اتوار، 2 جولائی، 2017

"سیلابِ بلا"

 پاکستان میں ہر سال سیلاب آتا  ہے ! 72 سال سے پاکستانی یہ قدرتی آفت سہتے آرہے ہیں ،کیا مجال اس قوم کے پاۓ استقامت میں کمی آئی ہو ،کوئی احتجاج نہیں ، کوئی شکوہ نہیں ! اور کتنے زبردست حکمران ہیں کہ انھوں نےاس سلسلے میں کچھ نہ کرنے کی جو قسم کھائی ہے وہ نہیں توڑی! 2010 کا سیلاب انتہائی دلفگار اور دلخراش تھا جس کے مناظرکا غم آج بھی محسوس کیے جا سکتا ہے! اور اب پھر جولائی ہے  اورسیلاب کی آمد  ہے اور لوگ پھر کیڑے مکوڑے بن چکے ہیں !ہم کب کچھ کرنے والے ہوں گے !آہ ،،، 2010 ء کے سیلاب پر کچھ جملے !!!۔
" سیلابِ بےمہار "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اس موسم میں تو
کاسنی پھول ،گُھوروں پر لرزتے ہیں
آتی بہار جیسی فضا میں
مہندی سی رَچ جاتی ہے !
رانجھوں کی آنکھیں ،،،،،
ہیروں کے تصور سے جگنو جگنُو تھیں
اسی موسم میں تو
ٹین کے بَکسوں کو دھوپ لگواتی مائیں
زیرِ لب دعاؤں کے در کھولتی مائیں
بس اب کے فصل سب ارمان پورے کرے گی
بیٹوں کے گلے میں ہار ہوں گے
بیٹیوں کے ماتھے ٹیکے سجیں گے
مگر ،، شراٹوں گزرتا پانی
سپنوں ، ارمانوں کو سمیٹتا پانی
ہیروں ، رانجھوں ، اور ماؤں کو لپیٹتا پانی
فصلوں ، سامانوں کو روندتا پانی
بچے،کھچے چہروں پر سوالی آنکھیں
" فرضِ کفایہ تو قلیل پر اکتفا کرتا ہے "
ہم تو تیری دنیا کے اکثیرِ غُرباء !
جوتیری مرضی،جو تیری رضا!!!
تیرے آگے  ہے تسلیمِِ رضا !
( منیرہ قریشی 2010ء جولائی ،، واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں