منگل، 22 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (4 )

یادوں کی تتلیاں " (4 ) ۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ابھی جو میں نے جِن دو کرداروں " قوی ہیکل " اور " پولیس کا سپاہی" کا ذکر کیا ہے تو آپ لوگوں نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کا گہرا سانولا رنگ میرے ذہن میں نقش ہو گیا تھا اسی لۓ مجھے ان کی شخصیات میں ان کا یہ پہلو اس لۓ بھی یاد رہا کہ ہمارے والدین نے کبھی کسی کے رنگ یا بد ہیتی کو اہمیت نہیں دی، نہ ان سے کسی نفرت کا اظہار کیا ! ہم عام زندگی میں حسین یا خوش شکل چہرے دیکھنا ہی پسند کرتے ہیں اور ملنا بھی چاہتے ہیں، حالانکہ اس شخصیت کی اصل خوب صورتی اسکے " کردار " کی ہوتی ہے اگر وہ نہیں تو وہ بندہ " زیرو " ہے ۔
اپنے بچپنے کی یادوں پرنظر ڈالتی ہوں تو ایک اور گہری سانولی شخصیت اس اردلی کی ہے جس نے صحیح معنوں میں گھر کا بیٹا یا رکھوالا بن کر دکھایا !اباجی کی حد درجہ مصروفیت اور اماں جی کی مسلسل بیماری رہی اللہ تعالیٰ نے اس دور میں جب گھر میں ایک اچھے نگران کی سخت ضرورت ہوتی ہے ،،، ہمیں " شریف " کی صورت میں ایک مہربان اور وفادار اردلی مل گیا !
وہ نام کا ہی شریف نہیں تھا اصل " شریف " تھا ،،، اماں جی نے گھر کی گروسری لانا، بلز جمع کرانا ، ہماری سکول فیس جمع کرانے کے کام اسے سونپ رکھےتھےبلکہ ہم دونوں بہنوں کے روزانہ کے اخراجات بھی اسی کے حوالے تھے ،، اس نے نہ صرف گھر کی مکمل نگرانی کرنی بلکہ دوسری دو خواتین کوجو مختلف کاموں کے لۓ تھیں ان کے کام پر بھی نظر رکھنی ! والدین کی طرف سے ملازمین کے احترام کا ایک حکم یہ بھی تھا کہ وہ تم سے عمر میں بڑے ہیں اس لۓ ان کا نام نہیں لینا بلکہ عورت ہے تو ماسی یا باجی اور مرد ہے تو " پا ، جی " یا لالا جی ، یا چاچا کہا جاۓ ! (ہم اسے پا ، جی کہتے جس کا پنجابی میں مطلب ہے " بڑا بھائی ") ہر روز ایک ڈرامہ اس نے ہمارے ساتھ کرنا اپنا فرض سمجھنا وہ یہ کہ ہم دونوں اس کے پاس جا کر کہتیں " پا،جی ہمیں ایک ایک " آنہ " دے دو " تو وہ اپنی آنکھوں کے اوپر کے پپوٹوں کو اُلٹ دیتا جس سے اس کا کالا رنگ اور سُرخ پپوٹےاسے خوفناک بنا دیتے اور کہتا" اچھا جی آنہ چاہیے ابھی دیتا ہوں یہ دیکھتے ہی ہم چیخیں مارتی بھاگ کر اماں جی کو بتاتیں ، پا،جی ہمیں ڈرا رہا ہے "! ہر روز وہ اماں جی سے ڈانٹ کھاتا لیکن اس نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں ،، بہت بعد میں خیال آتا کہ آخر وہ اپنے بال بچوں سے دور تھا اس کا بھی دل چاہتا ہوگا بچوں سے ہنسی مذاق کرنے کا ، اور اپنے لیول کا اس کے پاس یہ ہی مذاق تھا ،،، لیکن دوسری طرف اپنی حد درجہ مصروفیت اسے شاید مسکرانے کی فرصت بھی نہ دیتی تھی ۔ کیوں کہ اتنا فرض شناس انسان کم ہی ہوتے ہوں گے ۔وہ قریبا" 4، 5 سال رہا ، جاتے وقت اس کے آنسو نلکے کی طرح رواں تھے اور اماں جی بھی اس کے لۓ اتنی ہی غم گین جتنی ایک ماں یا بہن ہوسکتی ہے ۔ نہیں معلوم وہ کس علاقے کا تھا ، ان پڑھ اور سادہ ، بعد میں کبھی ملنے آیا یا نہیں کچھ علم نہیں !!۔
پنڈی میں ہمارا گھرجس محلے میں تھا وہاں آس پاس ہمارے رشتہ داروں کے کافی گھر تھا ، اور جیسا کہ رشتہ داروں سے اختلاف ہونا بھی قدرتی بات ہے ، اس خاندانی سیاست کو شریف دیکھتا رہتا اور کبھی اباجی نہ ہوتے تو کوئ رشتہ دار گھر آۓ ، اماں جی کا پوچھے، تو وہ یوں کھرا اور دبنگ لہجے میں بولتا کہ اگلا چُپ ہو کر رہ جاتا کہتا " آپ دیکھ نہیں رہے 'آپا بڑے " آرام کرہی ہیں ، طبیعت ٹھیک نہیں اور آپ شور کرنے آ گئے ہیں ! بس اس کے کڑوے سٹائل سے اکثر واپس چلے جاتے !!! ابھی آپ نے لفظ " آپا بڑے " پڑھا ہے ، اکثر گھروں میں پہلا پوتا یا نواسہ جب بولنے کی عمر میں آتا ہے تو وہ جو نانا ، دادا کو اپنی سمجھ اور محبت میں کہتا ہے وہی بعد کے پوتے ، نواسے کہتے چلے جاتے ہیں ، اماں جی بہت جلد نانی بن گئیں تو ان کے پہلے نواسے نے انھیں آپا بڑے کا خطاب دیا ،،، بس وہ نہال ہو گئیں کہ جو یہ کہہ رہا ہے وہ ہی چلے گا ،،، ( دراصل ہم اپنی بڑی بہن کو آپا کہتی تھیں تو بچے نے سوچا ہو گا یہ آپا تو وہ آپا بڑے !)اور بعد کے بچوں نے بھی یہ ہی لفظ بولا ،،، بلکہ تمام اردلی ، وغیرہ بھی انھیں یہ ہی کہتے ، اور اماں جی خود بھی اس بات کو پسند کرتیں تھیں کہ انھیں بیگم صاحب نہ بُلایا جاۓ !۔
گھر کی اوپری منزل کے دو صحن تھے ، اور گھر کے کل دو لیٹرین اور ایک غسل خانہ تھا ان کی دھلائی، صفائی کے لۓ ایک نہایت غریب ، بیوہ ، تین بچیوں کی ماں "رکھو "تھی پتہ نہیں اس کا پورا نام کیا تھا ، وہ کرسچین تھی ، لیکن حسبِ عادت اماں جی کی منظورِنظر ،،،، کیوں کہ اول تو ان کی نظر میں ہر غریب قابلِ عزت ، قابلِ مدد تھا ان کی یہ سوچ رنگ و نسل و مذہب سے بالا تر ہوتی اور دوسرے ان کا معقولہ تھا کہ " یہ لوگ ، دوسروں کے گھروں کے کوٹھوں کی صفائی کر کے اور 
غسل خانوں کو چمکا کر " روزی " کماتے ہیں ، اگر یہ نہ ہوں تو ہمارے گھر کوڑے سے اَٹ جائیں ،،،، اسے " رکھو ماسی " بلایا جاتا ،اماں جی اگر ذرا سی بھی طبیعت بحال ہوتی تو وہ خود کچن میں جاکر اس کے لۓ دیسی گھی کا تر بتر پراٹھا ، اور دودھ پتی کی چاۓ بناتیں ، کبھی اس پراٹھے کے ساتھ ملائی ہوتی کبھی رات کا سالن ،، اگر اباجی یا بھائی جان ہوسٹل سے آۓ ہوتے تو کہہ دیتے " ملازمہ بنا دے گی " تو کہتیں کیا پتہ وہ پراٹھے پر گھی کم لگاۓ ، یا دودھ میں پانی ڈال دے ،،، میں چاہتی ہوں اتنے گھروں کا کام کرتی ہے کسی ایک جگہ سے اسے خالص کھانا ملے تاکہ وہ تندرست رہے گی تو اپنی بچیوں کو پال لے گی " ،،،، اللہ تعالیٰ ان کی ایسی نیکیاں اُس جہان میں ان کے لۓ آسانیوں کا باعث بناۓ ،،،اماں جی 1976ء میں فوت ہوگئیں ، رکھو ماسی کے افسوس کے پیغام آۓ ( ہم پنڈی سے 1964ءمیں واہ کینٹ شفٹ ہو چکے تھے ) مدت بعد تقریبا" 18 سال بعد اسی محلے میں شادی پر جانا ہوا اتفاق سے رکھو ماسی بھی مدعو تھی ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دیر تک گلے لگ کر روتی رہیں ،اب وہ بچیوں سے فارغ اور قدرِ آسودہ تھی پھر بھی جب میں نے اسے کچھ ہاتھ میں پکڑایا تو اسکے آنسو دوبارہ رواں ہو گئے کہ اس کادوپٹے کا کونا بھیگ گیا ! رکھو ماسی نے لمبی عمر پائی ، شاید وہ پچھلے سال تک تو زندہ تھی اب کا نہیں پتہ ،،،، کیسے کیسے لوگ اماں جی اور ابا جی کی محبتوں کے امین تھے ، گواہ تھے ! ،،، الحمدُ للہ ! 
( جاری ) 
( منیرہ قریشی ، 22 اگست 2017ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں