ہفتہ، 26 جنوری، 2019

اِک پَرِ خیال" (28)۔

" اِک پَرِ خیال"
' لمحہء اچانک کا وار' (28)۔
جب کبھی ہمیں سمتوں پر بحث سننے کو ملتی ہے، تو یہ ہی کہا جاتا ہے ، سمتیں چھے ہوتی ہیں ، دائیں ، بائیں ، آگے پیچھے ، اوپر نیچے ،،،، لیکن ان سمتوں کی طرح " حسیات " کا ذکر بھی ہو ، تو یہ ہی علم ملتا ہے کہ بولنے، سننے ، چکھنے ، چھونے ، دیکھنے ، اور " محسوس" کرنے کی صلاحیت ۔ جسے چھٹی " حس" بھی قرار دیا جاتا ہے ، یعنی وہ "حس " جو دیکھی ، سنی نہیں جا سکتی لیکن اس کی اہمیت اور موجودگی سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ،،،،، یہ ہی چھٹی حِس ، ہمیں آنے والی کسی " خبر " کی ( چاہے اچھی ، چاہے بُری ) کا احساس دلاتی ، اور خبردار کرتی ہے ،،، کہ کچھ ہونے والا ہے !!تمام " حسیات " ،،تمام سمتیں ،،، جان لینے کے ہونے کے باوجود ایک سمت یا حِس ،،،، اور ہے ، جسے " کیفیت " کا نام دیا جاۓ تو صحیح رہے گا۔ اس کا احساس یا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم پر " لمحہء اچانک " وار کرتا ہے ! جی ہاں " وار " کا لفظ اس لیۓ استعمال کیا ہے کہ " کیفیت" اسی وار سے " محسوس " ہوتی ہے ۔ اور یہ سیکنڈ کے سوویں یا ہزارویں حصے کا دورانیہ ہوتا ہے ،،، لیکن انتہائی شدت سے اپنے اثرات دکھاتا ہے ۔ وہ اس طرح کہ ،،،" رات کے وقت گھر کے اندر ہم بجلی کی روشنیوں سے خود کو دور نہیں رکھ سکتے ، سوتے وقت بھی ایک آدھ بلب لاؤنج کا ،، یا برآمدے کا ،، جلاۓ رکھتے ہیں تاکہ اس کی روشنی چِھن کر کہیں نا کہیں سے کمرے کے اندھیرے کو " نیم اندھیرے "میں بدل دیتی ہے ۔ ،،، یا کمرے میں زیرو کا بلب ہمیں اندھیرے کے " خوف " سے دور رکھنے میں مدد دیتا ہے ۔ لیکن اس دوران کبھی بجلی کسی وجہ سے چلی جاۓ، بھلے لوڈ شیڈنگ ہوئی ،یا فیوز اُڑا ۔ لیکن کمرے کا اندھیرا ، باہر کا اندھرا ، خاموشی کی شدت اور " رات کا اندھیرا " مل کر ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہمیں بُھلا دیں گے کہ ہم
" کون ہیں ، کیا ہیں ، کیا پڑھ رہے تھے ، ہم کس سمت ' میں
بیٹھے ہیں ، ،،،،، یا ہم " تھے " !! یا ہیں ؟؟؟
بہ عینہ ایسے ہی روزِ روشن ہے ، ہم کھُلے دروازوں اور کھڑکیوں کی
دھوپ ، اور روشنی سے کامل لُطف اُٹھا رہے ہوں ،، کسی کتاب
کا مطالعہ ہو رہا ہو ، یا ، ، ، کوئ عبادت کی محویت ہو ،، اگر اس دوران
" ایک لمحہ کے ہزارویں حصے " کے دورانیے کی "شدید روشنی " نے لپکا ،
مارا تو وہی حالت ہو جاتی ہے ،،،،،
" کیا ہوا ، ہم کون ہیں ، کیالفظ پڑھ رہے تھے ، منہ کس
جانب تھا ،، ہم ہیں ،، ،، یا ہم نہیں ہیں،، یا ہم تھے ؟؟؟
گویا ،، ہم اپنے تیئں لمحہء اچانک کے وار سے سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں " معدوم " ہو جاتے ہیں ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کیوں کہ چھے سمتیں اور چھے حسّیات ، مل کر اس " لمحہء اچانک" کے وار کوسہتی ہیں !! نتیجتہ" ری ایکشن" تو ہونا ہی ہے ۔ اور فطرت ، کا قدرت سے ٹکراؤ کوئی نا کوئی بڑا واقعہ سامنے لے ہی آتا ہے ، چاہے وہ دنیاوی تبدیلی ہو ،یا ،،انسانی جبلت میں حیران کن تبدیلی !! ! انسانی وجود پر یہ لمحہء اچانک ، "لمحہء معدوم " بن کر وارد ہو جاتا ہے ۔
جب ہم " معدومیت " ساتھ لیۓ پھِر رہے ہیں تو ہم کیوں اس قدر " مَیں " میں ڈوبے رہتے ہیں ۔ آہ ، ۔
( منیرہ قریشی ، 26 جنوری 2019ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں