جمعرات، 17 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (1)۔

" یادوں کی تتلیاں " ( بچپن کی کچھ مضبوط یادوں کے نام ) ( 1 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، 
ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کواپنا بچپن " سہانا " لگتا ہے ۔اُس دور کی معمولی سی بات بھی اہم لگتی ہے ،،،اور جب کبھی ماضی کی وہ معمولی ساواقعہ یاد آتا ہے تو خواہ مخواہ چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ہے ! ( تلخ واقعات کو ہم بُرا ماضی جانتے ہوۓ بھی بھلا نہیں پاتے حالانکہ وہ بھی بچپن کی یادیں ہیں )،،عمر جوں جوں بڑھتی ہےبچپنے کی یادیں اکژ ،اور شدت سے حملہ آور ہوتی ہیں ۔اوربڑھتی عمر میں یہ خوب صورت یادیں بندے کو ریلیکس کرتی ہیں ۔ ورنہ زندگی کے یکسانیت والے شب وروز بےزار کر دینے والے ہوتے ہیں۔
پرانی یادوں میں محو ہو جانا ایسا ہی دلچسپ کام ہے جیسے سمندر میں تیراک کو تیرنا ،دلی خوشی دیتا ہے ۔ یادوں کے سمندر میں تیرتے ہوۓ ایسی یادیں بھی اُبھر آتی ہیں جیسے سمندر میں سے چُھپا پھولوں بھرا ، خوبصورت جزیرہ یکدم اُبھرے اور چند منٹوں میں پھر تہہِ آب ہو جاۓ !،،،،، اور کبھی یکدم یادوں کا ایک تارہ چمکتا ہے ، آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے ایک موتی سا آنکھ کے کونے پر چمکنے لگتا ہے ،کبھی یہ یادیں دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد رات سونے کے وقت سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں ، کہ جیسے سٹیج کا پردہ ہٹا اور کردار مسکرا کر کہہ رہے ہوں  ، کبھی ہمیں بھی یاد کر لیا کرو ،،،۔
بچپن میں اکژ گرمیاں "مری " میں گزرتیں کہ ابا جی کو آرمی کی طرف سے رہائش مل جاتی تھی۔اس کےآس پاس کوئی خاص گھر نہ تھے۔ہمارے اس گھر کا نام بھی بڑا  رومانوی سا تھا (گرچہ  اس بات کا احساس  مجھے بہت بعد میں ہوا) یعنی "شنگریلہ"۔اس گھر سے چند قدم نیچے ایک گھر تھا جس میں ڈی ایس پی صاحب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے اتنے شریف،اتنے وضع دار اور ایماندار لوگ دنیا میں کم کم ہی ہوتے ہیں ، آپس میں بڑوں کا تو کم ہی آنا جانا ہوتا کہ ہماری اماں جی بیمار رہتیں ،لیکن اس گھر کی ایک بیٹی یاسمین نام کی ہماری ہم عمر تھی آپس میں اپنی قیمتی متاع دکھائی جاتیں ، جس میں کپڑے کی گڑیاں ، چند رولڈگولڈ کی نگوں والی انگوٹھیاں ، کچھ رسالے، اخباروں سے تراشی گئی تصاویر ،، جو خوب اچھے فراک پہنےہماری عمر کی بچیوں کی تھیں یہ تصاویر یا تو کسی یورپین ملک کے شاہی خاندان کے بچوں کی تھیں ،یا بچوں کے ڈریسز کے ماڈلز کی تھیں۔ مجھے آج بھی وہ پیاری گلابی فراکوں سفید دستانوں اور سفید جرابوں اور سفید خوبصورت بوٹوں والی تین چار لڑکیوں کی تصویریں یاد ہیں کہ مدت میرے خزانے میں رہیں ،،، یہ قیمتی خزانہ اپنے اکلوتے بھائی سے چُھپا کر رکھتیں کیوں کہ وہ ہم دونوں( اوپر تلے کی بہنیں) سے جب کوئی کام کروانا چاہتے تو اس خزانے کو گھر کی چھت پر پھینکنے کی دھمکی دیتے،اور بادلِ ناخواستہ ہمیں ان کا حکم ماننا پڑتا ،حکم اکژ یہ ہوتا ایک بوٹ تم پالش کرو ایک یہ کرے یا ،، پورے آدھ گھنٹہ میری کنگھی بھی کرنا ہے اور سر دبانا بھی ہے (وہ کنگھی کروانے کےہمیشہ شوقین رہے تھے شاید ہوسٹلز میں رہنے والوں کی ریلکسیشن کا یہ بھی انداز ہو تا ہو گا )، یہ اس وقت بہت بور کام لگتے ،،اماں جی نے ہمارا دن بھر کا شیڈول بنا کر سمجھا دیا تھا کہ اس سے آگے کوئی بحث نہیں تھی ! اس میں صبح ناشتے کے بعد چھٹیوں کا کام دو ، تین گھنٹے ،،، دو گھنٹے ریسٹ ، جس میں بچوں کے رسالے پڑھنا ،یا باہر باغ میں بیٹھنا ،، وغیرہ ، اور شام تین بجتے ہی  ہم دونوں اپنے اس سال کا  بہترین لباس, پہننا اور پی ٹی شوز پہن کر مری کی مال روڈ کا چکر لگانا جو دو گھنٹے میں واپس آنے پر مشتمل تھا ، ،،، یہ وہ معصوم دور کہ پورے دو ماہ ، یعنی ساٹھ دن وہی  لباس پہننے میں ہمیں کوئی سبکی محسوس نہیں ہوتی تھی ،بلکہ یہ نارمل بات لگتی تھی اور خرچ کے لیے کبھی آٹھ آنے کبھی چار آنے ملتے جس میں سے  ہم دونوں نے چنا جور کھانا ضروری ہوتا،باقی چار آنے کی دو کہانیوں کی کتابیں لینی (اور وہاں سے ہماری اپنی کتابوں کی اچھی خاصی کولیکشن ہو گئی تھی)۔ہاں البتہ کبھی کتابوں کا ناغہ کر کے دو تین دن پیسے جمع کرتیں اور"قلا قند"کا بس اتنا بڑا ٹکڑا خریدا جاتاکہ ہم دونوں آدھا آدھا کھاتے اور ہمارا بہت اچھا گزارا ہو جاتا ہم نے اپنی "عیاشی "کا سامان خود ہی سوچا اور اس پر عمل درآمد بھی اپنی مرضی سے کر لیا کرنا ، رونق میلہ دیکھا اور گھر واپس ! جانے پر ہم تیز ہوتیں اورپندرہ منٹ میں مال پر پہنچ جاتیں ، واپسی میں 20 تا 25منٹ ضرور لگتے ، کبھی کبھار رنگین پھولوں کی کیاریوں کے پاس بیٹھ جاتیں اور کبھی راستے کے مخصوص مناظر سے ہٹ کر کوئی نظارہ ہوتا تو رک جاتیں ! چند منٹ وہ نظارہ ہمیں محو کرتا ،جیسے تیز گھوڑا دوڑاتی لڑکی ،یا ، راستے کے پُررونق گھروں میں  نئے لوگوں کی آمد ! یا ہمارے امریکی پڑوسی کی بیٹیوں اور بیگم کی قریب سے گزرتی وین ،، اور جب وہ ہمیں پہچان کر سب کی سب " ویو" کرتیں تو ہم شرم سے لال ہو جاتیں کہ " ہاۓ لوگ دیکھ رہے ہیں " ( شرم آنے کا کتنا عجیب خیال ،، جو میرے خیال میں محض احساسِ کمتری کا ایک انداز تھا ) ۔
مال روڈ پر ہم سے کچھ چھوٹا لڑکا ہمارا دوست بن گیا وہ ایک بھکاری بچہ تھا جو دونوں ٹانگوں سے معذور تھا اس لۓ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتا اور اس چال میں بھی تیز تھا ، پہلے ہم نے اپنی " فطری یا تربیتی " نرم دلی سے اسے اپنے پیسوں میں سے ایک پیسہ روزانہ دیا بہت دنوں کے بعد ایک دن ہم تھک کر ایک کیاری کے کنارے بیٹھ گئیں تو وہ قریب ہی بیٹھا تھا ، اور
اب وہ ہمیں بھی پہچان چکا تھا اس سے اس کے گھر اور افرادِخانہ کا پوچھا ! ( ہم دونوں کی یہ " بُری "عادت آج بھی ہے کہ ہم کسی سے چند منٹ ملیں تو ہم اس کے اہلِ خانہ کی تفصیل ، نوکری ، حالاتِ غم و خوشی جان جاتی ہیں اور اگر اگلا کسی پریشانی سے گزر رہا ہے تو فوراً سے پیشتر اس کا حل سوچنا او ر ہو سکے تو اسے وہ وظائف بھی بتانا جن کو پڑھنےسےاس کے مسائل حل ہو جائیں ! ہماری اس عادت سے ہماری اولادیں " سخت تنگ " ہیں پر اب کچھ نہیں ہو سکتا ) اب اس کے جواب یاد نہیں ! لیکن اگلے کئی سالوں کے بعد بھی جب مری جاتے تو وہ لڑکا پہلے سے بڑا اور تندرست دکھائی دیتا ، پھر خاصا وقفہ آیا اور ہم نوجوانی کی عمر میں مری گئیں  تو حیرت ہوئی کی وہ اسی طرح گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتا ہوا کافی اُونچا لمبا جوان بن چکا تھا لیکن اس کا پیشہ نہیں بدلا تھا ! شاید اس پیشے سے وہ اچھا کما لیتا تھا کیوں کہ اس کی صحت سے یہ ہی ظاہر ہوتا تھا ،،، لیکن اس دوران ،،،کئی اور سال گزر گئے کبھی جانا بھی ہوا تو مری کے قیام کے دوران بچپن کے بناۓ " بھکاری دوست " سے پھر ملاقات نہیں ہوئی ،،،،، ! ( جاری )۔
( منیرہ قریشی 17 اگست 2017ء واہ کینٹ )

1 تبصرہ:

  1. ہر محبت،ہر خدمت اور ہر جذبہ بےکار ہے جب تک وہ کسی مربوط لڑی میں پرویا نہ جائے یا احساس کے گلہائے رنگ رنگ کو اپنی استطاعت کے مطابق کسی گلدستے کی شکل نہ دی جائے۔
    اور آج آپ نے اپنی بکھری سوچ کے نکھرے رنگوں کو ایک تصویر میں سمیٹنے کی طرف پہلا قدم تو اٹھایا۔ جناب مجروح سلطان پوری کا شعر خاص آپ کے لیے۔۔
    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جواب دیںحذف کریں