"میں مُوسٰیؑ کا عصا ہو گئی تھی"
میں وہاں کھڑی تھی شوکیس کے ساتھ جڑ کر ،میں عصا ہو گئی تھی۔۔۔میں کلیم اللہ کا عصا ہو گئی تھی۔
پتا نہیں میں عصا تھی یا اژدھا تھی جسے ابھی اپنے سامنے تیزی سے پارے کی طرح رینگتے، بپھرے سانپوں کو نگلنا تھا۔
میں نے وہاں یحیی علیہ سلام کا لوہے کا ہاتھ دیکھا، داؤد علیہ سلام کی تختی دیکھی جس پر کچھ کنندہ تھا مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔بعض باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔بعض باتیں سمجھ میں نہ آئیں تو اچھا ہے۔
پتا نہیں میں عصا تھی یا اژدھا تھی جسے ابھی اپنے سامنے تیزی سے پارے کی طرح رینگتے، بپھرے سانپوں کو نگلنا تھا۔
میں نے وہاں یحیی علیہ سلام کا لوہے کا ہاتھ دیکھا، داؤد علیہ سلام کی تختی دیکھی جس پر کچھ کنندہ تھا مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔بعض باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔بعض باتیں سمجھ میں نہ آئیں تو اچھا ہے۔
۔"اے ایمان والوں تم ایسی چیزوں کی نسبت سوال مت کیا کروکہ اگر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں مشقت میں ڈال دیِں"۔
ابراہیم علیہ سلام کی نسبت سے بھی کچھ دیکھا تھا پتا نہیں یاد کیوں نہیں آتا اور یوسف علیہ سلام کی پگڑی، زردی مائل سفید، سادی اور پاکیزگی کی مشک جس سے پھوٹتی تھی۔۔
پر میں عصا کے سامنے منجمد ہو گئی تھی۔لوگ گزرتے جاتے تھے میں اس پر نکلے چھوٹے چھوٹے نقطوں کی صورت بڈ پوائنٹس دیکھتی تھی، گنتی تھی۔۔۔ لوگ گزرتے جاتے تھے میں اسے چھونا چاہتی تھی۔۔۔ لوگ گزرتے جاتے تھے میں اس کے رنگ کو آنکھوں میں ثبت کر لینا چاہتی تھی۔
پھر میں نے چپکے سے کوٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور گارڈ کو پتہ لگے اس سے پہلے تصویر کھینچ لی۔۔زندگی میں کیے چند بےایمانی کے کاموں میں اضافہ ہوا تھا پر اچھا لگا تھا ،دل کو تسلی ہو گئی تھی جیسے میں الو داگ کے سامنے سے ہٹنا نہیں چاہتی تھی پھر میں نے وہاں کی گھاس توڑ کر محفوظ کر لی تو مجھے واپسی آسان ہو گئی۔
میرے اندر کا شمس تبریز مجھ سے کہتا ہے خود کو اتنا پاکیزہ مت بنا اور سمجھ کہ لوگ تجھ سے خوف کھانے لگیں اور خود کو اتنا گدلا مت بنا اور سمجھ کہ لوگ تجھ سے کترانے لگیں۔
بالک انسان بن۔۔۔ انسان، فرشتہ نہیں ۔۔۔
پھر میں نے سر اٹھایا اور رب کو پکارا۔اے اللہ تو مجھے ایسی جگہوں پر کیوں بلا لیتا ہے، مجھے یہ سب کیوں دکھاتا ہے۔میری اوقات تو یہ بھی نہیں کہ میں جنت کے بارے میں سوچوں۔میری اوقات اور خواہش بس اتنی ہے کہ میں دھول ہو جاؤں۔
کومل ذیشان
اکتوبر ٢٠١٧
ابراہیم علیہ سلام کی نسبت سے بھی کچھ دیکھا تھا پتا نہیں یاد کیوں نہیں آتا اور یوسف علیہ سلام کی پگڑی، زردی مائل سفید، سادی اور پاکیزگی کی مشک جس سے پھوٹتی تھی۔۔
پر میں عصا کے سامنے منجمد ہو گئی تھی۔لوگ گزرتے جاتے تھے میں اس پر نکلے چھوٹے چھوٹے نقطوں کی صورت بڈ پوائنٹس دیکھتی تھی، گنتی تھی۔۔۔ لوگ گزرتے جاتے تھے میں اسے چھونا چاہتی تھی۔۔۔ لوگ گزرتے جاتے تھے میں اس کے رنگ کو آنکھوں میں ثبت کر لینا چاہتی تھی۔
پھر میں نے چپکے سے کوٹ کی جیب سے موبائل نکالا اور گارڈ کو پتہ لگے اس سے پہلے تصویر کھینچ لی۔۔زندگی میں کیے چند بےایمانی کے کاموں میں اضافہ ہوا تھا پر اچھا لگا تھا ،دل کو تسلی ہو گئی تھی جیسے میں الو داگ کے سامنے سے ہٹنا نہیں چاہتی تھی پھر میں نے وہاں کی گھاس توڑ کر محفوظ کر لی تو مجھے واپسی آسان ہو گئی۔
میرے اندر کا شمس تبریز مجھ سے کہتا ہے خود کو اتنا پاکیزہ مت بنا اور سمجھ کہ لوگ تجھ سے خوف کھانے لگیں اور خود کو اتنا گدلا مت بنا اور سمجھ کہ لوگ تجھ سے کترانے لگیں۔
بالک انسان بن۔۔۔ انسان، فرشتہ نہیں ۔۔۔
پھر میں نے سر اٹھایا اور رب کو پکارا۔اے اللہ تو مجھے ایسی جگہوں پر کیوں بلا لیتا ہے، مجھے یہ سب کیوں دکھاتا ہے۔میری اوقات تو یہ بھی نہیں کہ میں جنت کے بارے میں سوچوں۔میری اوقات اور خواہش بس اتنی ہے کہ میں دھول ہو جاؤں۔
کومل ذیشان
اکتوبر ٢٠١٧
۔۔۔۔۔
کومل ذیشان کی اس پوسٹ پر میرابےساختہ اظہار۔۔۔ ،، وہ جوان العمر ذہن ہے جس کی بالغ النظری اُس کی تحریر سے ظاہر ہوتی ہے ، مجھے اُس کی نثر ، نظم اور پینٹگ نے بہت متاثر کیا ،، تُرکی کے سفر میں مجھے بھی "مشہور میوزیم " توپ کاپی " میں انبیاء اور صحابہ رض ،، کے زیرِ استعمال اشیاء دیکھنے کا موقع ملا ،،، لیکن کومل وہ خوش نصیب آنکھ اور دل لے کر پہنچی ،، جہاں کے ذکر سے اس کی تحریر سے روشنی پھوٹتی محسوس ہوتی ہے ، خصوصا" درجِ ذیل پیرا گراف جو اُس نے دو دن پہلے شیئر کیا ،،، اور مجھے کومل کو سراہنے کے چند جملے میسر آ گۓ ، ! جو اپنے بلاگ میں شیئر کر رہی ہوں ۔
" رُتبہ "
خوش قسمت ہے وہ ،
کم عمری میں جسے آگاہی دی گئ
اور جس کی سوچ کو رُتبہ دیا گیا
اور جغادری اذہان الفاظ کو تلاشتے ، تراشتے رہ گۓ
خوش قسمت ہے وہ ،
جس کے ہونٹوں نے عقیدت و محبت کے قطرہء تریاق کو محسوس کیا ،،،
اور رحمت کے سنگِ میل کو چُھو لیا
چُوم لیا ،،،
اور اپنا ہاتھ آنکھوں اور ماتھے سے مَس کیا
خوش قسمت ہے وہ
جس کی دعاۓ سکون ، حقیقت میں ڈھل گئ
( کومل بیٹی کیلۓ محبت کے ساتھ منیرہ قریشی 11 مارچ 2019ء )۔
" رُتبہ "
خوش قسمت ہے وہ ،
کم عمری میں جسے آگاہی دی گئ
اور جس کی سوچ کو رُتبہ دیا گیا
اور جغادری اذہان الفاظ کو تلاشتے ، تراشتے رہ گۓ
خوش قسمت ہے وہ ،
جس کے ہونٹوں نے عقیدت و محبت کے قطرہء تریاق کو محسوس کیا ،،،
اور رحمت کے سنگِ میل کو چُھو لیا
چُوم لیا ،،،
اور اپنا ہاتھ آنکھوں اور ماتھے سے مَس کیا
خوش قسمت ہے وہ
جس کی دعاۓ سکون ، حقیقت میں ڈھل گئ
( کومل بیٹی کیلۓ محبت کے ساتھ منیرہ قریشی 11 مارچ 2019ء )۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں