منگل، 25 مئی، 2021

" ہم سب کا خدا بادشاہ " ( 2)

" ہم سب کا خدا بادشاہ " ( 2)
'' تقدیر یا تدبیر "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا جس کے دربار میں ایک جن بھی شامل تھا ۔دربار میں ایک دن ، انسانوں اور جنِوں کے درمیان ،،، تقدیر اور تدبیر کے اثرات کی بحث چل نکلی جن کے پاس بھی مضبوط دلائل تھے کہ اچھی اور محفوظ تدابیر سے تقدیر بدلی جا سکتی ہے ،، جبکہ کچھ اِنس و جِن کی طرف سے بھی تقدیر کے اٹل ہونے پر مضبوط دلائل تھے ،،، بادشاہء زماں نے بہت بڑھ بڑھ کر بولنے والے جِن سے کہا ،، " اگر تمہیں اپنی دلیل کے اٹل ہونے کا اتنا ہی یقین ہے تو ثابت کر کے دکھاؤ ،،، !! جن نے کچھ عرصہ کی اجازت مانگی ،،، جو اسے کچھ سالوں کے لیۓ مل گئی ،،،،!
یہ جن دن رات ترکیبیں سوچتا رہا کہ ایسا کیا کروں کہ اپنے دلائل ثابت کر سکوں " !
ایک دن انہی خیالوں میں اُڑتا ہوا جا رہا تھا ۔ کہ اس کی نظر پڑوسی بادشاہ کے محل پر پڑی ،،، اس کے وسیع و عریض چمن میں نو عمر شہزادی اپنی کنیزوں اور سہیلیوں کے ساتھ چھُپن چھُپائی کھیل رہی تھی ،،، وہ اپنی سہیلیوں سے چھپنے کے لیۓ ایک الگ تھلگ درخت کے پیچھے چھُپی ہوئی تھی ،،، کہ اس جِن نے فوراً شہزادی کو غائب حالت میں ایک رومال میں دوا سے سُنگھا کر بے ہوش کیا ،،، اور لے کر اُڑ چلا ۔ اس نے ایک بڑے اور گھنے
درخت ، کی شاخوں کے درمیان ایک دم ایک آرام دہ کمرہ بنایا ،،، اس میں شہزادی کی ضرورت کی اور کھانے پینے کی تمام اشیاء رکھ دیں ،، تاکہ شہزادی ہوش میں آۓ تو یکدم پریشان نہ ہو جاۓ ۔ یہ درخت ایک شوریدہ اور خوب چوڑے دریا کے درمیان تھا ،، دور دور تک صرف جنگل پیابان تھا ۔
ہوش آنے تک جن مناسب شکل میں ایک بزرگ آدمی کی صورت میں آ گیا ،، شہزادی ہوش میں آئی تو ظاہر ہے ،، رونا دھونا ہوا،، اور کھانے پینے سے انکار کر دیا ۔ کیوں کہ اس تبدیلی نے اس کے حواس گم کر دیۓ تھے ۔
جن کو اندازہ تھا ،، انسان تا دیر نئی جگہ ، لوگ اور ماحول کو اپنا نہیں پاتا ۔ اس لیۓ اس نے اس کی تمام ضرورت کی چیزیں رکھیں ،، اور یہ کہہ کر نکل گیا ،، " میں کل آؤں گا " ابھی تم آرام کرو " !
نو عمر شہزادی غم و دکھ میں روتے روتے سو گئی ،،، جن اگلے دن بزرگ کی شکل میں آیا ،، اور اس سے پُر شفقت انداز سے اسے جھوٹی سچی تسلیاں دیں ،، تاکہ وہ کہیں بیمار نہ ہو جاۓ ۔ کہیں بادشاہء معظم اسے سزا نہ دیں ۔ شہزادی کی پسند کی جیزوں سے متعلق پوچھا ، اور اگلے دن آنے کا کہہ کر چلا گیا ۔ بہت آہستہ آہستہ شہزادی جن کی عادی ہوتی چلی گئی اور وہ اسی کی وجہ سے اپنی ضرورت کی چیزیں منگوانے لگی ،، وہ آس پاس کی کھڑکیوں سے جنگل یا دریا کا نظارہ کرتی ،، اسے اپنے جیسا کوئی اور انسان نظر نہ آتا ،، لیکن جن جسے وہ بابا کہنے لگی تھی ، کے بارے میں جان چکی تھی کہ وہ ایک جن ہے ،، کہ کمرے سے نکلتے ہی وہ غائب ہو جاتا ، جبکہ باہر کوئی سیڑھی نہیں تھی ۔ وقت گزرتا گیا ،، اور شہزادی نو عمری کے دور سے نو جوانی میں داخل ہو گئی ، ،،جن کے آنے کے دورانیہ میں لمبا وقفہ آنے لگا ۔ کیوں کہ وہ اب مطمئن تھا ۔ کہ اب اس شہزادی کو پیش کرنے کا وقت آنے والا ہے ،،، اور وہ بادشاہء معظم کے سامنے اپنی شرط جیت جاۓ گا ، ،
ایک دن طوفان کے آثار تھے ،، دن میں بھی رات چھا گئی تھی ۔ شہزادی نے ایسی طوفانی کیفیت پہلی مرتبہ دیکھی تھی ،، ڈر اور خوف سے اس کا برا حال ہو گیا ۔ کافی دیر گزر گئی ،،، کہ اس دوران اسے دروازے پر دستک سنائی دی ،، ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا ۔ کہ کسی نے دستک دی ہو ،، ورنہ جن تو خود بخود اندر آ موجود ہوتا تھا ،، شہزادی نے خوف و دہشت سے پوچھا کون ،، تو اسے ایک گھبرائی آواز سنائی دی ،، ہمیں کچھ دیر کے لیۓ اندر پناہ دو ،، طوفان گزرنے تک ہم رکنا چاہیں گے ۔ " ، شہزادی نے دروازہ کھولا ،، تو وہاں دو جوان بہ مشکل ٹہنی پر بیٹھے ہوۓ تھے ۔ دروازہ کھلتے ہی دونوں جوان اندر داخل ہو گۓ ۔ شہزادی کو ایک مدت بعد اپنے جیسے انسانوں کو دیکھنا ہوا تو وہ اغواء ہونے سے پہلے کی مدت کی یادیں یاد آ گئیں کہ انسان ایسے ہوتے ہیں ۔ان میں سے ایک جوان اچھے حلیۓ میں اور دوسرا انتہائی غریبانہ حلیۓ میں تھا ۔ شہزادی نے امیر شخص کو جو کافی زخمی تھا کو اپنے پاس موجود مختلف دوائیں دیں ،، تو غریب آدمی نے اپنے ساتھی کی مرحم پٹی کی ،، کچھ کھانے کھاۓ اور آرام کرنے لگے ، دونوں جوان حیران تھے کہ اکیلی لڑکی کیسے ، کیوں کر یہاں اس طرح رہ رہی ہے ، لیکن انھیں فی الحال طوفان سے پناہ مل گئی تھی ۔ شہزادی نے اگلے دن ہی واضع کیا کہ میں ایک جن کی قید میں ہوں اور مجھے نہیں معلوم کتنا عرصہ گزر گیا ہے بس میں اس وقت اتنی سی تھی ،، شہزادی نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو جونوں کو اندازہ ہوا کہ وہ اس وقت سات آٹھ سال کی ہوگی اور اب ان کے اندازے سے بارہ سال گزر چکے ہوں گے ۔۔ شہزادی ،، جن کے آنے کے خوف سے انھیں جانے کا کہتی رہی لیکن ،، غریب لڑکے نے بتایا ،، یہ ایک ملک کا شہزادہ ہے ، اور میں اس کشتی کا ملاح ہوں جس پر سوار شہزادے کے ساتھی ، مچھلیوں کے شکار کے لیۓ نکلے تھے ،، کہ اس طوفان نے کشتی ، بری طرح تباہ کر دی ،، باقیوں کا کیا بنا ،، صرف ہم دونوں ایک تختے سے چمٹ کر اس درخت کی لمبی شاخوں سے اٹک گۓ ،، چڑھتی طوفانی لہروں سے بچنے کے لیۓ درخت پر چڑھے تو کمرہ دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور بچنے کی امید بھی ،،، اور یہاں تو ایک اور ہی ماجرہ نظر آ گیا ہے۔ شہزادے نے کچھ بہتر ہونے تک ٹھہرنے کی اجازت چاہی ،، شہزادی نے بتا دیا کہ جن انھیں زندہ نہیں چھوڑے گا ،،، حیرت انگیز طور پر جن کے آنے کا وقفہ لمبا ہوا ،، اور ان چند دنوں میں شہزادہ بہتر ہو گیا ،، اور وہی ہوا ،، جو تقدیر نے رنگ دکھانا ہوتا ہے ۔ کہ شہزادی ، شہزادے کی دلچسپی دیکھ کر سادہ دل ملاح نے کہا ،، جناب عالی ،میں آپ دونوں کا نکاح کر دیتا ہوں ،، کہ آپ کا یہاں اس طرح اکیلا رہنا ٹھیک نہیں ۔ اور اس کے بعد میں جلد از جلد شہر تک پہنچ کر آپ کے لیۓ مدد لے کر آ جاؤں گا ۔ طوفان کی وجہ سے لا تعداد تختے نیچے موجود ہیں میں کسی طرح پہنچ جاؤں گا ۔۔ یہ ساری بحث سن کر شہزادی اور شہزادہ راضی ہو گۓ ۔ اور ملاح نے ان کا نکاح پڑھایا ۔ اور اجازت لے کر چلا گیا ۔۔ لیکن چند دن گزر گۓ ،،، اور جن آ گیا ،، شہزادی نے شہزادے کو کسی طرح ایسے چھپایا ، کہ جن کو شک نہ ہوا ۔۔ جن نے آتے ہی نۓ انسان کی بُو کا ذکر کیا ،، شہزادی نے کہا ،، خود سوچو یہاں کیسے کوئی آسکتا ہے ، دریا کے درمیان ایک اکیلا درخت ،،، اس قدر بڑا طوفان گزرا ،، اس کی بُو سے تم پریشان ہو رہۓ ہو ۔ جن کچھ مطمئن ،، کچھ غیر مطمءن ہوا ،، اور شہزادی تک کھانے پینے کی اشیاء پہنچا کر ، واپس چلا گیا ۔ کہ آج کل دربار میں میری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے ،، اس لیۓ میرے آنے کا وقفہ ہو گا ۔۔ شہزادی مطمئن ہو گئی ۔ اب شہزادی کے دن خوشی خوشی گزرنے لگے ،، اور چند ماہ مزید گزر گۓ ، شہزادے کی بہتر صحت کے بعد ضد تھی کہ ہم دونوں ہمت کر کے فرار ہو جائیں ،، لیکن شہزادی جانتی تھی کہ جن ہر جگہ سے اسے تلاش کر لے گا اور شہزادے کو نقصان پہنچاۓ گا ،، شہزادے کو ملاح پر بھی حیرت تھی کہ وہ آج کئی مہینوں سے کمک لینے گیا اور پھر نہیں پلٹا ۔ اب شہزادی ماں بننے کے عمل سے گزرنے والی تھی ، شہزادہ سخت پریشان تھا ۔ کہ وہ اکیلے کیسے سنبھال سکے گا ۔ کہ ایک دن شہزادی کو جن کے آنے کا احساس ہوا ، جو اسے اندازہ ہو جاتا تھا ،، شہزادہ فورا" چھُپ گیا ، اور جن نے شہزادی کو آکر کہا ،، تیار رہنا ،، میں تمہیں اس کمرے سمیت اُٹھا کر آج بادشاہ سلامت کے حضور پیش کرنے جا رہا ہوں " یہ ایک شرط تھی ، جو میں نے جیتنی تھی ،،، اور اب جیت گیا ہوں ،، اب تمہیں شاہی دربار میں لے جانے آیا ہوں ۔ شہزادی ، حیران اور پریشان تھی کیوں کہ اس کے بچے کی پیدائش کا وقت شروع ہو چکا تھا،،، جن نے ایک نعرہ بلند کیا اور کمرہ ہاتھوں میں اٹھا کر پرواز شروع کردی ،، چند منٹوں میں جن بادشاہء زماں کے دربار میں پہنچا ،، اور فاتحانہ انداز سے درباریوں سے مخاطب کر کے کہا ، " بارہ سال پہلے تقدیر اور تدبیر کی جو بحث چلی تھی کہ جو لکھا گیا ،، وہ بدل نہیں سکتا ،، میں نے فلاں بادشاہ کی بیٹی کو اغواء کیا ، جس کی منگنی فلاں بادشاہ کے بیٹے ستے ہو چکی تھی ،، لیکن اب اس شہزادے کی کشتی کے حادثے میں انتقال کی تصدیق کروا لیا ، تو مجھے احساس ہوا کہ اب اس شہزادی کی شادی کہیں اور ہو سکے گی ،،، اور ہم تقدیر کو تدبیر سے بدل سکتے ہیں ۔ ورنہ اس شہزادی کی شادی اُسی شہزادے سے ہو جانی تھی ۔ بادشاہ سلامت نے دروازہ کھولنے کا حکم دیا تو ،،،،، اندر سے ایک شہزادی کے بجاۓ ،، تین افراد بر آمد ہوۓ ، شہزادی، شہزادہ ، اور ان کا بچہ !!! جن یہ سب دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ ،،، باشاہء وقت نے شہزادے سے پوچھا تم اسی فلاں ملک کے شہزادے ہو ؟ شہزادے کے اثبات پر ،،، اس نے سارا قصہ ، شروع سے آخر تک سنایا ۔۔۔ جن بادشاہ کے قدموں پر گِر گیا ۔ لیکن بادشاہ نے اس جن کو عمر قید کی سزا دی کہ اللہ پر یقین محکم نہ ہو تو ایسی بحث میں قدرت کو چیلنج کرنے والی حرکت نا قابلِ معافی ہوتی ہے ۔ اور شہزادی ، اور شہزادے کو ان کے لواحقین کے آنے تک شاہی مہمان خانے میں ٹھہرا لیا،، (کہتے ہیں یہ کہانی ، حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی ہے لیکن ، ہماری والدہ نے ہمیں ایسے ہی سنائی ،جو آج لکھنے کو دل چاہا ،، تو لکھ دی کہ ہر کہانی ایک پیغام لیۓ ہوتی ہے )

( منیرہ قریشی 25 مئی 2021ء ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں