹیکنالوجی ، کے تحت تیزی سے نئے طرزِ زندگی میں داخل ہوا ،،، لیکن چاند تاروں پر کمند کے باوجود ، کتابوں کی لمبی اونچی دیواروں کے باوجود ، آسانیوں اور اللہ کے آخری پیغام کے باوجود ،،،، خود کو شیطانی وساوس، لالچ ، اور ذلالت سے نہ بچا پایا ،، اِس آخری پیغام کا مخاطب " انسان اور صرف انسان " ہے ، اور پیغام ہے "صبر" ،،،،،،،،،!صبر ،، دوسرے سے اختلاف پر ، صبر دوسرے کی ذیادتی پر ،، صبر دوسرے کی ترقی پر ،، صبر دوسرے سے انتقام پر !!!! بھلے گھر کی سطح پر صبر ہے ، یا قومی لیول پر ۔۔۔ بھلے مذہبی سطح پر صبر کرنا ہے ، یا سیاسی سطح پر ،،، اسی میں سب کی بھلائ ہے ، اسی میں امن پوشیدہ ہے جو انسانی فطرت کا جزو ہے ،لیکن ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،جب بھی بہت معصوم بچوں ،،،یا ،،، نو خیز بچوں ، جو نوجوانی کی آمد کے پہلے جھونکوں کو محسوس کر رہے لا اُبالی عمر کے درویش ہوں ، یا ، اُن فرشتے مانند صاف دلوں کو جنھوں نے ابھی ، خواب دیکھنے ہی شروع کیا تھے ،،، اِن سب کو اچانک کچل ، مَسل ، کر رکھ دیا جاۓ تو " اُن کی خوبصورت آنکھوں میں حیرت اور خوف تصویر بن کر رہ گیا ہو گا " ،،، یہ تصویر ہی لیۓ وہ اپنے استقبال کے لیۓ آۓ فرستادوں کے ساتھ جلدی جلدی نئ دنیا میں منتقل کیۓ جاتے رہۓ ہوں گے ۔ آہ ،،،،، 16 دسمبر 2014ء کا دن ،، 150 شہداء نے اپنے فرستادوں سے یہ بھی نہ پوچھا ہو گا ،،، یہ ابھی ابھی ہمیں کیا ہوا کہ یونیفارم پہنے پہنے نئی جگہ آ گۓ ۔ جبکہ ہمیں ماؤں نے گھر آتے ہی یونیفارم بدلانے کی ہدایت کر رکھی ہے ،، ہمارے توسکول بیگز ، بھی ہمارے ہاتھوں میں نہیں ،،، یہ ہم خالی ہاتھ کہاں آگۓ ؟؟؟ کیا ہم اتنے بہت سے کلاس فیلو اب کسی اور سکول میں داخل ہوں گے ،، کیا ہم اپنی امی ، ابو ، باجی بھائ کو ملنے جا سکیں گے ،،،،،؟؟ اس " کیا کیا " کی تکرار نے فرشتوں کی آنکھیں بھی نم کر دی ہوں گی ،، اُس دن آسمانوں کی جنت کو فرشتوں اور حوروں نے ایمرجنسی میں " سجایا " ہو گا ،،، بےپایاں دلچسپی کے سامان کا بندوبست ہوا ہو گا ،، ٹیچرز نے بھی فرشتوں کو بتایا ہو گا ،،" اِس بچے کی یہ پسندیدہ چیز ہے ،، اُس کی یہ " !! آہ ،،،مگر اُن پیارے ، کومل خون آلود ہونٹوں پر مسکراہٹیں ذرا دیر سے ہی آئیں ہوں گی ۔ کہ ابھی تو اُن کے کان گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے سُن ہوۓ ہوں گے ،،،، ایسے بےبس ، بلا ہتھیار ، نوعمر سے انتقام ؟؟؟؟
آہ پیارے فرشتو ،، جنت تمہارے لیۓ ،،، "تم سے سجائی جانی تھی" ، ، کہ لوحِ محفوظ کا ایک صفحہ یہ بھی تھا ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔( 16 دسمبر 2014ء کے دلخراش سانحہ کے دوسرے دن لکھی گئی نظم جو خود ہی پڑھتی اور خوب روتی ہوں ، کہ یہ ہی محبت کے آنسو ہیں جو دراصل اُن خاندانوں سے اظہارِ ہمدردی ہے ، اُن کے لیۓ " صبر " کیدعا ؤں کے ساتھ )۔
" یہ دیکھا کہ سبز پوشاک پہنے ہوۓ
سرخوشی و سرمستی سے جھومتے ہوۓ
چلے آ رہۓ ہیں قطار میں تنظیم سے
یہ دیکھا کہ فرشتوں کے پُروں کی چھاؤں ہے پھیلی
حیران ہے آج ، مخلوقِ آسمان ساری
یہ کون ہیں کہ جن کے سَروں سے ہے خون جاری
مگر مسکراہٹوں سے ہیں ، چہرے نورانی
اور حُوریں ہیں سراپا استقبال ساری !!
آہ ،، مگر کروڑوں آنکھوں کے بہتے آنسو
کم سِن شہیدوں کو ہو رہی ہے پریشانی ! !
ہاں ، مگر تسلی دے رہی ہیں استانیاں ساری
اب ہم جنت کے نۓ سکول میں خوش ہیں
اور جنت کے نۓ ساتھیوں میں خوش ہیں
بچو ! اب پریشاں ہونے کی دشمن کی باری
دیکھو تو ،،،کیا شاندار ، ہیں نظارے
نبیؐ جیﷺ کی صحبتِ خاص میں ہیں ہم سارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں رواں ہیں اتنی ، کہ دامن بھیگ چلا ہے
دل غم ذدہ ہے اتنا ، کہ سوچیں رُک سی گئ ہیں
ابھی تو ہونٹوں نے تمہاری پیشانیوں کو چُومنا تھا
ابھی تو تمہارے بدن کے سُوراخوں کو رفُو کرناتھا !
ابھی تو تمہارے دشمن کے ضبط کو توڑنا ہے
اور ماؤں کی آہوں نے عرش تک پہنچنا ہے
مگر ،،،، تم سب
اِک دوجے کی باہنیں تھام کر
اپنوں کو صبر کی بَھٹی تھما کر
عجب سَرخوشی سے نئی دنیا میں جا بسے
یہ کیسی شہادتیں ہیں ،،،،
کہ قاتل بھی حالتِ رشک میں ہیں !۔
(منیرہ قریشی 16 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں