" اِک پَرِ خیال"
' عالی نسب یا خاندانی' (29)۔
کچھ زبانوں میں کچھ الفاظ کے معنی ، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں ۔ یا ،، ہوتے رہنے چا ہییں ، کیوں کہ دنیا میں ہر دوسرے ہفتے ٹیکنالوجی نے حیران کن تبدیلیاں دی ہیں ، اور موسموں نے اپنے رنگ ڈھنگ بدل لیۓ ہیں ،، اور دنیا میں موجود ارب ہا انسان اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ نہ صرف ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن ،، بلکہ لباس ، کھانے اور زبانوں پر بھی اثر انداز ہو رہۓ ہیں ،،،، تو عادات و خصلتوں کے لحاظ سے بھی کیوں نہ اثر پزیری ہو !!پہلے زمانے میں ملکوں ، اور قوموں کی آپسی میل ملاپ بہت آہستگی سے پنپتا تھا ۔ لیکن جب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اقوام نے تیزی سے ملنا جلنا شروع کیا تو علم ہوا کہ کچھ عادات سے جُڑے الفاظ اور ضوابط بین الاقوامی پہچان لیۓ ہوتے ہیں ،اور وہ دنیا کے ہر خطے میں وہی معنی رکھتے ہیں ، مثلا" جھوٹ نہ بولو،، چوری نہ کرو ، دوسروں کا حق نہ کھاؤ ، بڑوں کا ادب کرو ،، ماحول صاف اور سر سبز رکھو وغیرہ وغیرہ !!لیکن جہاں حسب نسب کا قصہ کہانی شروع ہوئی ، وہاں دنیا کے ہر خطے والے ، ہاتھ میں پکڑے "نسب کے مورچھَل" ہلانے لگتے ہیں ، کیوں کہ ذرا سا بھی بہتر پس منظر رکھنے والا، چاہتا ہے ، بس "اِسی" کی اہمیت تسلیم کی جاۓ !! بس " اسی " کو دیکھا جاۓ ، اور سُنا جاۓ ،،،، !شاید یہ انسانی فطرت بھی ہے ، کہ کہیں سے کسی حوالے سے اس کی شخصیت پربھی کچھ چاند تارے ٹانک دیۓ جائیں ۔ تسلیم کیا جاۓ کہ یہ ہیں " ہم "،،،، جی ہم "لیکن ، یہ اَور بات کہ اِس " ہم " میں ذیادہ تروہ ہیں جن میں کوئی " گُن " نہیں ۔ کوئی اقدار کا پاس ، ، کوئی اُصولِ پاسداری ،، کوئ ضابطہء زندگی نہیں ،، کوئ زبان کا پاس ،، کوئ زبان کی احتیاط نہیں رہی ،، گویا " کلر ذدہ " فطرت لیۓ وقت گزار لیتے ہیں ، ، ۔ یہ " ہم ذدہ لوگ " ،،،،، پدرم سلطان بُود کے تحت چار پیسے آجانے پر دوسروں کو نظریں ٹیڑھی کر کے دیکھتے رہتے ہیں ،،،،،،اور کچھ ایسے " ہم " ہیں جو ذرا سا اختیار یا اقتدار یا مال آجانے پر تکبر کے پہاڑ کی چوٹی پر جا بیٹھتے ہیں ۔ جہاں سے باقی لوگ انھیں ، چیونٹیاں لگنےلگتے ہیں ،،بلکہ ذہنی پسماندہ ، اور احمق بھی ۔ اسی لیۓ وہ دل کھول کر امانت کے طور پر دی گئ حیثیت اور مال کو اتنی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں کہ اپنے وقت کے " فرعون " بن جاتے ہیں ، اپنا اور اپنی اگلی آٹھ دس نسلوں کا مستقبل محفوظ کرلیتے ہیں ، اور اس قدر شاد کام ہوجاتے ہیں ، کہ یہ " " ہم ذدہ " لوگ تمام اُصول و قانون ، کو پاؤں کی دھول سمجھ کر اپنے دورِ اقتدار کو گزار لیتے ہیں ۔ لیکن اپنی ذات کے حوالے سے ذلت آمیز جملوں ، مقدموں ، اور چوریوں کا کُھل جانے سے اُن کی مسکراہٹوں پر کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ کسی معصوم کو قتل کر کے عدالتوں کے باہر وکٹری کا نشان یوں بنارہے ہوتے ہیں ، جیسے انھوں نے ملک کی سرحدوں کو بچانے میں کوئی اہم کارنامہ انجام دیا ہے ،،،، بس وہ ایک مطالبہ ضرور کرتے نظر آئیں گے " دیکھیں جی، آخر ہم خاندانی لوگ ہیں " ،،،، ہماری گلی کا سویپر یا صفائی والا ، روزانہ صبح تڑکے ، پوری گلی، جو ڈیڑھ فرلانگ تک کی ہے،، کی صفائی کرتا ہے ، نیز ہر گھر کے باہر پڑا کوڑا بڑے کوڑے دان میں ڈالتا ہے ،،اس بڑے کوڑے دان کے گرد پڑے گند کو بھی کوڑے دان میں ڈال دیتا ہے ۔ اِس بارے کسی گھر سے اس کی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ ساری سٹریٹ ہمیشہ صاف ہوتی ہے ۔جب کبھی عید ، رمضان کے مواقع ہوں ، وہ اپنی شکل اکثر گھر والوں کو دوپہر کی روشنی میں دکھا دیتا ہے ، ، تاکہ اُس کی سال بھر کی ایماندارانہ خدمات پر جو جتنا دینا چاہے دے بھی دے ! اسے بھی کچھ سہولت مل جاۓ ،،، یہ اُس کا حق بھی ہے۔
میَں سلیم سویپر کو ہمیشہ " خاندانی " آدمی بولتی ہوں ۔ کیوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بہ احسن اور دیانت داری سے پوری کرتا ہے ،، وہ اپنی تنخواہ کے علاوہ ، اہم مواقع پر ہی دن کی روشنی میں دروازہ کھٹکھٹاتا ،، اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ۔ورنہ گرمی ، سردی تڑکے ہی اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے ۔ اس نے کبھی بے جا ، لالچ کا مظاہرہ نہیں کیا ۔۔۔ تو میرے نزدیک " یہ خاندانی " ہوا ۔
لہٰذا ،،لفظ خاندانی اور عالی نسب ہونے کے معنی بدل دیۓ جانے چاہییں ، ورنہ اِن الفاظ کی توہین ہوتی جاۓ گی ۔ اور ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے ، جو ایسے " بے پیندے کے ہم ذدہ " لوگوں کو سلام کرتے ، اور اُن سے اپنا تعلق جوڑنے میں فخر کرتے نظر آئیں گے ۔ اُن کی خوش آمد کر کے اپنے آپ کو بے توقیر کرتے رہیں گے ۔ خاندانی صرف وہ ہے جس کے ہر طرح کےشر سے دوسرے محفوظ ہیں ۔ اور جو اپنے دائرہء اختیار و اقتدار کو ایمان داری ، دیانت داری سے استعمال کرتا ہے ۔
( منیرہ قریشی 30 جنوری 2019ء واہ کینٹ )
کچھ زبانوں میں کچھ الفاظ کے معنی ، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے جاتے ہیں ۔ یا ،، ہوتے رہنے چا ہییں ، کیوں کہ دنیا میں ہر دوسرے ہفتے ٹیکنالوجی نے حیران کن تبدیلیاں دی ہیں ، اور موسموں نے اپنے رنگ ڈھنگ بدل لیۓ ہیں ،، اور دنیا میں موجود ارب ہا انسان اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ نہ صرف ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن ،، بلکہ لباس ، کھانے اور زبانوں پر بھی اثر انداز ہو رہۓ ہیں ،،،، تو عادات و خصلتوں کے لحاظ سے بھی کیوں نہ اثر پزیری ہو !!پہلے زمانے میں ملکوں ، اور قوموں کی آپسی میل ملاپ بہت آہستگی سے پنپتا تھا ۔ لیکن جب جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اقوام نے تیزی سے ملنا جلنا شروع کیا تو علم ہوا کہ کچھ عادات سے جُڑے الفاظ اور ضوابط بین الاقوامی پہچان لیۓ ہوتے ہیں ،اور وہ دنیا کے ہر خطے میں وہی معنی رکھتے ہیں ، مثلا" جھوٹ نہ بولو،، چوری نہ کرو ، دوسروں کا حق نہ کھاؤ ، بڑوں کا ادب کرو ،، ماحول صاف اور سر سبز رکھو وغیرہ وغیرہ !!لیکن جہاں حسب نسب کا قصہ کہانی شروع ہوئی ، وہاں دنیا کے ہر خطے والے ، ہاتھ میں پکڑے "نسب کے مورچھَل" ہلانے لگتے ہیں ، کیوں کہ ذرا سا بھی بہتر پس منظر رکھنے والا، چاہتا ہے ، بس "اِسی" کی اہمیت تسلیم کی جاۓ !! بس " اسی " کو دیکھا جاۓ ، اور سُنا جاۓ ،،،، !شاید یہ انسانی فطرت بھی ہے ، کہ کہیں سے کسی حوالے سے اس کی شخصیت پربھی کچھ چاند تارے ٹانک دیۓ جائیں ۔ تسلیم کیا جاۓ کہ یہ ہیں " ہم "،،،، جی ہم "لیکن ، یہ اَور بات کہ اِس " ہم " میں ذیادہ تروہ ہیں جن میں کوئی " گُن " نہیں ۔ کوئی اقدار کا پاس ، ، کوئی اُصولِ پاسداری ،، کوئ ضابطہء زندگی نہیں ،، کوئ زبان کا پاس ،، کوئ زبان کی احتیاط نہیں رہی ،، گویا " کلر ذدہ " فطرت لیۓ وقت گزار لیتے ہیں ، ، ۔ یہ " ہم ذدہ لوگ " ،،،،، پدرم سلطان بُود کے تحت چار پیسے آجانے پر دوسروں کو نظریں ٹیڑھی کر کے دیکھتے رہتے ہیں ،،،،،،اور کچھ ایسے " ہم " ہیں جو ذرا سا اختیار یا اقتدار یا مال آجانے پر تکبر کے پہاڑ کی چوٹی پر جا بیٹھتے ہیں ۔ جہاں سے باقی لوگ انھیں ، چیونٹیاں لگنےلگتے ہیں ،،بلکہ ذہنی پسماندہ ، اور احمق بھی ۔ اسی لیۓ وہ دل کھول کر امانت کے طور پر دی گئ حیثیت اور مال کو اتنی بے دردی سے استعمال کرتے ہیں کہ اپنے وقت کے " فرعون " بن جاتے ہیں ، اپنا اور اپنی اگلی آٹھ دس نسلوں کا مستقبل محفوظ کرلیتے ہیں ، اور اس قدر شاد کام ہوجاتے ہیں ، کہ یہ " " ہم ذدہ " لوگ تمام اُصول و قانون ، کو پاؤں کی دھول سمجھ کر اپنے دورِ اقتدار کو گزار لیتے ہیں ۔ لیکن اپنی ذات کے حوالے سے ذلت آمیز جملوں ، مقدموں ، اور چوریوں کا کُھل جانے سے اُن کی مسکراہٹوں پر کوئ فرق نہیں پڑتا ۔ کسی معصوم کو قتل کر کے عدالتوں کے باہر وکٹری کا نشان یوں بنارہے ہوتے ہیں ، جیسے انھوں نے ملک کی سرحدوں کو بچانے میں کوئی اہم کارنامہ انجام دیا ہے ،،،، بس وہ ایک مطالبہ ضرور کرتے نظر آئیں گے " دیکھیں جی، آخر ہم خاندانی لوگ ہیں " ،،،، ہماری گلی کا سویپر یا صفائی والا ، روزانہ صبح تڑکے ، پوری گلی، جو ڈیڑھ فرلانگ تک کی ہے،، کی صفائی کرتا ہے ، نیز ہر گھر کے باہر پڑا کوڑا بڑے کوڑے دان میں ڈالتا ہے ،،اس بڑے کوڑے دان کے گرد پڑے گند کو بھی کوڑے دان میں ڈال دیتا ہے ۔ اِس بارے کسی گھر سے اس کی کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ ساری سٹریٹ ہمیشہ صاف ہوتی ہے ۔جب کبھی عید ، رمضان کے مواقع ہوں ، وہ اپنی شکل اکثر گھر والوں کو دوپہر کی روشنی میں دکھا دیتا ہے ، ، تاکہ اُس کی سال بھر کی ایماندارانہ خدمات پر جو جتنا دینا چاہے دے بھی دے ! اسے بھی کچھ سہولت مل جاۓ ،،، یہ اُس کا حق بھی ہے۔
میَں سلیم سویپر کو ہمیشہ " خاندانی " آدمی بولتی ہوں ۔ کیوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بہ احسن اور دیانت داری سے پوری کرتا ہے ،، وہ اپنی تنخواہ کے علاوہ ، اہم مواقع پر ہی دن کی روشنی میں دروازہ کھٹکھٹاتا ،، اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ۔ورنہ گرمی ، سردی تڑکے ہی اپنا کام کر کے چلا جاتا ہے ۔ اس نے کبھی بے جا ، لالچ کا مظاہرہ نہیں کیا ۔۔۔ تو میرے نزدیک " یہ خاندانی " ہوا ۔
لہٰذا ،،لفظ خاندانی اور عالی نسب ہونے کے معنی بدل دیۓ جانے چاہییں ، ورنہ اِن الفاظ کی توہین ہوتی جاۓ گی ۔ اور ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے ، جو ایسے " بے پیندے کے ہم ذدہ " لوگوں کو سلام کرتے ، اور اُن سے اپنا تعلق جوڑنے میں فخر کرتے نظر آئیں گے ۔ اُن کی خوش آمد کر کے اپنے آپ کو بے توقیر کرتے رہیں گے ۔ خاندانی صرف وہ ہے جس کے ہر طرح کےشر سے دوسرے محفوظ ہیں ۔ اور جو اپنے دائرہء اختیار و اقتدار کو ایمان داری ، دیانت داری سے استعمال کرتا ہے ۔
( منیرہ قریشی 30 جنوری 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں