پیر، 16 مئی، 2022

" اِ ک پَرِخیال " " چار بوڑھے گھر سے نکلے"

" اِ ک پَرِ خیال "
" چار بوڑھے گھر سے نکلے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفر چاہے چھوٹا ہو یا لمبا ،، جب بھی موقع ملتا، سننے ،اور دیکھنے کی حسّیات ایسی تیز متحرک ہو جاتیں ، کہ سفر مجھے اتنا نہیں تھکاتا جتنا ' سوچ اور احساس' کا سفر تھکا دیتا ۔ ہر منظر ، ہر شخص، ہر جملہ جو کانوں سے ٹکراتا ایک پیرا گراف بَن جاتا ۔
برطانیہ کی رات کی فلائیٹ نے کچھ بے زار سا کیا ہوا تھا کہ ایک گھنٹہ لیٹ تھی ۔ اب رات کا ایک بج چکا تھا ، اور میزبان بھی تھکی مسکراہٹ کے ساتھ مسافروں کو استقبالیہ مشروبات پیش کر رہی تھیں ۔ سبھی مسافروں نے ائیر پورٹ کی گرمی کو رفع کرنے کے لیے ایک ایک گلاس لے لیا ،،، تب آس پاس جائزہ لیا ،، میرے بالکل ساتھ سیٹ پر ایک مولانا صاحب کی بیگم تھیں ، سادہ اور مکمل عبائیہ میں ۔ سلام دعا ہوئی ۔ بالکل ساتھ کی لائن میں قریباً ایک جیسے حلیۓ ، ایک جیسی قامت اور کافی ملتی جلتی شکل کے دو بزرگ بیٹھے تھے اور عین سامنے کی سیٹوں پر بھی دو انہی کی عمر ،، انہی سے ملتے جلتے حلیۓ کے بزرگوار تشریف فرما تھے ۔شاید یہ سب آپس میں رشتہ دار تھے ، کیوں کہ بعد میں ان کے درمیان چند جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔
اتفاق سے اس دفعہ بزنس کلاس میں سفر کا موقع ملا ۔ آدھ گھنٹے میں مشروبات کے تین دور چل چکے تھے ،،، چاروں بزرگوں نے تینوں دفعہ کی پیشکش سے انصاف کیا تھا اور سب ہی دو دو بار واش روم سے ہو آۓ تھے ۔ انہی میں ایک صاحب وہیل چیئر پر تھے ،، جو دوسرے بزرگ دھکیل کر لے کر گئے ۔ چاروں کافی قد و قامت والے اور اچھی صحت کے حامل تھے کہ عین سامنے کی سیٹ والے نہ صرف ڈبل تھوڑیوں کے مالک ، بلکہ گردنوں کے پیچھے بھی موٹی تہہ بنی ہوئی تھی،، جب وہ واش روم کے لیۓ گزرے تو قیمتی شلوار قمیضوں ، جوتیوں ، اور گھڑیوں سے ان کی امارت کا اظہار ہو رہا تھا ۔ چاروں ہی اسّی ، اور بیاسی کے پیٹے میں تھے ،،، چاروں کی سفید چھوٹی چھوٹی داڑھیاں تھیں اور سروں سے قریباً فارغ البال تھے ۔
فضائی میزبان اگرچہ بہت جوان نہ تھیں لیکن سفید جلد ، اچھے میک اپ سے وہ جوان ہی لگ رہی تھیں ،،، اور تیزی سے ہر مسافر کو بار بار مشروبات پیش کر رہی تھیں ۔ ابھی میں نے اور میری ساتھی مسافر نے ایک ایک گلاس بہ مشکل ختم کیا تھا کہ بزرگوں نے چار چار گلاس ختم کر ڈالے کہ اتنے میں کھانا لایا گیا ۔ ہم دونوں خواتین شاید ان کی خوش خوراکی پر پریشان ہو گئی تھیں کہ ائیر ہوسٹس کے پیش کیے گئے ٹرے میں سے ایک آدھ چیز کھائی اور باقی واپس کر دی ۔ جبکہ ان بزرگوں نے ٹرے میں دی گئی اشیاء کے علاوہ بھی کچھ مزید مانگا ،،، کھانے کے ساتھ مشروب بھی چلتا رہا ۔ آخر کار یہ سلسلہ بھی ختم ہوا ۔۔ اور جہاز کے اندر کی روشنیاں بند کر دی گئیں ۔ سبھی مسافروں کی سیٹوں کو میزبانوں نے آرام دہ بنایا ۔۔۔ اور یوں بوجھل آنکھیں ، بھرے پیٹ کے ساتھ ہلکے ہلکے خراٹوں میں بدل گئیں ۔ یہ چاروں بزرگ حضرات بھی نیم استراحت میں تھے ۔ ہوائی سفر کے دوران مجھے نیند نہیں آتی بلکہ میرے لئے کھڑکی سے باہر کے مناظر زیادہ ضروری بن جاتے ہیں ،،، کہ رات کے بھی اپنے رنگ ہوتے ہیں ،،، انھیں زمین پر پرکھنے کا موقع تو ملتا ہی رہتا ہے ،،لیکن فضائی سفر میں رات کے ایک اور ہی قسم کے ڈھنگ سامنے آتے ہیں ۔
نہایت ہلکی روشنی میں بھی میں نے اپنی ڈائری نکالی ،،، اور میں نے انہی بزرگواروں کو کچھ تصوراتی رنگ میں دیکھا ،،،،،
دیار غیر میں جوانی میں کڑی محنت و مشقت سے گزارے سالوں نے انھیں صحیح خوشحالی سے ہمکنار کر دیا ہو گا ۔ اب وقت کی آخری اننگ چل رہی ہے ۔ اولادیں ، بلکہ اولادوں کی اولادیں بھی جوان ہو چکی ہوں گی ۔۔۔ اور اس نئے وطن میں نئی تہذیب سے مدغم بھی ہو چکی ہوں گی ،،، بابا حضرات عمر کے اس حصے میں ہیں جب بیویاں بھی بے زار ہو چکی ہوں گی ۔۔۔ اولادیں مصروف اور وقت کی سوئیوں کی غلام ہوں گی ۔۔۔ گھر میں توجہ دینے والا کوئی پوتا پوتی تو ہو گا ،،، لیکن کبھی کسی وقت چند منٹ دینے سے کیا ہوتا ہے ۔!! ۔ اب اس عمر میں سفر میں ایک دوسرے کے ہی مدد گار بن کر اپنے پرانے لیکن اصل وطن کی مٹھاس کو محسوس کرنے گئے ہوں گے ۔۔ جو زندہ ہیں ان رشتوں سے مل کر ،، دنیا سے گزر جانے والوں کی محبتوں کو محسوس کرنے ۔۔۔ کہ پھر نہ جانے سفر کر سکیں یا نہ کر سکیں ۔ اب سفر ہی کے وہ لمحاتِ خوشی دے رہے تھے،، جب جوان ، خوبصورت میزبانیں ،، ماتھے پر بَل ڈالے بغیر ان کا ہر حکم بجا لا رہی تھیں ۔ یہاں اس وقت انھیں کوئی بھی نہیں ٹوک رہا تھا کہ یہ کیوں کھا رہے ہو ، یہ کیوں پی رہے ہو ، یہ صحت کے لیے ٹھیک نہیں وغیرہ،،، وہ تیزی سے پھرنے کی عیاشی سے اگر محروم تھے تو کیا ہوا ،،، ان خوش شکل خواتین کی چند گھنٹوں کی توجہ تو مل رہی ہے ۔ اور یہی توجہ ،،،، انھیں جنت کی حُوروں کا پختہ تصور بھی دے رہی ہے ۔ یہاں اس وقت وہ چاروں بوڑھے اپنی اہمیت کے جذبے سے سرشار ،،، کھاؤ پیو ،،، اور عیش کرو کا نمونہ بنے ہوۓ تھے ۔اور بھر پور توجہ کا مزا لے رہے تھے ۔ بھَلے یہ توجہ چند گھنٹوں کے لیے تھی ۔
اور رات کے خاتمے تک میرا تصوراتی کالم بھی تمام ہو گیا ۔ مجھے پنجابی کا ایک شعر یاد آرہا ہے ۔
" اوڑک جانڑا مَر وے ۔۔۔۔ چل مِیلے نُو چلیے"
( مرنا تو آخر کار ہے ہی ،، کچھ میلے کی سیر کریں ، کچھ دل کو بہلانے کا سامان ہی کریں )
اس تصورِ خیال سے کسی کا متفق ہونا لازمی نہیں ۔

( منیرہ قریشی 16 مئی 2022ء مانچیسٹر) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں