پیر، 10 دسمبر، 2018

"اِک پرِخیال(22)"۔

" اِک پرِخیال "
' میلہ' ( 22)۔
جب ہم کسی جھیل میں پتھر پھینکتے ہیں ، تو دائرے بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اندر یعنی پتھر کی جگہ سے دائرے بننا شروع ہوتے ہیں اور پھر یہ دائرے پھیلتے پھیلتے آخری دائرے تک معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ دیکھا جاۓ تو " زندگی " کے لفظ میں یہ دائرے ہی چُھپے ہوۓ ہیں ۔ بچہ دنیا میں آیا ،،، اور اس سے جُڑے دائرے بنتے چلے گۓ ، آخری دائرہ آیا اور بچہ ،،، جو، اب بوڑھے وجود میں ڈھل چکا ہوتا ہے ، اسی معدوم ہوتے دائرے کا آخری چکر مکمل کر لیتا ہے ۔
اگر ہم کسی میلے میں جائیں ، تو رنگوں روشنیوں ، اور آوازاوں کا ایک طوفان رقص کناں ہوتا ہے ۔ ہر ذی نفس ، اپنی اپنی دلچسیوں کو تاکتا ، جھانکتا ، آنکتا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے ،، تاکہ اُس جگہ تک پہنچے ، جہاں اس کی اصل دلچسپی ہو۔اپنی پسندیدہ جگہ پر میلے میں آیا انسان ،، ذیادہ دیر تک رُکتا ہے ، تاکہ اپنے آپ کو سیراب کر لے ،،، کیا پتہ پھر یہ میلہ ، یہ گہما گہمی ہو ، نا ہو ۔
اگر ہم میلے کے کسی نیم اندھیرے کونے میں خود کو محفوظ کر لیں ،، تو ہم حیران کن انداز سے خود کو محظوظ ہوتے محسوس کریں گے ،، بالکل ایسے ہی جیسے ہم نے سلمانی ٹوپی پہن لی اور ہم تو سب کو دیکھ سکتے ہوں ، لیکن کوئ ہمیں نہ دیکھ پاۓ ۔ میلے کے داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہوں ،، اور پھر بتدریج چہرے کے تاثرات ، دیکھتے جائیں ،، ۔
میلے میں داخل ہونے والا چہرہ ،،، تجسُس ، اور پُرجوش جذبوں سے لبریز ہو گا ۔ میلے کا ہر کونا اسے اپنی طرف کھینچتا ، بُلاتا جاتا ہے ۔ وہ کبھی دائیں کبھی بائیں ،، کبھی پیچھے کبھی آگے قدم بڑھاتا چلا جاتا ہے ، یوں جیسے وہ رقص میں ہو ،،،، آگے بڑھنے کے لیۓ بندہ خود کو ذبردستی آمادہ کرتا ہے ،، ورنہ جوش اتنا بھرا ہوا ہے کہ یا تو ایک لمحہ رکنے کادل نہیں چاہ رہا یا،،،ایک ہی جگہ رُک کر سارا دورانیہ گزارنے کو دل چاہ رہا ہے۔
لیکن بہ مشکل تجسُس کا جذبہ حاوی کرتے ہوۓ ،، آگے کی دلچسپیوں کی طرف متوجہ ہونا بھی انسانی فطرت ہے ۔ اور جب یہ پُرجوش نفس آگے بڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے ،، آگے تو بہت کچھ نیا ہے ،، لیکن، رات کی چکا چوند روشنیوں ، آوازوں کے زیر وبم ، اور ، رنگوں کی بہتات نے اب بندے کو تھکانا شروع کر دیا ہے ۔ آپ نے نیم اندھیرے کونے سے دیکھا کہ " میلے کے دائرے میں لگے تمام سٹال اُس نے دیکھ ڈالے ، بہت کچھ خریدا بھی ، بہت کچھ دیکھا بھی ، بہت سے لوگوں سے ملا اور باتیں کیں ۔
لیکن اب واپسی کا وقت ہے ،، کہ روشنیاں معدوم ہو چلی ہیں ،، لوگ بھی کم ہوگۓ ہیں ،، آوازیں بھی مدھم ہو چکی ہیں ،، تو گویا اب واپسی " ضروری ہے " ۔ بندے کا چہرہ تھکاوٹ سے چُور چُور ہے ۔ اس کے قدم اب تھرک نہیں رہے ،، بہ مشکل اپنے بوجھ کو اور اپنے ہاتھوں میں پکڑے سامان کے بوجھ کو اُٹھا پا رہا ہے ،، ،،،، میلے کے اندر آنے والا پُر شوق ، پُر جوش ، پُر تجسُس چہرہ ،، چند گھنٹے گزار کر واپس اتنے تھکےماندے انداز سے جا رہا ہوتا ہے ،جیسے یہ سارا میلہ اُسی نے ارینج کیا تھا ، یہاں کے تمام کردار ، اسی نے ٹرینڈ کیۓ تھے ،،، اور اب واپسی پر علم ہوا کہ " میَں نہ بھی ہوتا تو ، میری جگہ کوئی اوَر ہو جاتا ۔ میَں خواہ مخواہ صرف پھِر پھِر کر ہی تکان سے چُور ہو چلا ،،، اور اب " ہر چیز بےمعنی سی لگ رہی ہے " ،،،،،،، " اور یوں جھیل پر پھینکے گئے پتھر سے بننے والے آخری دائرے کی طرح "معدومی کیفیت "، واپسی کا راستہ دکھاتی ہے "۔ بندہ اتنا لدا ہوا ہو کر بھی " خالی " سا ہو کر آخری دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" وِچو وِچ میلہ ،،، ( زندگی کے درمیان ایک میلہ سجا )۔
آسے پاسے نیرا ،،، ( مگر میلے کے آس پاس اندھیرا ہے )۔
میلے وِچ رَونڑکاں ،،، ( میلے کے اندر رونق کا عروج ہے)۔
میلے بآر تتیاں وآواں ،،، ( میلے سے باہر گرم ہواؤں کو راج ہے)۔
نفس پایا ، چِیڑا رانگلڑاں ،،، ( نفس پر رنگین دوپٹہ پڑا ہوا ہے )۔
میلے چے انکھاں چکا چوند ،،( میلے کی چکا چوند سےآنکھیں کھل نہیں
رہیں)۔
کیَڑی حالت اے سچی ،،، ( کون سی حالت کو اصل جانا جاۓ )۔
میلے اندر ، یا میلے بآر ،،، ( اس رونق میلے کی حالت اصل ہے )۔
دِلے اندر، یا دِلے بآر ،،، (دل کے اندر یا دل کے باہر کی حال
اصل ہے )۔
( منیرہ قریشی 10 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں