منگل، 18 دسمبر، 2018

" اِک پَرِ خیال (23)۔"

" اِ ک پَرِ خیال "
' غرض یا صِلہ ' ( 23)۔
" غرض ""کا لفظ کتنا گھمبیر ، کتنا وسیع ، اور کتنا تال میل لیۓ ہوۓ ہے کہ ، سمجھنا چاہیں تو سمجھ سے بالاتر لگے ۔۔ نہ سمجھنا چاہیں تو بالکل ایسا ہی تائثر ملے جیسے ایک پتھر کیچڑ میں پھینکا ، اور دھب کی آواز سے وہ جیاں پھینکا ، وہیں گِرا ،،، نہ کوئی دائرے ، نہ کوئی ہلچل ، نہ کوئی تبدیلی !!بس ٹھُس ایک ہی جگہ جا پڑا ۔ یہ اور بات کہ کچھ چھینٹے ادھر اُدھر گرے ، کچھ پھینکنے والے کے اُوپر گرتے ہیں ،،، اور کہانی یا تو ختم یا چلتی چلی جاتی ہے ۔ تو گویا " غرض " کا جذبہ ایک پتھر ہوا ۔ کہ لِنک بنا تَو ٹھیک ، ورنہ نہ سہی ۔
"غرض" کا لفظ ایک احساس لیۓ ہوتا ہے ،،، بعض جگہ یہ احساس شدت سے بلکہ شدید ترین " حدت " سے سامنے آتا ہے اور بعض جگہ صرف کیچڑ کے پتھر کی طرح ٹھُس ۔ یہاں دو انتہائیں بھی ہیں اور درمیان کی پگڈنڈیاں بھی نظر آتی ہیں ۔
"غرض "،،، یہ بھی ہے کہ " مجھے ایک ذی ہوش ( باشعور نہیں ) انسان بنایا گیا ،تو مجھ سے جُڑے رشتے خوش رہیں ،، میَں بھی خوش ہوں ، ، ، مجھ سے جُڑے لوگ میرا خیال رکھ رہے ہیں ،،، میَں بھی رکھ رہا / رہی ہوں ، حساب برابر چل رہا ہے ،، سب کچھ خوشی خوشی ،، سب کچھ گُڈی گُڈ !!!" غرض " یہ بھی ہے کہ مجھے تو خدمت کرنی ہے ،، صِلہ اس دنیا میں نہ سہی اگلی دنیا میں تو ضرور ملے گا ۔
" غرض" یہ بھی ہے کہ میَں نے یہ اور یہ نیکی کی عادت اس لیۓ ڈالی کہ مجھے دنیا میں اپنی اولاد سے بھلائی ملے گی ،،، اور یہ سلسلہ چلے گا اور قرن ہا قرن چلتا جاۓ گا ۔
" غرض"۔۔۔ یہ بھی ہے کہ میَں آج بانٹوں ،،، تو کل مجھے ملے گا بھی ( احساسِ یقیں ) " غرض "۔۔۔ یہ بھی ہے کہ میَں نے خالق کی عبادت کی ، تو مجھے بھی توجہ ملے گی ،،، وہ میری سُنے گا ،، مجھے عطاکرے گا ، بے پایاں ،،، بے پایاں ۔
روحانی درجہ ،، سکون ، شانتی !!!" غرض "۔۔ دعاؤں میں تو ہے ہی " میَں نے تجھے یاد کیا ، تاکہ ۔۔ تُو مجھے یاد رکھے۔(یہ خالق کا اپنی تخلیق سے وعدہ ہے )" غرض " ۔۔۔ میں محبت کا وہ عروج نظر آتا ہے ،، جب چُنیدہ لوگوں سے ہٹ کر " انا الحق " کے نعروں سے 'منصور ' جیسے نفس ، مثال بن جاتے ہیں ،،، اور عجیب بات کہ یہ "'جذبہء غرض " متنازع بھی بنا دیا جاتا ہے ،، ہم انسان اُس رب سے محبت کو بس اپنے ہی پیمانے سے ناپ کر خوش ہوتے ہیں ،، اور بھول جاتے ہیں ،،کہ خالق کو اپنی تخلیق سے صرف "بےغرض ہی نہیں غرض مند "" ہر دو محبتیں درکار ہیں !کہ اُس خالق نے اپنے ساتھ رابطے کے لیۓ ،، " غرض مند ی " والی حاضری کو بھی قبولیت دی ہوئی ہے۔
تو گویا " غرض یا صلہ " محبت کا ایک رُوپ ہے ،، تعلق کا ایک رُوپ ہے۔ کر ڈالیۓ یہ محبت، کہ اسی میں قُربِ خالق چُھپا ہے ۔ جس کے پاس جانا ہی جانا ہے ۔ ربِ شرح لی،،،،،،الم نشرح ،، الم نشرح !!!۔
( منیرہ قریشی 18 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں