" اِک پَرِ خیال "
' چاشنی '
پچھلے دنوں ہم نوجوانی کے دور سے بنی " پکی سہیلیاں " ایک چھت تلے اکٹھی ہوئیں ،،، ایسا 'اِکٹھ ' دس سال پہلے بھی ہوا تھا ، اور اس دوران بھی ہمیں ایک ، دن یا چند گھنٹوں کے لۓ ملنا ہوا لیکن دس سال بعد ہم پورے " آٹھ دن کے لیۓ دوبارہ پندرہ یا اٹھارہ سال " کی لڑکیاں بن گئیں ۔ دوستی بھی کیا رشتہ ہوتا ہے اگر وہ بےلوث ہو ،، کہ جب ملے تو یوں جیسے ہم تو کہیں گئی ہی نہیں تھیں ۔
؎ اچھی کتابیں اور سچے لوگ
ہر کوئی کہاں سمجھ سکا ہے !
اور 1964ء سے چلی دوستی میں کوئی نشیب و فراز بھی نہ آۓ تو میرا خیال ہے ایسی دوستی " بےمثال یا نایاب " کہی جا سکتی ہے ۔دراصل تو ہم سات سہیلیاں بہت قریبی دوست رہیں ، جن میں سے اب تین کا قیام جنت میں ہو چکا ہے ،،، لہٰذا ہم بقایا چار جب ملتے ہیں تو یوں جیسے ابھی بھی وہی نویں دسویں کا دور ہی چل رہا ہو ،،، ہم اپنی دوستی کے ہر لمحے کو بھر پور انداز سے انجواۓ کرتی ہیں ۔ میَں ، رفعت ،اور رخسانہ تو ایک ہی شہر کی رہائشی رہیں ، اور یوں اپنی خوشیوں غموں میں شاملِ احوال رہتی ہیں ،،،، لیکن نسرین چالیس دہائیوں سے امریکی شہری بنی ہوئی ہے ، جس کی پاکستان آمد ،،، ہمیں اسی طرح پُرجوش ،پُر مسرت اور شدتِ انتظار میں مبتلا کر دیتی ہے جیسے اپنے بچپن میں عید کے دن کا انتظار ہوتا تھا ۔ ،، اتفاق سے میرے پاس رہائش کا کوئی مسلہء نہیں ہوتا اسی لیۓ میَں پہلے ہی اپنے گھر سب سہیلیوں کے ٹھہرنے کا انتظام کر لیتی ہوں ،،، پہلی دفعہ ہم 25 سال بعد ملیں تو یوں کہ ہمیں ایک مرتبہ یہ جملہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی " ارے اب تمہاری یہ عادت ہو گئی ہے "! ،،، یا ،،، " کھانے میں کس قسم کا پرہیز چلے گا " !،،،، اور ہماری محبت بھری دوستی عین وہیں سے شروع ہوئی ، جہاں 25 سال پہلے اس کے امریکا جانے کے وقت کی تھی ،، سبھی فریق " ایٹ ایز " ہو گۓ ،،، اور اس وقت وہ پانچ دن گزار کر پاکستانی سہیلیوں کو واضع کر گئی کہ مجھے صرف " دوستی " کا مضبوط ناطہ چاہیۓ ،،، اَور کوئی تکلف نہیں ! اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا نے اس کا کچھ نہیں " بگاڑا " تھا ، ساتھ اس نے واضح کر دیا میرے لیۓ ادھر اُدھر سیر کا کوئی اہتمام نہ کرنا ،، میَں صرف تم لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی ہوں ، یا بہت ہوا تو نزدیکی بازار گھما دینا ۔
تو قصۂ مختصر ،، انہی چھٹیوں میں نسرین سخت گرمی میَں آئی ، لیکن ہم " اولڈ سِٹیزن " کے لیے تو بہار لے آئی ۔حسبِ سابق رفعت اور رخسانہ بھی 8 دن کی میری مہمان بنیں ،، اور کیسے آٹھ دن کچھ اپنی کہتے ،، کچھ دوسروں کی سُنتے گزری ، کہ پتہ ہی نہ چلا اور آٹھویں دن نسرین کو رخصت بھی کر دیا ،،، سب سہلیوں کے جانے کے بعد میری نوخیز پوتی مجھ سے پوچھنے لگی ،، " آخر آپ لوگ آٹھ دن کیا باتیں کرتی رہیں ، مجھے حیرت ہے ، آپ لوگ کسی وقت بھی بور نہیں ہوئیں " ؟ مجھے اس پر بہت پیار بھی آیا ، اور اِس نئی نسل کے لیۓ افسوس بھی ہوا کہ آج کے بچے محبت ، خلوص ، ایثار ، مہمان نوازی ، کھلے دل سے اپنے گھر اور اپنے وقت کو حاضرِ خدمت کے جذبوں سے سرشار " خالص دوستی " ،،، کے لُطف سے محروم ہیں ۔ آج کے بچے کسی کو اپنا " سچا دوست " نہیں کہہ سکتے ، آج کے بچے کسی کے لیۓ یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ " یہ میرا / میری بےلوث دوست ہے ۔ آج کے بچوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ " بڑے بھی ان دوستیوں کو مکمل چھان بین کیۓ بغیر دوستی رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ، بلکہاعتبار ہو بھی جاۓ ، تو اُن گھروں میں رہنے کی اجازت نہیں مل سکتی ۔شاید اسی لیۓ ہماری موجودہ نسل نے " سیل فون " کو اپنی سہیلی / دوست بنا لیا ہے ۔آہ،،،،مشینی دور کے مشینی رشتے !! جن میں خوبصورت محبت بھرے جذبے نا پید ہیں ۔
ہمارے بچے ماحول اور معاشرے میں" اقدار کی پامالی " کے باعث بہت سی " چاشنیوں " سے محروم رہ گۓ ہیں ۔ انھیں یقین ہی نہیں آتا کہ امریکا سے ایک سہیلی صرف اس لیۓ واہ کینٹ آتی ہے کہ وہ باقی زندہ موجود " سہیلیوں سے ملے ۔ بلکہ کچھ دن رہتی ہے ۔ حالانکہ اس شہر میں اس کا کوئی رشتہ دار نہیں رہتا کہ جس کے بہانے وہ آۓ ۔ آج کی نسل کا جذبوں کی چاشنی پراعتبار اور اعتماد اگر ریزہ ریزہ نہیں ہوا ، تو کم از کم متزلزل ضرور ہو چکا ہے ۔ اللہ پاک ہمیں وہ توفیق عطا کر دے کہ ہم " پرانی پیڑھی " اِس اعتماد اور اعتبار کو بحال کر سکیں ،آمین !۔
میَں نے اپنی پوتی کو مُستننصرحسین تارڑ کا یہ قول سنایا " ستارے اور ( پُرخلوص) دوست ، دُور بھی ہوں تو اُن کی چمک ہم تک پہنچتی رہتی ہے"۔ کوئی شک نہیں وہ ابھی قائل ہونے کی عمر میں نہیں ہے لیکن جب بھی اِس نئی نسل کے ذہن نے اسے قائل کیا ، تو وہ ایسی محافل کے لیۓ وقت نکالنے کا سوچے گی،یہ وہ نئی نسل ہے جو کسی دوسرے کے اظہارِخیال ، یا تجربے سے جلد متاثر نہیں ہوتی ۔اللہ اِس ذہین فطین نسل کی رہنمائی کرے آمین ، یہی پُرانی ، لیکن بےغرض دوستیاں جب بھی باہم مل بیٹھتی ہیں ، تو پرانی یادوں کی البم نکل آتی ہے ، ہر تصویر ، ہر بندے کے ہر اینگل کو پھر سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے ،، پُرانی ،، دہرائی اور معلوم باتیں پھر دہرائی جاتی ہیں ، بلاوجہ کی باتوں پر خوب مزے لیتے اور ہنس ہنس کر دوبارہ سولہویں سال کی لڑکیاں بن جاتی ہیں ، اور یوں ہم سب زندگی کے اگلے دوارنیۓ کے لیۓ چارج ہو کر،اُسی روٹین کی دنیا کو پھر سے خوش دلی سے گلے لگا لیتے ہیں ،،جس سے کچھ دن پہلے تک شدت سے بےزار تھے ۔
" شاید شیخ سعدی ؒ کا قول ہے " وہ شخص امیر ترین ہے جس کے پاس پُرخلوص دوست ہوں " !
( منیرہ قریشی 11 اگست 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں