منگل، 22 اگست، 2017

"یادوں کی تتلیاں " (3)۔

یادوں کی تتلیاں " (3)۔"
'''''''''''''''''''''''''''''''''
اب پھریادوں کی ہواؤں کا رُخ " مری " کی طرف کرتی ہوں تاکہ کچھ اور ذکرِ خیر اُن شخصیات کا بھی ہو جائے جو لمحہ بھر کے لۓ یا،،چند ماہ و سال کے لۓ ہماری زندگیوں میں ٹھہریں اور آج مجھے اس اُدھیڑ عمری میں اپنی جھلک دکھانے کے لیے ذہن کے دریچوں  پر دستک دے رہی ہیں کہ " ہمیں اپنی یادوں سے کُھرچ تو نہیں دیا "،،،، ۔
اُنہی دنوں مری کے قیام میں اباجی کو جو اردلی ملا ( ملتا توصرف آرمی آفیسرکو ہے لیکن اسکو پوری فیملی کا خدمت گار بنا دیا جاتا ہے ) اس کا نام اب ذہن میں نہیں رہا ، لیکن اس کا حُلیہ یہ تھا کہ ساڑھے 6 فُٹ قد ، خوب جاندار صحت اور سیاہ رنگت ،،، موٹے خدوخال! عام طور پر وہ ہر وقت مسکراتا، اورہنسی مذاق کے موڈ میں رہتا اور اپنے کاموں کو خوش دلی سے ادا کرتا رہتا ، ہمارے اباجی تو اول صبح سے رات گئے آتے ، اماں جی بیماری کے ہاتھوں بہت ایکٹو تو نہیں رہتی تھیں لیکن ان کی نظر ہرکام پر رہتی ،،، اماں جی کی ان دنوں پھر طبیعت خراب چل رہی تھی اور ایک کمپاؤڈر روزانہ ایک انجکشن لگانے گھر آتا ، اماں جی کی نرم طبیعت سے ہر مرد عورت بھلے وہ اجنبی کیوں نہ ہوں ان سے آہستہ آہستہ اپنا دُکھ سُکھ کہنے لگتے۔ یہ کمپاوڈر بھی مسلسل مہینہ بھر آتا رہا اور اسی ( جاہل )( یہ میں نے اپنی طرف سے اسکے عجیب مشورے پرلکھا ہے ) کے مشورے پراماں جی نے فوراً عمل درآمد شروع کر دیا ، اور وہ یہ تھا کہ بکری کی تازہ کچی کلیجی کا ٹکڑا پیسوا کر اس میں دو لیموں نچوڑ کر دو، دو گھونٹ بچوں کو اور دو خود پی لیں یہ نسخہ 10 دن کا تھا ! نہ صرف آپ ، بلکہ بچے بھی خوب صحت مند !اس دن ہم 
دونوں بہنوں نے سکول کا کام کیا اور ابھی کتابیں سنبھال کر اٹھیں ہی تھیں کہ اردلی جس کا نام ہم دونوں نے " قوی ہیکل " رکھ چھوڑا تھا ،،، یہ نام ہم نے اس کی ہم پر حکم چلانے کی عادت کی وجہ سے دیا ہوا تھا کیوں کہ وہ ناشتہ تیار کر کے سامنے رکھتا اور بار بار آرڈر دیتا، ختم کیے بغیرکوئی اپنی جگہ سے نہ اُٹھے ! اور اب یہ ہم نے اپنی طرف سے   بہت " بُری گالی" کے طور پر اس سے اظہارِ نفرت کے طورپر رکھا تھا۔
جو ہم دونوں کو ہی پتہ تھا کہ ہم نے اس کا یہ نام رکھا ہے دراصل ہم " اُردو کے جو رسالے کہانیاں پڑھتی تھیں اس میں کسی جِن یا دیو کے نام کے ساتھ یہ ہی لفظ لکھا ہوتا تھا ، ( اوراپنے تیئں ہم نے اسے " ایکسٹریم " گندی گالی سے نوازا تھا ، ہم کتنے اچھے بچے تھے کہ گالی کے آداب و الفاظ سے نابلد رہے ایک عرصہ ،،، شکریہ اپنے والدین کا ) اس نے آکر حکم سنایا اماں جی کے پاس آجاؤ ! ہم وہاں پہنچیں تو نہایت فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کمپاؤڈر صاحب ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی دو پیالیاں پکڑے کھڑے ہیں اور ہمیں پکڑا کر کہا گیا پی لیں جی ! ہم نے جوں ہی منہ کے قریب کیا اُبکائیں آگئیں لیکن ظالم گارڈ کی طرح "قوی ہیکل" نے پیچھےسے کالر پکڑے اور بہت پیار سے کہا " اچھےبچے ایک سیکنڈ میں ختم کرتے ہیں شاباش ! اور ہم نے پی تو لیا لیکن سارا دن جو ہمارے منہ کا ذائقہ رہا وہ آج بھی یاد ہے ،،، اصل کہانی یہ ہے کہ ہم دونوں دوا تیار ہونے سے پہلے گھر کے کسی کونے یا باغ کے کسی درخت کے پیچھے چُھپ جاتیں کہ آج بچ جائیں گی لیکن وہ دو منٹ میں ہم تک پہنچتا ہمیں کالر سے یوں اُچک کر لٹکاتا ، ہَوا میں لہراتا لان میں بیٹھے کمپاؤڈر اور اماں جی کے پاس لے آتا، جیسے چیل اپنے دو پنجوں میں دو چوزے پکڑے ہو ۔ یہ سلسلہ10 دن چلا ،،، لیکن اس سے دشمنی مدتوں چلی ، یہ اور بات کہ ایمانداری ، خدمت گزاری سے اس نے اماں ،ابا کا دل جیت لیا !اور اماں جی اکثر اسے دعا میں یاد رکھتیں !۔
وہیں مری کے ایک اور سال کے قیام کے دوران، شاید میں چھٹی جماعت میں آ چکی تھی کہ میں ایسی بیمار ہوئی کہ ہمارا روزانہ کا سیر کا سلسلہ بند رہا جب ذرا ٹھیک ہوئی تو ہم دونوں اپنے پسندیدہ رسالے لے کر قریبی پارک میں چلی آئیں ! چند منٹ کے بعد دیکھا کہ آج اس پارک میں معمول سے زیادہ تتلیاں اُڑ رہی تھیں ، کمزوری کی وجہ سے میں تو بنچ پر بیٹھی رہی لیکن چھوٹی بہن جسے ہم " جوجی " کہتے ہیں ، نے مجھے خوش کرنے کے لیے تتلیاں پکڑیں اور مجھے پکڑا دیں ۔ میں نے ان تین چار تتلیوں کو فٹا فٹ اپنے رسالے میں دبا کر  بند کر لیا تاکہ گھر جا کر انہیں اپنی آرٹ کی کاپی پر چپکائیں گی ابھی جوجی نے پانچویں تتلی پکڑی ہی تھی کہ ہماری طرف ایک لمبا چوڑا، خاصا سانولا پولیس کا سپاہی آتا نظر آیا۔ جس نے اپنی بیلٹ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ سخت تھکا لگ رہا تھا ،،،،!۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ پولیس کے سپاہی کو دیکھتے ہی میں ڈر جاتی تھی ، کہیں یہ مجھے یا ہمیں پکڑنے تو نہیں آیا ،، ( انتہائی بچگانہ خیال ، اصل میں ہمیں ہمارے والدین نے کبھی یہ ذہن نشین نہیں کرایا کہ تم بھی کسی اہم آفیسر کے بچے ہو ،، مجھے آج بھی یاد ہے کہ کبھی ایک آدھ دفعہ کسی نوکر سے بدتمیزی کی تو اماں جی نے بُلا کر سخت لہجے میں کہا " افسر تمہا راباپ ہے ، تم نہیں !"اپنے سے بڑوں سے خبردار اُونچا بولیں " ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی تھا اور نتیجہ" آج تک اپنے خدمت گاروں کے جذبات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ! بھلے وہ کوئی رویہ بھی اپنائیں )۔
اس سپاہی نے ہمارے ہاتھ میں پکڑے رسالے کی طرف ہاتھ بڑھایا ، میں نے مسمرائز انداز سے رسالہ اسے دے دیا ، اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی ، اس نے رسالہ کھولا اور تتلیوں کو دیکھا اور کہا " اگر اسی طرح تمہیں بھی پکڑ کر ایک چھوٹے پنجرے میں بند کر دیا جاۓ تو تمہارا کیا حشر ہو ؟ یہ ہی کہ تم بھی تڑپ تڑپ کر مر جاؤ گی ، یہ تمہاری شکایت اللہ میاں سے کر رہی ہوں گی " ،،، یہ کہہ کر اس نے تتلیاں زمین پر گرا دیں اور یکدم اپنی راہ ہو لیا ! ! ہم دونوں نے اسے حیرانی سے جاتے دیکھا ،،، پھر تتلیوں کو اور خود ایک دوسرے کو ،،،، کیوں کہ اس نے ایک لفظ اور نہیں بولا ۔ آج سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے وہ محض راہ گزرتا اپنی ڈیوٹی کر کے اس پارک سے گزرنے والا تھا ، یا اس دور میں کم پڑھا ہوا یا ان پڑھ بھی "اقدار" سے آگاہ تھا ،اچھی بات کے لئےگائیڈ کرنا لوگ اپنا فرض سمجھتے ۔چاہے وہ پارک میں بیٹھے اجنبی بچے ہوں ،،،، ان کے نزدیک نصیحت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا تھا ،،،،،،،،، آج ہم کسی کو اس خیال سے کوئی سیدھی اور صحیح بات بتا رہے ہوں کہ معاشرے میں  سوک سنس  بڑھے اور ہم اپنا فرض نبھائیں لیکن آگے سے ایسا سُننے کو ملتا ہے " ہمیں پتہ ہے کیا کرنا ، کیا نہیں کرنا ،" وغیرہ وغیرہ !۔
بات تتلیوں کی ہورہی تھی کہ وہ دن آج کا دن تتلیوں کی محبت اور ان کی حفاظت جیسے ذہن میں ٹھہر گئی ہے ! شکریہ ، اجنبی پولیس کے تھکے ہوۓ سپاہی !!!!۔
مری کے دورانِ قیام اباجی کبھی کبھار ہمیں فلم دکھانے لے جاتے جو آرمی میس میں ہی دکھائی جاتی ، اس دوران ہماری بڑی بہن جنھیں ہم آپا کہتے تھے اگر آ کر رہتیں تو جیسے ہماری عید ہو جاتی وہ ہم بہن بھائی سے 10 ،11 سال بڑی تھیں ۔ اور ان کے بچے ہمارے جان جگر !! ۔
آپا کو اپنے روز و شب کی  چھوٹی سے چھوٹی بات بتائی جاتی ، ہماری کوشش ہوتی آپا ہمارے معاملات میں شامل ہو جائیں لیکن وہ اماں جی کے پاس زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر چند دن میں چلی جاتیں ،،،، اس دوران ہماری ایک عزیز ترین سہیلی ہمارے پاس ایک ماہ گزارنے آئی ، لیکن ہم چند دن میں اس سے اُکتا گئیں ،،، اس کے والدین اور ہمارے والدین بہت اچھے تعلقات رکھتے تھے راولپنڈی میں اس کا اور ہمارا ہر تیسرے دن والہانہ ملنا ہوتا ،،، لیکن مری میں اس کا رہنا اُ کتاہٹ کا باعث بنا ،،،اور جب وہ مہینہ مکمل کر کے گئی تو ہم دونوں نے شکر کیا ،،،، بعد میں اماں جی نے پوچھا بھی کہ تمہاری اتنی دوستی ہے لیکن تم اس کے آنے پر خوش نہیں ہوئیں تو ہمارے پاس کوئی خاص جواب نہ تھا ،،،، کچھ عرصہ بعد ذرا شعور آیا تو اپنی اس اُکتاہٹ کی وجہ یہ سمجھ آئی کہ شہر میں وہ تھوڑی دیر کے لۓ آتی تھی ، اب جب زیادہ دنوں کے لیے آئی تو چند دن میں احساس ہوا کہ اسے " نہ تو ہماری طرح رسالے پڑھنے سے دلچسپی تھی نہ ہی باغ میں " خزانے کی کھدائی کرنے سے ( یہ بھی ہم دونوں کا خفیہ پلان تھا ، جو اس عمر میں اکثر بچوں کا ہوتا ہے کہ ضرور اس باغ میں خزانہ ہوگا جو ہماری محنت سے ملے گا تو ہماری واہ واہ ہو جاۓ گی  ،، نہ ہی اسےہمارے پڑوسیوں سے ادب سے بات کرنے کا سلیقہ تھا (وہی جو ادب آداب والے وضع دارپڑوسی تھے )،،، اور یوں 30 دنوں کے قیام نے اس کے اور ہمارے مزاج کے بُعد کو نمایاں کر دیا ،،، اسی لیے وقت کے ساتھ ساتھ دوستیاں بدلتی رہتی ہیں ،،، کبھی ہم جلدی میچور ہو جاتے ہیں اور کبھی دوست!!!۔
( جاری )
( منیرہ قریشی ،22 اگست 2017ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں