" اِک پَرِ خیال "
ہجرت " ،،، ( منیٰ جاتے سمے )۔"
اور آخر کار ہمارے 40 /41 دن سرزمینِ حجاز میں گزارنے کے اصل مقصد ، کا لمحہ سامنے آگیا ،،، ہمارے گروپ نے نہایت ضروری سامان ساتھ لیا ، نہانے ، تیار ہونے اور پھر عزیزیہ کی جس ہاسٹل ٹائپ عمارت سے باہر آکر سڑک کنارے بنے اینٹوں کے چبوترے پرآ کربیٹھے،،، تو بیٹھے ہی رہ گئے ۔کیوں کہ ہمیں ظہر پڑھ کر فوراً باہر حاضر ہونے کو کہا گیا تھا ،، اور تسبیحوں پر اپنے رب کی ثناء کرتے کرتے عصر کا وقت ہو گیا ،، عمارت کے اندر جا نہیں سکتے کہ " بس پہنچ گئی تو انھیں کیسے پتہ چلے گا کہ چھے ،،، افراد کہاں ہیں ؟، ہیں بھی یا چلے گۓ ! یہ ہی سوچ کر مرد حضرات نے کہا ہم جلدی سے نزدیکی مسجد میں ( جو پندرہ بیس قدم دور تھی ) نماز پڑھ آتے ہیں ، خواتین ہمارے واپسی پر نماز پڑھیں ۔ مرد بھی نماز پڑھ کر آگئے ، خواتین نے بھی ادا کر لی ،، بس کا نام نہیں ، چبوتروں پر بیٹھے ، گزرتی ٹریفک کو دیکھتے ، تمام احرام والوں کی شکلوں پر چھاۓ کچھ تفکر ، کچھ بےزاری ، کچھ اُلجھن کے تاثرات محسوس ہوۓ ۔ آہستہ آہستہ یہ ہی تاثرات شاید ہمارے چہروں پر بھی آ چکے ہوں گے ،، کیوں کہ ہم آپس میں اب کوئی بات نہیں کر رہے تھے ۔ بس ہمارا ہر تائثر " سراپا انتظار " کا لیبل بنا ہوا تھا ، نمازِ مغرب کا وقت ہوا ہی تھا کہ بسیں پہنچ گئیں اورسب 25/26 افراد نہایت بےصبری سے اندر سیٹوں پر بیٹھ گئے ،، مغرب ہم نے تو بس میں ہی ادا کر دی کہ فاصلے کا تو اندازہ تھا کہ کم ہے لیکن ،، رَش کا اندازہ منیٰ کے قریب پہنچ کر ہوا ۔ جیسے ہی ہم اس کی حدود میں داخل ہوۓ ،، رَش تو تھا ہی ،،، مزید ہمارا ڈرئیور ، نہ صرف بے زاری ، بلکہ قدرِ غصے میں آیا ہوا تھا کہ اسے اِس " آسیان " والے گروپ کا داخلی گیٹ کہیں نہیں مل رہا تھا ،، آخر اس نے سواریوں کو اللہ توکل ایک جگہ اُتارا اور خود فوراً چلا گیا ،، کچھ شُرطوں ( پولیس )سے کسی طرح " آسیان " گروپ کی سمت معلوم ہوئی ۔ اور قریبا" 25/20 منٹ مزید چلنے کے بعد ہم اپنے خیموں میں پہنچ گئے، ، مردوں کا بڑا خیمہ ،، ہم خواتین کے ساتھ والا تھا اور ایک کونے سے پیغام رسانی ہو سکتی تھی ، اسی سہولت کے تحت ، جب اپنی اپنی جگہ سے شناسائی ہو گئی ، تو گروپ کے تینوں مرد حضرات نے چاۓ پینے کی تجویز دی ،، اور ہم تین خواتین بھی خیموں سے ہٹ کر ایک چوڑی کھلی سڑک پر پہنچ گئیں ۔ کچھ چھوٹے سٹالز کی صورت بنی دکانوں سے چاۓ کے کپ لا دیۓ گئے اور سڑک کنارے بنی ایک پُلی پر بیٹھے ،، چاۓ کے پہلے گھونٹ نے ، تھکن بھی دور کر دی اور ، تفکر بھی ۔۔ ۔۔۔کتنا تھوڑا سا سفر تھا ،،،صرف " چند میل "،،،، لیکن پہنچنے کے لیۓ سواری کے انتظار نے ،، اور خیموں تک میں جگہ کی پہچان کی فِکر نے ،،، مقصدِ حاضری ،، اور فوکسِ اعلیٰ و اکبر ،،، کو آؤٹ آف فوکس کر دیا تھا ،، چاۓ جیسی بےحقیقت چیز کی اہمیت یہ ہوئی کہ یاد آگیا ،، یہ کون سا مقام ہے؟ اور ہم کتنے خوش نصیب ،، اور ہمارا یہاں آنا کس قدر اہم ترین دن ،، جس دن کے لیۓ ہر مسلمان زندگی کے لمحہء آخر تک کی " حسرت " لیۓ ہوتا ہے ۔ آہ ،،، یہ اتنے کم فاصلے کی " ہجرت " نے دلوں کو دنیاوی کیوں ، کب ،کیسے کی " سکاچ ٹیپ " میں لپیٹ دیا تھا ، حالانکہ ضروری سامان ساتھ تھا ،جیبوں میں نقدی بھی تھی ، لیکن شیطانی وساوس نے گھیرا تنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی ،، اور ہم بھی اس کے حربوں کو آسانی دیتے چلے گئے،،، ہم تو اپنے پیارے اللہ ،، اپنے پیارے رَب ،، اپنے والی وارث کے میزبان تھے ، وہ بھلا ہماری خاطرداری میں کیسے کمی آنے دیتا ۔ ،،،، وہ جو لطیف وخبیر ، وبصیر ہے ، جو ہمارے " پَرِِخیال " کو بھی جاننے والا ہے ،،، وہ ہماری ہجرت کو کتنی اہمیت دے رہا تھا کہ پہنچتے ہی تھکاوٹ دور کرنے اور ہمیں بشاش کرنے کے لیۓ ، ہمارے ہاتھوں میں گرم گرم چاۓ پکڑا دی ۔ نم آنکھوں اور شرمندہ دلوں کے ساتھ ، ، اللہ پاک سے شیطان سے پناہ چاہی ،، اس کی محبت ، رحمت کی طلب چاہی ،،، اور اس نے آسانیوں کے سلسلے جاری رکھے ،، دل نے لِسٹ پیش کرنے میں دیر نہیں کی، اے رحیم و کریم وقتِ نزاع ،،، اوقاتِ قیامِ قبور ،،، اور یومِ حشر میں بھی لمحہ بھر میں " اُس ہجرت کی تکالیف " کو دور کردینا ،،اور" طمانیت و سکینت "کی چاۓ ہمارے ہاتھوں میں تھامے ہو ،،، اور تیری رحمت کی پھوار سے بھیگے ہوں ،،،، " بے شک ،،،!"" تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھُٹلاؤ گے ""۔
( آج 8 اگست 2019 ہے ،، اور جب بھی حاجی منیٰ کی طرف جانا شروع ہوتے ہیں ،، مجھے دسمبر 2005ء میں کیۓ گۓ حج کا لمحہ لمحہ یاد آنے لگتا ہے ،، اور میرادل اپنے رب کی شکر گزاری سے لبریز ہوتا چلا جاتا ہے کہ ہمیں بھی اُس " شہنشاہوں کے شہنشاہ " نے مہمان نوازی کا شرف عطا کیا تھا ،)۔
بس یہ ہی دعا ہے وہ اُس سرزمین کے سجدوں کو قبول فرما لے ،، ہمارے ""دِلوں کی ہجرت "" کو قبول فرما لے ،، جسمانی ہجرت قبول فرما لے،بھلے وہ ہجرت جو چند دنوں کی تھی ،، آنکھیں اور دل تمام تر دنیا کی آسائشوں ، دلنواز اولادوں ، مال و دولت سے پھیر دیۓ گۓ تھے ،، اور چاروں سمتوں میں صرف تیری محبتوں کی بُوٹی کی مُشک مسحُور کر رہی تھی ، تیرے آگے ایک ہی لفظ کہہ رہے تھے ، الحمدُ للہ رب العالمین لبیک الھمَ لبیک ،،، آمین ثم آمین۔
یہ ہی الفاظ کہتے ہوۓ اگلی اور دائمی ہجرت کر جائیں ۔ آمین ثم آمین ۔
( منیرہ قریشی 9 اگست 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں