" اِک پَرِ خیال "
'ستاروں پر کمند'
نوجوان محمد شاہ زیب صدیقی،،، جس نے " فلکیاتی دنیا" کے عنوان سے اپنا پیج بنایا ہوا ہے ،، اور بہ زبانِ اردو ،، وہ ہمیں آسمانوں کی سیر کراتا رہتا ہے ، اور ہم انٹرنیٹ کی دی معلومات کے علاوہ بھی ایسے گروپس کے ذریعے بہت کچھ سیکھتے چلے جاتے ہیں ۔ ،،، پچھلے دنوں اس نے ایک عنوان لکھا ،" کچھ ایسی سائنسی سچائیاں جن کو ہضم کرنا مشکل ہے " اس کے 14 نکات ہیں جن میں سے پہلا پوائنٹ جس نے واقعی مجھے دنگ کر دیا ہے ،، اور کبھی کبھی کوئی لفظ ، کوئی واقعہ ، کسی شخصیت سے ملاقات ،کوئی انوکھی معلومات انسان کی سوچ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے ۔ ،،،۔
اس پہلے پوائنٹ کے مطابق" اگر آپ اپنے جسم میں موجود تمام ڈی این اے کو دھاگے کی طرح کھول کر سیدھاکر دیں ، تو اِن کی لمبائی 55 ارب کلو میٹربنتی ہے ۔اِس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ زمین کا پلوٹو سے فاصلہ6 ارب کلو میٹر بنتا ہے، یعنی آپ ایک انسان کے ڈی این اےکے ذریعے ہمارے نظامِ شمسی کو ( سورج سے پلوٹو تک ) 4 مرتبہ لپیٹ سکتے ہیں ۔ پھر بھی اربوں کلو میٹر ' ڈی این اے' کا دھاگاآپ کے پاس باقی رہے گا"۔
جب سے میَں نے یہ معلومات پڑھیں ، جن سے پہلے لاعلم تھی ۔ میَں اس خالق و مالک کی محبت کو نئے سِرے سے نئے انداز سے محسوس کر رہی ہوں ۔ اس نے انسانی جسم کو کیا اِسرار بخشا ہے !کہ اگر ڈی این اے کی لمبائی اتنی ہے تو اسکے نہایت باریک نقطوں کی طرح اس شخص کا ڈیٹا بھی اسی طرح محفوظ کر دیا گیا ہو گا ۔اور ایک انسان کی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں،جو لاتعداد ہوں گی ،، اسی لیۓ شاید کائنات کی اِس مخلوق کو"اشرف المخلوق" کہا گیا ۔انسان کی اس چھوٹی سی "سم" میں ماضی،حال ، کے تجربات ،،مستقبل کی منصوبی بندیاں ، تدبر ، تفکر ، اَن تھک ریسرچ ، اور اپنے مزاج کے نشیب و فراز کو نبھاتے نبھاتے ،،، ایک انسان اللہ کی بنائی دنیا کے کونے کھُدرےکو کھنگال ڈالتا ہے اور ،،،، بھی عمیق سمندروں کی دنیاؤں کو تلاش کر لیتا ہے،اور پھر ستاروں پر کمند ڈالنے کا وقت آ پہنچتا ہے ،، جو سوچ ، اور کاغذی تصورات ،اور لیب کی دنیا سے ماوراء ،، قدموں سے چھُو لینے کی کامیابی بنتی چلی جاتی ہے۔گویا آخری الہامی کتاب قرآنِ حکیم کے مطابق ،،،،،،
" اور ہم نے اس کائنات کو تمہارے لیۓ مسَخر کر دیا ہے "
یہ آیت ، نہ صرف انسان کی سوچ کو بلندیاں دے رہی ہے بلکہ اُسےاِس کی ارفعٰ صلاحیتوں کا قبل از وقت ہی احساس دلا رہی ہے ۔انسان ہر ریسرچ کرنے کے بعد، سائنس کی ہر دریافت کے بعد ،، اپنے خالق کے مزید قریب ہو رہا ہے ، ( اگر وہ خالق کا قُرب چاہنے والا ہے تو ) ۔
اور ہم انسان کیسے اس عظمت کو اس اعلیٰ مقام کو ایک دوجے کے لیۓ لگائی بجھائی ، غیبت ، چالبازیوں ، الزام تراشیوں ، اور شاطرانہ چالوں کی نظر کر دیتے ہیں ،،، ! اور احساسِ زیاں سے غافل ، قبر کے اندر جا سوتے ہیں ! محبت ، اَن تھک محنت ، اور خیر پھیلاؤ کے مشن کو بھُلا کر تہی دامن ہی اس حسین اور توانائی سے بھرپور وقت اور دنیا کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ محض شیطان کے بہکاوں میں آکر ۔
ہماری ڈی این اے میں ہماری تقدیر کے راز بھی محفوظ کر دیۓ گۓ ہیں ،، اور اب انسان ان رازوں کو بتدریج دریافت کرتا چلا جا رہا ہے ، جیسے کچھ عرصہ پہلے تک تار گھر کی ،مخصوص " ٹِک ٹِک " کے بعد الفاظ کا روپ دینے والے ماہرین موجود تھے اور ہیں ، ،، یا ہاتھوں کی لکیروں کی چھوٹی بڑی سبھی لکیروں کی سمتوں کو ایک معنی ، ایک پیغام سمجھنے والا پامسٹ جب ماہر بن جاتا ہے تو وہ ہمارے ہی مستقبل کو ہم پر عیاں کر رہا ہوتا ہے ،، اور ہم کتنے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں ۔ کہ کیا پیشن گوئیاں ہیں ،، کیا ذہانت ہے!!! اور جب سائنس نے انسانی ڈی این اے کا تفصیلی ڈیٹاسامنے لا رکھا ہے تو اب ہم یہ کیوں کہتے ہیں کہ " انسان سائنس کی اس دریافت کو ہضم نہیں کر پا رہا " ؟؟؟ انسان نے خود اپنی دریافت کردہ موبائل کی نہات چھوٹی سی " سِم " سے دنیا جہان سے رابطہ کر لیا ہے ، تو ڈی این اے کی سِم کے خالق پر شک کیوں ؟؟؟
حضرتِ علامہ اقبال ؒ نے کیا واضع پیغام دے دیا تھا ،۔
ؔ تُو رازِ کُن فکاں ہے ، اپنی آنکھوں پہ عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا ، خُدا کا ترجماں ہو جا !!۔
کچھ ایسا ہی بُلھے شاہؒ نے فرمایا تھا ،،،۔
کُن فیکون ہالے کل دی گل اے
اَسی پہلے پینگاں لائیاں
( کُن فیکون تو ابھی کل کی بات ہے ، ہم انسان تو اُس سے بھی پہلے موجود تھے )
( پینگاں لائیاں ،،رابطے میں تھے ، اس خالق کے ساتھ عشق میں )
( منیرہ قریشی 24 اگست 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں