" اِک پرِ خیال "
' سپیشلسٹ یعنی ماہرین' (21)۔
مجھے ٹی وی پر" اینیمل ورلڈ " کا چینیل بہت پسند ہے ، کئ کتابیں پڑھتی ، تب بھی اتنی معلومات نہ ملتیں ، جتنی اسکے مختلف جانوروں کی ایک گھنٹے کی ریسرچ فلم دے دیتی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہاتھی پاؤں کی دھمک سے 20 میل دور تک اپنے ساتھیوں کو پیغام دیتا ہے ، یا حائینہ ( لگڑ بگا ) زمین سے منہ لگا کر اپنے ہم جنسوں تک اپنے پیغامات دیتا ہے یا شیر کی دھاڑ ، 5 میل تک سنی جا سکتی ہے وغیرہ،،،، اور یہ کہ شیر جو جنگل کا بادشاہ ہے ، کبھی کبھی ہرن کو شکار کرنے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے ،، اور ،،، یہ کہ شیروں میں بھی کچھ شیر ایسے ہوتے ہیں ، جو ہاتھی جیسے بڑے جانور کے شکار کو ٹیم ورک کے ساتھ گِرا ڈالتے ہیں ، اور شیروں میں سے ہی کچھ ایسے جنگجُو ہیں جو " دریائی گھوڑے ( ہپو پوٹیمس) کے شکار کے ماہر ہوتے ہیں ،، جو اُن سے کئی گُنا بھاری بھرکم ہوتا ہے ،، تو گویا نسلاً تو یہ سب شیر ہی ہیں لیکن انہی میں سے ہر گروپ اپنے اپنے شکار کے " ماہرین " ہیں ۔ اپنے میدان کے سپیشلسٹ !جانوروں کی دنیا کے ماہرین ہوں ، یا انسانوں کی ،،، عجیب وغریب ماہرین نظر آتے ہیں ۔ انسانوں کے اپنے سکلڈ کے ماہرین نہیں ،، بلکہ فطرتا" اپنی ذات میں کچھ " اوصاف " کے ماہرین ۔ ۔ اگر انسانوں کی نسلوں کا تجزیہ کیا جاۓ تو اقوام میں کچھ اقوام کنجوس ،، کچھ پُر مزاح اور جوشیلی ، کچھ مدبر اور مثبت ، کچھ دوستی میں پہل کرنے میں تیز تو کچھ سرد مہر اور بے زار صفات سے معمور و مشہور ہوتی ہیں ،معاشروں میں انسانوں کے انفرادی کردار کے اپنے الگ ہی طَور ہوتے ہیں ، اور یہ اثرات دراصل اُن لوگوں کی انہی ماہرانہ صفات کی عکاس ہوتی ہیں ۔ جو آپسی رشتوں میں کبھی بگاڑ اور کبھی سنوار کی تیکنیک کو ماہرانہ انداز سے آزماتے چلے جاتے ہیں ، کہ زندگی کے کینوس پر کبھی بڑے بڑے ہیپی پوٹیمس کو پچھاڑا جا رہا ہوتا ہے ، وہ رشتہ جو بہت نازک اور اہم ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے گھیرے میں ہوتا ہے جو کانوں میں وساوس کا زہر اُنڈیل رہے ہیں اور شانت روح ، انہی وساوس کے بموجب ، برداشت کے مادے میں وہ آگ اُگلنے کو تیار ہونے لگتی ہے جو اپنی ہی نہیں دوسروں کی زندگی کو بھی مشکل بنا دے ، تو گویا ایک "خاموش فطرت" ایسے شکاریوں کے نر غے میں آ جاتی ہے کہ وہ آتش فشاں بننے لگتا ہے ۔ کبھی خوفزدہ ہرنوں کی ڈار پر طنز کے تیر برساۓ جاتے ہیں ، اورمعصوم ، پاکیزہ اجسام خون ریز ہوتے چلےجاتے ہیں ، لیکن دُکھ کی کوئی آواز نہیں نکال پاتے ۔ اور کبھی ہاتھی جیسے بڑے رشتوں پرپیٹھ پیچھے سے ایسی بے زاری اور کم ظرفی کے حملے کیۓ جاتے ہیں کہ اچھے خاصے مدبر اور معزذ رشتوں کو چُوزوں کی طرح مسل دیا جاتا ہے ۔ ،،،، لیکن کبھی کبھی ایسے رحم و کرم اور مامتا سے بھر پوراور مثالی دوستی سے لبریز لوگ بھی سامنے آ جاتے ہیں ، جن کے مہربان ہاتھ ،،، نم ،محبت بھری آنکھیں ، اور روئ کے پھاہے رکھتے الفاظ ،،، بڑی سے بڑی تکلیف کو جادوئ انداز سے معطل کر کے رکھ دیتے ہیں ،، اور تکلیف میں جکڑا شخص ایسے موقع پر آسمان کی طرف شکر گزاری سے دیکھتا ہے کہ ،، یہ پہلی تکلیف دینے والے کون تھے اور نۓ مسیحا بھی کہاں سے کیسے آگۓ !!! مجھے "اینیمل پلینٹ " کے چینل کو دیکھتے ہوۓ، انسانوں اور جانوروں میں مماثلت اور متضاد ماہرانہ تیکنیک کی یکسانیت کا احساس ہوا ،، کیسے بد فطرت اور اپنی شیطانی چالوں کو چلنے والے، بے خبر لوگوں کو جا لیتے ہیں ، اور کیسے کبھی کبھی کوئ شیرنی گاۓ کے نو زائیدہ بچھڑے کو مامتا کے شدید جذبے کے تحت ، اسے کھانے میں بے بس ہو جاتی ہے ،،، تو گویا یہ بدی کے پیکر خود میں نیکی کو دریافت کر لیں تو ایک لمحے میں ایک دبی چنگاری ،،، مکمل شعلہء طُور بن سکتی ہے ۔
( منیرہ قریشی 3 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )
مجھے ٹی وی پر" اینیمل ورلڈ " کا چینیل بہت پسند ہے ، کئ کتابیں پڑھتی ، تب بھی اتنی معلومات نہ ملتیں ، جتنی اسکے مختلف جانوروں کی ایک گھنٹے کی ریسرچ فلم دے دیتی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہاتھی پاؤں کی دھمک سے 20 میل دور تک اپنے ساتھیوں کو پیغام دیتا ہے ، یا حائینہ ( لگڑ بگا ) زمین سے منہ لگا کر اپنے ہم جنسوں تک اپنے پیغامات دیتا ہے یا شیر کی دھاڑ ، 5 میل تک سنی جا سکتی ہے وغیرہ،،،، اور یہ کہ شیر جو جنگل کا بادشاہ ہے ، کبھی کبھی ہرن کو شکار کرنے سے بھی ناکام ہو جاتا ہے ،، اور ،،، یہ کہ شیروں میں بھی کچھ شیر ایسے ہوتے ہیں ، جو ہاتھی جیسے بڑے جانور کے شکار کو ٹیم ورک کے ساتھ گِرا ڈالتے ہیں ، اور شیروں میں سے ہی کچھ ایسے جنگجُو ہیں جو " دریائی گھوڑے ( ہپو پوٹیمس) کے شکار کے ماہر ہوتے ہیں ،، جو اُن سے کئی گُنا بھاری بھرکم ہوتا ہے ،، تو گویا نسلاً تو یہ سب شیر ہی ہیں لیکن انہی میں سے ہر گروپ اپنے اپنے شکار کے " ماہرین " ہیں ۔ اپنے میدان کے سپیشلسٹ !جانوروں کی دنیا کے ماہرین ہوں ، یا انسانوں کی ،،، عجیب وغریب ماہرین نظر آتے ہیں ۔ انسانوں کے اپنے سکلڈ کے ماہرین نہیں ،، بلکہ فطرتا" اپنی ذات میں کچھ " اوصاف " کے ماہرین ۔ ۔ اگر انسانوں کی نسلوں کا تجزیہ کیا جاۓ تو اقوام میں کچھ اقوام کنجوس ،، کچھ پُر مزاح اور جوشیلی ، کچھ مدبر اور مثبت ، کچھ دوستی میں پہل کرنے میں تیز تو کچھ سرد مہر اور بے زار صفات سے معمور و مشہور ہوتی ہیں ،معاشروں میں انسانوں کے انفرادی کردار کے اپنے الگ ہی طَور ہوتے ہیں ، اور یہ اثرات دراصل اُن لوگوں کی انہی ماہرانہ صفات کی عکاس ہوتی ہیں ۔ جو آپسی رشتوں میں کبھی بگاڑ اور کبھی سنوار کی تیکنیک کو ماہرانہ انداز سے آزماتے چلے جاتے ہیں ، کہ زندگی کے کینوس پر کبھی بڑے بڑے ہیپی پوٹیمس کو پچھاڑا جا رہا ہوتا ہے ، وہ رشتہ جو بہت نازک اور اہم ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے گھیرے میں ہوتا ہے جو کانوں میں وساوس کا زہر اُنڈیل رہے ہیں اور شانت روح ، انہی وساوس کے بموجب ، برداشت کے مادے میں وہ آگ اُگلنے کو تیار ہونے لگتی ہے جو اپنی ہی نہیں دوسروں کی زندگی کو بھی مشکل بنا دے ، تو گویا ایک "خاموش فطرت" ایسے شکاریوں کے نر غے میں آ جاتی ہے کہ وہ آتش فشاں بننے لگتا ہے ۔ کبھی خوفزدہ ہرنوں کی ڈار پر طنز کے تیر برساۓ جاتے ہیں ، اورمعصوم ، پاکیزہ اجسام خون ریز ہوتے چلےجاتے ہیں ، لیکن دُکھ کی کوئی آواز نہیں نکال پاتے ۔ اور کبھی ہاتھی جیسے بڑے رشتوں پرپیٹھ پیچھے سے ایسی بے زاری اور کم ظرفی کے حملے کیۓ جاتے ہیں کہ اچھے خاصے مدبر اور معزذ رشتوں کو چُوزوں کی طرح مسل دیا جاتا ہے ۔ ،،،، لیکن کبھی کبھی ایسے رحم و کرم اور مامتا سے بھر پوراور مثالی دوستی سے لبریز لوگ بھی سامنے آ جاتے ہیں ، جن کے مہربان ہاتھ ،،، نم ،محبت بھری آنکھیں ، اور روئ کے پھاہے رکھتے الفاظ ،،، بڑی سے بڑی تکلیف کو جادوئ انداز سے معطل کر کے رکھ دیتے ہیں ،، اور تکلیف میں جکڑا شخص ایسے موقع پر آسمان کی طرف شکر گزاری سے دیکھتا ہے کہ ،، یہ پہلی تکلیف دینے والے کون تھے اور نۓ مسیحا بھی کہاں سے کیسے آگۓ !!! مجھے "اینیمل پلینٹ " کے چینل کو دیکھتے ہوۓ، انسانوں اور جانوروں میں مماثلت اور متضاد ماہرانہ تیکنیک کی یکسانیت کا احساس ہوا ،، کیسے بد فطرت اور اپنی شیطانی چالوں کو چلنے والے، بے خبر لوگوں کو جا لیتے ہیں ، اور کیسے کبھی کبھی کوئ شیرنی گاۓ کے نو زائیدہ بچھڑے کو مامتا کے شدید جذبے کے تحت ، اسے کھانے میں بے بس ہو جاتی ہے ،،، تو گویا یہ بدی کے پیکر خود میں نیکی کو دریافت کر لیں تو ایک لمحے میں ایک دبی چنگاری ،،، مکمل شعلہء طُور بن سکتی ہے ۔
( منیرہ قریشی 3 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں