" اِک پرِ خیال "
' مَور " ( 26)۔
محفل بہت شاندار تھی ، کہ محفل میں موجود افراد بھی " شاندار " تھے ، ، سٹیٹس ، آسودگی ، ، اور اعلیٰ عہدوں کا بھی مکمل مظاہرہ ہو رہا تھا ،، ایسی محافل میں شرکت ، اگر مزاج کے منافی ہو بھی، تو ،کوئ ہرج نہیں کبھی کبھی یہ شرکت منفرد مشاہدوں کا باعث بن جاتی ہے ،، ایک کونے میں بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنا ، بہت عجیب احساسات سامنے لاتا ہے ، کہ کوئی اتنا بے فکر ، ایسا پہننے اوڑھنے کا اعلیٰ ذوق رکھنے والا ،، کوئی اتنا مصنوعی رویہ اپنانے والا طبقہ بھی ہو سکتا ہے ،،،، !! لیکن یہ ہوتا ہے ،، ایسا طبقہ ہر دور ، ہر خطے میں رہا ہے اور رہۓ گا ۔
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اپنی جاننے والی ایک نہایت با ذوق خاتون نظر آئیں ، ، انھوں نے بھی دیکھ لیا اور سیدھی میرے ہی میز پر ایک کرسی سنبھال لی ۔ علیک سلیک ،، کے بعد انھوں نے میری مصروفیات پوچھیں ،،، اور میَں نے ان کی ،،، اور یوں گفتگو کا آغاز ہوا ۔
میں جانتی تھی کہ اُن کی شادی " محبت کی شادی " تھی ،، خوب صورتی ، خوش لباسی اور گھر کو اعلیٰ ذوق سے سجانے ، اور ذہانت کے امتزاج نے انھیں ،،، 75 سے اوپر ہونے کے باوجود " جاذبِ نظر "بنا یا ہوا تھا ۔ بتانے لگیں ،،،،،، آدھی دنیا دیکھ لی ہے ،، دنیا کی کون سی خواہش تھی جو اللہ نے پوری نہیں کی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ " اتنے اچھے شوہر " کا ہونا بھی خوش قسمتی کا نکتہء عروج ہوا ۔۔ پھر خود ہی کہنے لگیں "" مجھے بھی تو اسے جیتنے کے لیۓ بہت کچھ سیکھنا پڑا ،، خود کو بدلنا پڑا ۔ ورنہ بھلے محبت کی شادی ہو ،، کچھ عرصہ کے چاہ ، سبھا کے بعد اختلافِ راۓ شروع ہو ہی جاتا ہے ،،، لیکن میَں نے تہیہ کر رکھا تھا ،، یہ موقع آنے ہی نہیں دوں گی ۔ خود کو خوب سنوار کر رکھنا ترجیع رہی ، شوہر کی پسند کے رنگ اپناۓ ، کھانے سیکھے ، پکاۓ اور پکواۓ ،، اور اسی کی بولی کو ایسا اپنایا ،، کہ اسی کے رنگ میں رنگ گئی ، ، ، ، لیکن آج ایک مدت سے وہ میرے رنگ میں رنگ چکا ہے ۔ اور وہ مجھے آج بھی والہانہ چاہتا ہے ۔
وہ مسلسل اپنی پچھلی گزری کامیابیوں کا ذکر کرتی رہیں ۔ اور میرے سامنے اَن دیکھی " فلم " چلنے لگی ۔ یوں لگا ، اس خاتون نے " مور کے پَر " لگا لیۓ تھے ۔ اور جوں ہی شوہر گھر آتا ،، اور وہ " مور ناچ " شروع کر دیتی ،،، شوہر کا دھیان اتنی رنگین اور متحرک دنیا میں ایسا لگتا کہ ہر چیز اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ،،، دل اور دماغ انہی رنگوں میں ڈوب جاتا ،، وہ کچھ بھی کہتا ، فوراً حاضر ،،، وہ کچھ بھی سوچتا ،، عندیہ پہلے ہی بھانپ لیا جاتا ۔ ،،، اور یوں بہت آہستگی سے خاتون اپنے لگے پَروں میں سے چند " پَر " شوہر کے کندھوں پر لگاتی چلی گئ ،،، اور ایک وقت آگیا کہ اب " وہ مرد مور " بن گیا ہے ،، اب اُسی کے گرد ناچتا ہے ،، جو پہلے اس بے پَر " محبوب " کے گرد ناچتی تھی !! کتنی خوش کن کہانی تھی ۔ فلم ختم ہوئی ۔ تو اصل سوچ جو انسا ن اور نا مکمل انسان کی سوچ ہوتی ہے ،، اُلجھانے لگی ،،، تَو کیا ہر محبوب یا محبوبہ ایسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟،، کیا اس گُر کو اپنانے سے سبھی " تیر" نشانے پر لگ جاتے ہیں ؟ تو کیا کبھی کبھی " تُکا " بھی " تیر " بن جاتا ہے ؟
( منیرہ قریشی 20 جنوری 2019ء واہ کینٹ )
محفل بہت شاندار تھی ، کہ محفل میں موجود افراد بھی " شاندار " تھے ، ، سٹیٹس ، آسودگی ، ، اور اعلیٰ عہدوں کا بھی مکمل مظاہرہ ہو رہا تھا ،، ایسی محافل میں شرکت ، اگر مزاج کے منافی ہو بھی، تو ،کوئ ہرج نہیں کبھی کبھی یہ شرکت منفرد مشاہدوں کا باعث بن جاتی ہے ،، ایک کونے میں بیٹھ کر لوگوں کو دیکھنا ، بہت عجیب احساسات سامنے لاتا ہے ، کہ کوئی اتنا بے فکر ، ایسا پہننے اوڑھنے کا اعلیٰ ذوق رکھنے والا ،، کوئی اتنا مصنوعی رویہ اپنانے والا طبقہ بھی ہو سکتا ہے ،،،، !! لیکن یہ ہوتا ہے ،، ایسا طبقہ ہر دور ، ہر خطے میں رہا ہے اور رہۓ گا ۔
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ اپنی جاننے والی ایک نہایت با ذوق خاتون نظر آئیں ، ، انھوں نے بھی دیکھ لیا اور سیدھی میرے ہی میز پر ایک کرسی سنبھال لی ۔ علیک سلیک ،، کے بعد انھوں نے میری مصروفیات پوچھیں ،،، اور میَں نے ان کی ،،، اور یوں گفتگو کا آغاز ہوا ۔
میں جانتی تھی کہ اُن کی شادی " محبت کی شادی " تھی ،، خوب صورتی ، خوش لباسی اور گھر کو اعلیٰ ذوق سے سجانے ، اور ذہانت کے امتزاج نے انھیں ،،، 75 سے اوپر ہونے کے باوجود " جاذبِ نظر "بنا یا ہوا تھا ۔ بتانے لگیں ،،،،،، آدھی دنیا دیکھ لی ہے ،، دنیا کی کون سی خواہش تھی جو اللہ نے پوری نہیں کی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ " اتنے اچھے شوہر " کا ہونا بھی خوش قسمتی کا نکتہء عروج ہوا ۔۔ پھر خود ہی کہنے لگیں "" مجھے بھی تو اسے جیتنے کے لیۓ بہت کچھ سیکھنا پڑا ،، خود کو بدلنا پڑا ۔ ورنہ بھلے محبت کی شادی ہو ،، کچھ عرصہ کے چاہ ، سبھا کے بعد اختلافِ راۓ شروع ہو ہی جاتا ہے ،،، لیکن میَں نے تہیہ کر رکھا تھا ،، یہ موقع آنے ہی نہیں دوں گی ۔ خود کو خوب سنوار کر رکھنا ترجیع رہی ، شوہر کی پسند کے رنگ اپناۓ ، کھانے سیکھے ، پکاۓ اور پکواۓ ،، اور اسی کی بولی کو ایسا اپنایا ،، کہ اسی کے رنگ میں رنگ گئی ، ، ، ، لیکن آج ایک مدت سے وہ میرے رنگ میں رنگ چکا ہے ۔ اور وہ مجھے آج بھی والہانہ چاہتا ہے ۔
وہ مسلسل اپنی پچھلی گزری کامیابیوں کا ذکر کرتی رہیں ۔ اور میرے سامنے اَن دیکھی " فلم " چلنے لگی ۔ یوں لگا ، اس خاتون نے " مور کے پَر " لگا لیۓ تھے ۔ اور جوں ہی شوہر گھر آتا ،، اور وہ " مور ناچ " شروع کر دیتی ،،، شوہر کا دھیان اتنی رنگین اور متحرک دنیا میں ایسا لگتا کہ ہر چیز اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ،،، دل اور دماغ انہی رنگوں میں ڈوب جاتا ،، وہ کچھ بھی کہتا ، فوراً حاضر ،،، وہ کچھ بھی سوچتا ،، عندیہ پہلے ہی بھانپ لیا جاتا ۔ ،،، اور یوں بہت آہستگی سے خاتون اپنے لگے پَروں میں سے چند " پَر " شوہر کے کندھوں پر لگاتی چلی گئ ،،، اور ایک وقت آگیا کہ اب " وہ مرد مور " بن گیا ہے ،، اب اُسی کے گرد ناچتا ہے ،، جو پہلے اس بے پَر " محبوب " کے گرد ناچتی تھی !! کتنی خوش کن کہانی تھی ۔ فلم ختم ہوئی ۔ تو اصل سوچ جو انسا ن اور نا مکمل انسان کی سوچ ہوتی ہے ،، اُلجھانے لگی ،،، تَو کیا ہر محبوب یا محبوبہ ایسے کامیاب ہو سکتی ہے ؟،، کیا اس گُر کو اپنانے سے سبھی " تیر" نشانے پر لگ جاتے ہیں ؟ تو کیا کبھی کبھی " تُکا " بھی " تیر " بن جاتا ہے ؟
( منیرہ قریشی 20 جنوری 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں