بدھ، 7 جون، 2017

"گواہی"

محترمہ  اسنیٰ بدر صاحبہ کی ایک نظم " آخری عرضی " کے شروع کے الفاظ نے میرے دل پر قبضہ کرلیا اور میں مجبور  ہو گئی کہ اس نظم کے دوسرے مصرعے کو " چُرا " کر استعمال کر لوں اور اُن الفاظ اور ان احساسات کو آپ سب سے شیئر کرلوں وہ مصرعہ ہے" اے اللہ میاں کچھ وقت تو دو یہ میری آخری عرضی ہے " !۔
" گواہی "
میری بھی ایک عرضی  ہے
تُو سُنے نہ سنے ، تیری مرضی  ہے
میرے مولا ،،،
میرے پاس تیری خوشنودی کے الفاظ
گُم  ہو گئے ہیں ،،،،
تُجھ سے اظہارِ محبت کے اعمال !
سُن  ہو گئےہیں ،،،
اندر سے خالی ہو چلی
احوال سے ماضی ہو چلی
وہ افعال سُجھا دے
وہ لفظ سُنوا دے
وہ لفظ سکھا دے
وہ لفظ بُلوا دے
کہ وہ لفظ ہو جائیں
عبد کی محبت کی گواہی
تُو کِھل اُٹھے جن سے
تری رحمت مسکرا اُٹھے جن سے
میری بس یہی عرضی  ہے
آگے تیری مرضی  ہے
( منیرہ قریشی 7 جون 2017ءواہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں