بدھ، 5 جولائی، 2017

"جدائی"

ایک  دوست نے اپنی ایک عزیز سہیلی کی جواں سال بیٹی کی جدائی پر بہت پُر اثر نظم لکھی جو اپنوں کے غم کو محسوس کر کے ہی لکھی جا سکتی ہے ،،، یہاں دو نظموں کو لکھ رہی ہوں ! ایک 1983ء میں لکھی اور ایک کچھ ماہ پہلے، غم شاید کبھی پرانا نہیں ہوتا، اسی لیے جب بھی ان لمحوں کا ذکر ہوتا  ہے، زخم تازہ ہو جاتے ہیں )۔
" پیارے عُمر اور عُزیر یعقوب کے نام "
" تاڑی مار اُڈا نہ باھُو" (تالی بجا کر ہمیں متوجہ نہ کر ہم خود ہی اُٹھ
"اسی آپے اُ ڈنڑ ہارے ھُو " ( جانے والے ہیں ، اُڑ جانے والے ہیں )
( عمر رؤف کے نام جس نے 6 سال اس جہانِ رنگ و بو میں گزارے ! جو میرے وجود کا حصہ تھا)
ہم معصوم روحیں
ہماری بھولی بھالی سوچیں
ہمارے سادے سادے کھیل
ہماری جھرنوں ایسی ہنسی !!
ہمیں سمیٹ لینے دے جلدی جلدی
یہ سب خوشیوں بھرے لمحے
کہ پھر ،،،
ہماری روشن خوبصورت آنکھوں نے
(اے موت ) تجھے دیکھ لیا تو
یہ معصوم دل سہم جائیں گے
ہمیں مگن ہو کر اپنوں کو پیار کر لینے دے
کہ پھر ہمارا جانا ہی جانا ٹھہرا ،،،
کبھی نہ آنے کا کہہ کر !!
( منیرہ قریشی 1983ءواہ کینٹ )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
(دوسری نظم اُس جوانِ رعنا کے لۓ جس نے19 سال کی عمر سے14 سال کی بیماری کاٹی ، اور 33 سال کی عمر میں اس دنیا کو الوداع کہہ گیا !اور میری پیاری بھانجی کے وجود کا حصہ تھا )۔
" ( عُزیر یعقوب کے نام )"
بھرپُور جوانی میں
راتیں خوابوں سے بھر پورہیں
دن چمکتے، چیختے رنگوں سے معمور ہیں !
دوستی کی مٹھاس ہے آس پاس
رشتوں کی فصیل ہے گردا گِرد
مگر مسیحا کے الفاظ ہیں محتاط
نصیب کا لکھا ہے
قدرت کا فیصلہ ہے
چودہ سال قیدِ با مشقت
نہ کوئ کمی نہ بیشی
ہونی ھو کرہے رہتی
یہ فصیلِ محافظت کیسی؟ یہ مٹھاسِ دوستی کیسی؟
قطرہ قطرہ موم بتی پگھل رہی ہے
دبے پاؤں کوئی قریب آرہا ہے !
ہلکی آوازیں بُلا رہی ہیں ، کہہ رہی ہیں !
اُٹھو ہماری دنیا کے شہزادے ،،،
اُٹھو کہ آج قید کے خاتمے کا روزہے
تیرے جسم نے تجھے بہت تھکا لیا
ضبط کے زہر نے تجھے بہت آزما لیا
چلو کہ تجھے انعام سے نوازا جانا ہے
چلو کہ جشنِ آزادیؑ روح منایا جانا ہے !!
( منیرہ قریشی ، جولائی 2017 ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں