"اِک پرِ خیال "
' مینا بازار' ( 25)۔
ایک مدت بعد ایک بہت پرانے ملنے والوں سے ملنا ہوا ، بہت اصرار سے بلایا ،، ایک دن اسی علاقے میں جانا ہوا سوچا آج پرانی یادوں کو تازہ کرتے چلیں ۔ وہی دادا کے زمانے کا گھر ، وہی تنگ گلی ، جس کی دونوں جانب بدبُودار نالیاں ،، وہی اُس زمانے کی سڑک ، جس کی حالت کبھی اطمینان بخش نہیں رہی ، یہ صورتِ حالات دلگرفتہ تھی کہ کیا تیس پینتیس سال اس علاقے ، اس گلی محلے ، کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ گھر داخل ہوۓ تو گھر کا سِٹ اَپ با لکل وہی تھا ، اندر کے کمروں میں اب ایک کے بجاۓ دو قالین اوپر تلے بچھے تھے ،، لیکن کمروں میں وہی " کارنس پر برتنوں کی لائن سجی تھی ، گویا اگر وہ برتن ضرورت پڑ جائیں تو پہلے پلنگ پر چڑھیۓ ، پھر برتن اتاریں ۔ وہی دیہاتی سٹائل ۔۔ کچن تو جانا نہیں ہوا ، کہ منا سب بھی نہیں تھا ، لیکن غسل خانہ ، نا معقول انداز کی سہولتوں والا ،، ،، ،، دراصل یہ گھرانہ ، آج کا نہیں ہمیشہ سے خوش حال رہا تھا اس لیۓ ، حیرت ہوئی کہ آج یہ خوش حالی بلکہ اور ذیادہ ہو چکی تھی ، پھر بھی " سوچ " کی گھڑی 40 سال پہلے کا وقت دکھا رہی تھی ۔گھر کے بچوں سےباری باری تعارف ہوتا گیا ، " یہ میری بڑی بیٹی ہے اس نے ڈبل ایم اے کیا ہے ،، یہ دوسری ہے ایم بی اے کرکے اب اپنا ٹیوشن سنٹر چلا رہی ہے ،، یہ داماد ہے ، ابھی ایم فل کر کے آیا ہے جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے ۔۔ اور یہ بڑی بہو ہے ، جو گولڈ میڈلسٹ ہے ، سائنس کے( کسی) مضمون میں ایم ایس سی ، کیا ہے اب اپنا سکول چلا رہی ہے ،، چھوٹی بہو ، نےبھی اکنامکس میں ایم ایس سی کیا ہوا ہے ، پہلے بنک میں تھی ، لیکن صبح سے شام تک کے اوقات ذیادہ تھے ، فی الحال گھر پر ہوتی ہے ،، تیسری اور چوتھی بیٹیاں ، باہر کے کسی ملک میں تھیں ،،، گویا سواۓ ، ماں باپ کے جو کم پڑھے لکھے تھے باقی " اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ " تھا۔گھر کی حالت سے بہت خوش حالی کا اظہار کم اور پھوہڑ پن کا اظہار ذیادہ ہو رہا تھا۔بہت خوبصورت ٹی سیٹ میں ، بڑی بہو نے چاۓ پیش کی ، اس نے پیالیاں ٹرے سے نکال کر میز پر لگائیں تو سبھی پیالیوں کے اندر انگلی ڈال کر پرچ پر رکھیں ،، جو میرے لیۓ کچھ اچنبھے کا باعث تھا کہ آج کل ایک سے دو دفعہ ملازمہ کو بھی یہ تربیت دی جاۓ تو وہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ یہ بات آداب کے منافی ہے ۔ جس کمرے میں ہمیں بٹھایا گیا تھا ،، اس کی ایک جانب ایک اچھا پلنگ بچھا تھا جس کے دیوار کی طرف ایک دو چھوٹی پلاسٹک کی ٹوکریاں اور ان میں دوائیاں پڑی تھیں جبکہ انہی کے اوپر چند کتابیں دھری تھیں ۔ اور اُن پر ایسی دھول تھی جو چند دن قبل کی صفائی کا اظہار کر رہی تھی ۔ ،،، اس دوران کچھ مختلف عمروں کے بچے اندر آۓ ، اپنی کچھ چیزیں لیں اور واپس ہو گئے، ان میں سے کسی بچے نے سلام نہیں کیا بلکہ انھوں نے بلینک چہروں سے ہمیں دیکھا اور نکل گۓ ۔ ان بچوں کے والدین " اعلیٰ تعلیم " یافتہ تھے ۔ لیکن اس صورتِ حال سے یوں لگا جیسے ، ابھی ابھی نہایت اعلیٰ ڈگریوں کے " مینا بازر " کے سٹال دیکھتے ہوۓ گزری ہوں ۔ بیرونِ ملک کی ڈگریوں ، یا پاکستان کی اچھی یونیورسٹوں ، یا گولڈ میڈلز نے ان کے رہن سہن ، یا دولت کے بےکار استعمال میں باقی "آداب یا سلیقے" کو گھر سےدربدر کر رکھا تھا ۔
اسی طرح کچھ ایسے ہی "ڈگریوں بھرے " گھرانوں میں بھی دیکھا کہ بات کے لیۓ کوئی موضوع نہیں ہوتا بزرگ تو پرانے رشتوں اور باتوں کو دہرا کر کسی نا کسی طرح وقت گزار رہۓ تھے ،، اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ اولادوں میں لڑکیاں زور و شور سے برینڈڈ کپڑے اور میک اَپ ڈسکس کرتی ہیں ،، یا پچھلے اگلے سبھی رشتے داروں ،، کی تمام کمزوریوں کو یوں زیرِ بحث لاتی رہتی ہیں جیسے اس کے علاوہ تمام موضوعات ختم ہو گۓ ہیں ،،، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کتابیوں میں کیا پڑھا تھا ؟؟؟
کچھ اعلیٰ ترین ڈگروں سے مزین ،،، ایسے افراد بھی ہیں ، جن کے نزدیک ، مہمان دور سے آیا ہے یا نزدیک سے ،، مدت بعد ملا ہے یا اکثر ملنے والا ہے ،،، وہ ایک جیسا بے لچک رویہ اپناۓ رکھتے ہیں ۔ جو مدت بعد آنے والے یا بہت دور سے آنے والے کے لیۓ ، دل آزاری کا باعث ہوتا ہے ۔ ،،،، سوچتی ہوں کیا ہم آج کل" "ڈگریوں کے مینا بازار " سے گزر رہے ہیں ، جہاں سٹالز میں لگی رنگین ڈگریاں سجی ہیں ،، آپ متاثر ہوۓ تو ٹھیک ورنہ آگے اور بھی سٹالز ہیں ،، مزید میڈلز ،،،، مزید متاثر کرنے کے "ہتھیار" ،،،، یا ،،،،ہم ڈگریوں کے " اتوار بازار " سے گزر رہے ہیں جہاں سوچ اور فہم کی گھڑی کی سوئیاں تیزی سےتو گھوم رہی ہیں ۔ لیکن بے حسی کی کیفیت کے ساتھ !!۔
حضرت ابنِ مبارکؒ کا قول ہے " " ہمیں ذیادہ علم حاصل کرنے سے بڑھ کر تھوڑے سے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے " ۔
( منیرہ قریشی ، 15 جنوری 2019ء واہ کینٹ )
' مینا بازار' ( 25)۔
ایک مدت بعد ایک بہت پرانے ملنے والوں سے ملنا ہوا ، بہت اصرار سے بلایا ،، ایک دن اسی علاقے میں جانا ہوا سوچا آج پرانی یادوں کو تازہ کرتے چلیں ۔ وہی دادا کے زمانے کا گھر ، وہی تنگ گلی ، جس کی دونوں جانب بدبُودار نالیاں ،، وہی اُس زمانے کی سڑک ، جس کی حالت کبھی اطمینان بخش نہیں رہی ، یہ صورتِ حالات دلگرفتہ تھی کہ کیا تیس پینتیس سال اس علاقے ، اس گلی محلے ، کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ گھر داخل ہوۓ تو گھر کا سِٹ اَپ با لکل وہی تھا ، اندر کے کمروں میں اب ایک کے بجاۓ دو قالین اوپر تلے بچھے تھے ،، لیکن کمروں میں وہی " کارنس پر برتنوں کی لائن سجی تھی ، گویا اگر وہ برتن ضرورت پڑ جائیں تو پہلے پلنگ پر چڑھیۓ ، پھر برتن اتاریں ۔ وہی دیہاتی سٹائل ۔۔ کچن تو جانا نہیں ہوا ، کہ منا سب بھی نہیں تھا ، لیکن غسل خانہ ، نا معقول انداز کی سہولتوں والا ،، ،، ،، دراصل یہ گھرانہ ، آج کا نہیں ہمیشہ سے خوش حال رہا تھا اس لیۓ ، حیرت ہوئی کہ آج یہ خوش حالی بلکہ اور ذیادہ ہو چکی تھی ، پھر بھی " سوچ " کی گھڑی 40 سال پہلے کا وقت دکھا رہی تھی ۔گھر کے بچوں سےباری باری تعارف ہوتا گیا ، " یہ میری بڑی بیٹی ہے اس نے ڈبل ایم اے کیا ہے ،، یہ دوسری ہے ایم بی اے کرکے اب اپنا ٹیوشن سنٹر چلا رہی ہے ،، یہ داماد ہے ، ابھی ایم فل کر کے آیا ہے جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے ۔۔ اور یہ بڑی بہو ہے ، جو گولڈ میڈلسٹ ہے ، سائنس کے( کسی) مضمون میں ایم ایس سی ، کیا ہے اب اپنا سکول چلا رہی ہے ،، چھوٹی بہو ، نےبھی اکنامکس میں ایم ایس سی کیا ہوا ہے ، پہلے بنک میں تھی ، لیکن صبح سے شام تک کے اوقات ذیادہ تھے ، فی الحال گھر پر ہوتی ہے ،، تیسری اور چوتھی بیٹیاں ، باہر کے کسی ملک میں تھیں ،،، گویا سواۓ ، ماں باپ کے جو کم پڑھے لکھے تھے باقی " اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ " تھا۔گھر کی حالت سے بہت خوش حالی کا اظہار کم اور پھوہڑ پن کا اظہار ذیادہ ہو رہا تھا۔بہت خوبصورت ٹی سیٹ میں ، بڑی بہو نے چاۓ پیش کی ، اس نے پیالیاں ٹرے سے نکال کر میز پر لگائیں تو سبھی پیالیوں کے اندر انگلی ڈال کر پرچ پر رکھیں ،، جو میرے لیۓ کچھ اچنبھے کا باعث تھا کہ آج کل ایک سے دو دفعہ ملازمہ کو بھی یہ تربیت دی جاۓ تو وہ بھی سیکھ لیتا ہے کہ یہ بات آداب کے منافی ہے ۔ جس کمرے میں ہمیں بٹھایا گیا تھا ،، اس کی ایک جانب ایک اچھا پلنگ بچھا تھا جس کے دیوار کی طرف ایک دو چھوٹی پلاسٹک کی ٹوکریاں اور ان میں دوائیاں پڑی تھیں جبکہ انہی کے اوپر چند کتابیں دھری تھیں ۔ اور اُن پر ایسی دھول تھی جو چند دن قبل کی صفائی کا اظہار کر رہی تھی ۔ ،،، اس دوران کچھ مختلف عمروں کے بچے اندر آۓ ، اپنی کچھ چیزیں لیں اور واپس ہو گئے، ان میں سے کسی بچے نے سلام نہیں کیا بلکہ انھوں نے بلینک چہروں سے ہمیں دیکھا اور نکل گۓ ۔ ان بچوں کے والدین " اعلیٰ تعلیم " یافتہ تھے ۔ لیکن اس صورتِ حال سے یوں لگا جیسے ، ابھی ابھی نہایت اعلیٰ ڈگریوں کے " مینا بازر " کے سٹال دیکھتے ہوۓ گزری ہوں ۔ بیرونِ ملک کی ڈگریوں ، یا پاکستان کی اچھی یونیورسٹوں ، یا گولڈ میڈلز نے ان کے رہن سہن ، یا دولت کے بےکار استعمال میں باقی "آداب یا سلیقے" کو گھر سےدربدر کر رکھا تھا ۔
اسی طرح کچھ ایسے ہی "ڈگریوں بھرے " گھرانوں میں بھی دیکھا کہ بات کے لیۓ کوئی موضوع نہیں ہوتا بزرگ تو پرانے رشتوں اور باتوں کو دہرا کر کسی نا کسی طرح وقت گزار رہۓ تھے ،، اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ اولادوں میں لڑکیاں زور و شور سے برینڈڈ کپڑے اور میک اَپ ڈسکس کرتی ہیں ،، یا پچھلے اگلے سبھی رشتے داروں ،، کی تمام کمزوریوں کو یوں زیرِ بحث لاتی رہتی ہیں جیسے اس کے علاوہ تمام موضوعات ختم ہو گۓ ہیں ،،، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کتابیوں میں کیا پڑھا تھا ؟؟؟
کچھ اعلیٰ ترین ڈگروں سے مزین ،،، ایسے افراد بھی ہیں ، جن کے نزدیک ، مہمان دور سے آیا ہے یا نزدیک سے ،، مدت بعد ملا ہے یا اکثر ملنے والا ہے ،،، وہ ایک جیسا بے لچک رویہ اپناۓ رکھتے ہیں ۔ جو مدت بعد آنے والے یا بہت دور سے آنے والے کے لیۓ ، دل آزاری کا باعث ہوتا ہے ۔ ،،،، سوچتی ہوں کیا ہم آج کل" "ڈگریوں کے مینا بازار " سے گزر رہے ہیں ، جہاں سٹالز میں لگی رنگین ڈگریاں سجی ہیں ،، آپ متاثر ہوۓ تو ٹھیک ورنہ آگے اور بھی سٹالز ہیں ،، مزید میڈلز ،،،، مزید متاثر کرنے کے "ہتھیار" ،،،، یا ،،،،ہم ڈگریوں کے " اتوار بازار " سے گزر رہے ہیں جہاں سوچ اور فہم کی گھڑی کی سوئیاں تیزی سےتو گھوم رہی ہیں ۔ لیکن بے حسی کی کیفیت کے ساتھ !!۔
حضرت ابنِ مبارکؒ کا قول ہے " " ہمیں ذیادہ علم حاصل کرنے سے بڑھ کر تھوڑے سے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے " ۔
( منیرہ قریشی ، 15 جنوری 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں