پیر، 21 جنوری، 2019

" اِک پَرِ خیال (27)"

" اِک پَرِ خیال"
' سخاوت ' ( 27)۔
لفظ " سخاوت " میں کیا خوبصورتی ہے کہ جب اس لفظ کو لکھا دیکھیں تب بھی خوبصورتی جھلک رہی ہوتی ہے اور ،، اگر بولتا سنیں تو تب بھی اس لفظ کا اپنا حُسن سنائ دیتا ہے ۔ کیوں کہ یہ " صفتِ الہیٰ " کا عکس لیۓ لفظ ہے اگر لفظ کی اتنی خو بصورتی ہے تو اس صفت کو " اپنانے " والے کی کیا شان ہو گی ، ، لیکن ہم اس " صفتِ الہیٰ " رکھنے والے لفظ کو محدود کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو کھانا کھلانا ، کسی کو مالی مدد دینا ، کسی عوامی جگہ کی فلاح کے خیال سے ، مسجد ، ہسپتال ، سکول یا کنواں کھدوانا ، کسی راستے کو ہموار کر وا دینا ،،، کوئی شک نہیں یہ کام کرنے والا " سخی " کہلاۓ گا ،،، لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ پیسہ ہوتے ہوۓ بھی " سخاوت کی صفت نہیں آ پاتی ، ( یقیناً یہ اللہ کا فضل ہے کہ وہ پیسے کی محبت دل میں نہ  ڈالے)  اور کسی نے پیسے ہوتے ہوۓ ، مال کا صحیح استعمال کیا ، یہاں اس شخص کی نیت بہت اہم ہوتی ہے ۔ کیا اس نے دل سے مخلوقِ خدا کی خدمت کا پہلو سوچا !کیا اس نے یہ سب نمائشی کیا ، اپنی انا کی تسکین کے لیۓ !!کیا یہ سب اس نے اللہ کی محبت میں کیا ،، !!اور یہ ہی نیت اس کے لیۓ " دنیا و آخرت " کی فلاح کا باعث بنے گی ۔
یہاں ہمارے سامنے ایک اور پہلو بھی سامنے آتا ہے ، کہ جس نے یہ نیک کام کیۓ ، ایک تو اس کے پاس ایک ہنر تھا ، ایک سوچ تھی ، جسے اس نے کام میں لایا / لائی ۔ اور فلاحِ عامہ کو فائدہ پہنچایا ۔
دوسرے ، اس شخص نے اپنی محنت کی کمائی کو ان جگہوں ، کاموں ، اور لوگوں پر خرچ کیا ، جو اس کے کچھ نہیں لگتے ، جن سے اسے بہ واپسی کچھ نہیں ملنا ، یا چاہنا ۔ تو گویا " بے نیازی "بھی سخاوت ہے ۔
سخاوت کی ان اقسام کو ہم سب جانتے ہیں ، ، لیکن سبھی لوگ یہ بڑے اور ارفعٰ کام نہیں کر پاتے ،، تو وہ ایسا تو کر سکتے ہیں کہ ، جو مہمان گھر آۓ اور وہ آپ کے لیۓ نا پسندیدہ ہے ،،، تو اب اس سے مسکرا کر بولنا ، اس کے لیۓ کھانے یا چاۓ کا اہتمام کر دینا ،،،، آپ سےکسی نے مشورہ مانگا ، آپ نے دلی خلوص سے اچھا مشورہ دیا ،، بلکہ آگے بڑھ کر ، کسی ان پڑھ یا کم پڑھے کو درخواست لکھ دی، تاکہ وہ نوکری کے لیۓ اپلاۓ کرے ، اور پھر نوکری مل گئی ،، تو دراصل اب اس کے گھر کی خوشحالی میں آپ کے دیۓ چند منٹ شامل ہیں اور تا حیات رہیں گے۔ 
اگر کسی ہم منصب نے آپ سے پوچھ لیا ، یہ کپڑا ، یہ صؤفہ ، یہ برتن ، کتنا خوبصورت ہے ، کہاں سے لیا ؟؟ اب آپ آئیں بائیں شائیں کر کے بات ٹالنے کی کوشش نہ کریں ، اسے مکمل معلومات دیں ، کس دکان سے کتنے میں لیا ،، " آپ اسے اتنی قیمت نہ دینا ،، مجھے لگا مجھ سے کچھ ذیادہ قیمت لی ہے ،" وغیرہ وغیرہ ،،، یہاں آپ کے کھلے ذہن کی " سخاوت " جھلکتی ہے ۔ حتیٰ کہ کھانے کی تراکیب بتانے میں کئی خواتین فضول بُخل سے کام لیتی ہیں ، جو " تنگ دلی " کو ظاہر کرتا ہے ، تو گویا سخاوت کا اُلٹ بُخل ہے ، جسے اپناۓ رکھنا ، کسی صورت پسندیدہ عادت نہیں ، نہ اللہ کی نظر میں ، نہ اخلاقی اور معاشرتی نگاہ سے ۔ 
" حاتم طائ " تک اسلام کا پیغام نہیں پہنچا تھا ،، لیکن اس نے اپنی فطرت میں سے اس " صفت " کو کبھی کم نہ ہونے دیا ،، اور وہ آج تک سخاوت کی علامت یا استعارہ بنا ہوا ہے ،، حتیٰ کہ اس کے بیٹے عدی بن حاتم ، اور حاتم کی بیٹی کو اسلام کے پھیلنے کے دوران ایک غزوہ میں بطورِ قیدی تو لایا گیا ،،، لیکن ان سے عام قیدیوں کی طرح کا سلوک نہیں کیا گیا ، بلکہ عزت و احترام کا وہ مظاہرہ ہوا کہ " عدی بن حاتم نے دینِ اسلام میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگائ ۔ ان کو یہ عزت اپنے والد کے بے مثل سخاوت نے دلائی ۔ گویا آج کی گئی سخاوت اگلی نسل یا شاید کئی نسلوں تک احترام کا ورثہ پاتی چلی جاۓ گی ۔ بس ذرا اپنا جائزہ ، روزانہ کی بنیاد پر کیا جاۓ ، کہ آج میں نے کسی کو خوش دلی سے برداشت کیا ؟ آج میں نے کسی کو پُر خلوص مشورہ دیا ؟۔ کیا آج میں نے اپنی بساط مطابق کسی کی مالی مدد دی ؟ کیا میں نے آج کسی کو ( فون پر ہی سہی ) حال احوال پوچھا؟؟ شاید اسے کچھ مالی پریشانی نہ ہو ، کہ بیماری والے گھر کا بجٹ اَپ سِٹ ہوتا چلا جاتا ہے ،،،، خاموشی سے پہنچائیں ، کیوں کہ پردہ پوشی کرنا بھی " صفتِ الہیٰ " میں سے ایک صفت ہے ۔ کیا آج کسی ضرورت مند طالبِ علم کی فیس دی ؟؟، اور جب وہ آپ کی معمولی مدد سے کبھی منزل تک پہنچا ، تو دراصل اس کے گھر کی خوشیوں میں آپ کی نرم دلی والی سخاوت شامل ہو گی ،، اور پتہ نہیں کتنے مسائل سے آپ کو دور کر دیا گیا ہو ! اور کیا بارش میں آپ نے اپنی کار میں کسی بھیگتے بندے یا خاندان کو سہولت دی اور انھیں گھر تک پہنچایا ؟؟ سخاوت کے دائرے کو محدود نہ کریں ،" ہمارے رب کو بخیل مسلمان کی نسبت سخی کافر ذیادہ پسند ہے ( شاید یہ حدیث ہو ، میَں کنفرم نہیں ہوں ) ،،، یاد رہۓ ، ہماری تمام عبادات اپنی جگہ ، لیکن حقوق العباد میں آگے بڑھ کر حصہ لینے والے کا الگ ہی مقام ہے۔
قرآن مجید و فرقان حمیدکی سورۃ تغابن آیت نمبر 16 میں اللہ کریم و رحیم فرماتا ہے !" سو جہاں تک ہو سکے خدا سے ڈرو ، اور اس کے احکام کو سنو ،اور اس کے فرمانبردار رہو ، اور اس کی راہ میں خرچ کرو ، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے ، اور جو شخص طبیعت کے بُخل سے بچا لیا گیا ، تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ، اگر تم اللہ کو خلوصِ نیتِ نیک سے قرض دوگے ، تو وہ تم کواس کا دو چند دے گا ۔اور تمہارے گُناہ بھی معاف کر دے گا ، اور خدا قدر شناس اور بُردبار ہے ، پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ، غالب اور حکمت والا "۔
( منیرہ قریشی ، 21 جنوری 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں