اتوار، 20 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (2 )۔

یادوں کی تتلیاں " (2 )۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب ہم اپنے پیارے والدین کے ہمرا ہ پہلی مرتبہ مری رہنے گئی تھیں تو میں جماعت سوم یا چہارم میں تھی ، میری چھوٹی بہن ایک سال پیچھے اور ہمارے جان سے پیارے اکلوتے بھائی جان کیڈٹ کالج حسن ابدال میں کلاس نہم یا میٹرک میں آچکے تھے ،،، اباجی ، صدر جنرل محمد ایوب کے سیکورٹی آفیسر تھے ، وہ انتہائی مصروف رہتے ، اس لۓ ہماری پرورش میں ہماری اماں جی کا کلیدی کردار رہا ، انھوں نے کبھی ہاتھ اُٹھانے کی پالیسی نہیں اپنائی وہ ہماری کسی بھی بد تمیزی پر صرف اتنا کہتیں " اپنے اباجی کو آنے دو میں انھیں یہ اور یہ بات بتا دونگی " ،،، بس اچھے بچوں کی طرح ہمارے لۓ یہ جملہ کافی ہوتا ، اور اگر ہم چالاک بچے ہوتے تو ہمیں جلد سمجھ آجاتی کہ اماں نے کبھی اباجی سے ہماری شکایت نہیں کی ، انھوں نے صرف " رعب " ڈالنے اور بچوں کو قابو کرنے کاایک " زبردست جملہ " اپنایا ہوا تھا ! اماں جی اپنے شوہر کے بعد اپنے بچوں کی عاشق تھیں ، بھلا وہ ان کی شکایت کسی سے کیا کرتیں ،،، بہرحال مری کی اگلی یادوں کی طرف آتی ہوں کہ ہمارے اس گھر جس کانام " شنگریلا " تھا ،، کے بالکل چند گز دور ایک بہترین ڈبل سٹوری بڑی سی سفید کوٹھی تھی جو امریکی سفیر کی رہائش گاہ تھی ، اسکے بڑے سے پکے صحن میں راٹ آئرن کی کرسیاں اور میز ، ہر وقت پڑے رہتے ( راٹ آئرن کا فرنیچر ہم نے پہلی مرتبہ وہیں دیکھا ۔ یہ اور بات کہ ہماری سب سہیلیوں کوایسے فرنیچر کا تصور بھی محال تھا کہ جو بارش ، گرمی سردی باہر ہی پڑا رہتا ہے ) جن پر امریکن فیملی کبھی کبھار بیٹھی نظر آتی ، اس وقت کے سفیر کی دو خوب صورت 17 ،18 سالہ بیٹیاں بھی نظر آتیں لیکن اب سوچتی ہوں کیا پتہ وہ بیٹیاں تھیں یا بھانجیاں وغیرہ ،، لیکن اگر کبھی ہمارا آمنا سامنا ہو جاتا تو وہ ضرور ہلو ہاۓ کرتیں اور ہم انگریزی نہ جاننے کے سبب فوراً ان کے سامنے سے اوجھل ہونے کی کوشش کرتیں ،، ، بچپن کے دیر تک اس شرماہٹ کی عادت نے مجھے کافی عرصہ اپنی ذات کے خول میں بند رکھا ! میں سمجھتی ہوں بچوں کو اجنبیوں سے بات چیت کا اعتماد جلد ملنا چائیے !خیر ایک نمائشی ہاکی میچ میں اباجی ہمیں بھی لے کرگۓ ، تو وہاں یہ امریکن فیملی بھی تھی میچ میں ہمیں کیا دلچسبی ہوتی ، میچ ختم ہوا توامریکن لڑکیاں ہم سے ہاتھ ملانے آئیں اباجی نے ان سے ہمارا تعارف کروایا مجھے یاد ہے انھوں نے ہم سے ہمارے نام پوچھے، بڑی مشکل سے بتاۓ انھوں نے دہرایا ، خدا حافظ کہا گیا اور میں نے گھر آکر اماں جی سے گِلہ کیا آپ نے ہمارے کتنے مشکل نام رکھے ہیں ،،،یہ سن کر وہ تو صرف مسکرا دیں ! بہت سالوں بعد اباجی سے بھی میں نےیہ جملہ بولا تو انھوں نے کہا " جب مجھے معلوم ہوا کہ ' علامہ محمد اقبال ؒ " جیسی عظیم ہستی کی بیٹی کا نام " منیرہ " ہے تو میں نےسوچا ضرور اس نام کو علامہ نے کچھ سوچ کر ہی رکھا ہو گا "اس وضاحت کے بعد سے مجھے اپنا نام " منفرد " لگنے لگا !!! ۔
اباجی پنجابی ہونے کے باوجود بہترین اُردو اور انگریزی لکھتے تھے ، بولتے تھے اور اُردو میں شاعری بھی کرتے ، لیکن افسوس ان کے اس ایک شعر کے علاوہ اب کوئی کلام سامنے نہیں ہے ، اس لاپرواہی میں اباجی کی اپنی کوتاہی بھی شامل ہے ورنہ اپنے اس جوانی کے دور میں کچھ رسالوں میں ان کا کلام بھی چھپتا رہا ۔ وہ ایک شعر یہ ہے ۔
؎ رہ گۓ محوِ تماشا لبِ ساحل دانا ! 
اور موجوں سے لگے کھیلنے دیوانے چند
( ظفر الحق خالد قریشی ) 
اباجی کا تخلص " خالد " تھا اور یہ پوری غزل " دیوانےچند " کے قافیہ ردیف پر تھی لیکن یہ شعر بھی بصدکوشش انھیں یاد آیا تو اپنے ہاتھوں سے انھوں نے لکھا اور جانے کتنے سالوں سے سنبھال کر رکھا یہ کاغذ آج یادوں کی تتلیوں کی طرح پھڑ پھڑاتا میری آنکھوں کے سامنے آگیا جسے میں نے محفوظ کرلیا ہے ، ،،، اباجی بہترین فارسی بھی جانتے اور پڑھتے تھے ، نیز پشتو بھی بہترین بولتے تھے کیوں کہ ان کی پیدائش " صوبہ سرحد کے چارسدہ کے گاؤں " عمر زئی " کی تھی ان کا بچپن وہیں گزرا اور ان کے بہترین دوستوں میں پشتون دوست تھے ! علامہؒ کے کلام کو پڑھتے تو ان پر رقت سی طاری ہو جاتی ،،، ہمارے گھر علامہؒ کی برسی اور سالگرہ کادن ایسے منایا جاتا کہ کچھ میٹھا بنا کر گھر کے بچوں ، بڑوں کو کھانے کی دعوت دی جاتی اور اس دن لازما' کلامِ اقبالؒ پڑھا جاتا ،، اباجی کے احترام میں ہم بہن بھائی کچھ دیر بیٹھتے ،، ورنہ ان کے گلا روندنے کی وجہ سے ماحول کو کسی اور موضوع کی طرف لے جاتے ،!!! اب افسوس ہوتا ہے اباجی کو کیوں مجبور نہیں کیا کہ آپ اپنی انتہائی پیچیدہ ، رنگارنگ اور دلچسپ زندگی کے واقعات لکھیں ، آخری دور زندگی میں ان کی یادداشت بھی متاثر ہو رہی تھی اس لۓ وہ یادوں کے لۓ آمادہ بھی نہ ہوتے تھے ! لیکن اباجی ایک بہترین بیٹے ، بھائی اور شوہر اور باپ تھے ! ان کے شاعرانہ اور نثری ذوق نے انھیں اپنے خاندان کے جوان لڑکوں کا آئیڈیل بنایا دیا تھا اپنے دنیاوی رشتے جس اہلیت کے ساتھ انھوں نے نبھاۓ کم ہی لوگ ہوتے ہوں گے ، ہماری اماں جی ان کے بارے میں کہتی تھیں " تمہارا باپ فرشتہ ہے ، اس کے تو کپڑے بھی کوئی چھین کر لے جاۓ تو یہ اُف نہیں کرے گا " ،،، اباجی نے بہت باعزت اور باوقار بڑھاپا گزارا ، انھوں نے نہ صرف  اپنے  نواسہ نواسی دیکھے بلکہ اپنے ایک نواسے اور نواسی کے بچے بھی  گود کھلائے ، ،، البتہ ان کی زندگی کی ساتھی کم عمر لے کر آئی تھیں یعنی 52 یا53 سال! اباجی نے 83 برس کی عمر پائی ، بہت پُرسکون انداز سے موت کو گلے لگایا ، ، اللہ پاک ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ! ،،،، یہ آج کی یادوں کی تتلیاں بس اباجی کی ذات کے گرد منڈلاتی رہیں اور میں جو کچھ لکھ رہی ہوں اس میں ، میرے دل و دماغ کی " رو " جس جانب جاۓ گی میں وہی لکھوں گی ،،، پڑھنے والوں سے عرض ہے کہ براہِ مہربانی اس میں کسی " ادبی معیار " کو تلاش نہ کیجیۓ گا ! (جاری) ۔
 منیرہ قریشی ، 20 اگست 2017ء واہ کینٹ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں